پاکستانی عوام مہنگائی سے بے حال ہیں اور کسی بھی سمت سے ایسے کوئی اشارے نہیں ہیں کہ آنے والے دنوں میں عوام کو کوئی راحت مل سکتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان مہنگائی کم کرنے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، ان کی ٹیم دن رات محنت کر رہی ہے لیکن عوام کو ابھی ریلیف نہیں مل رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مہنگائی ہوتی کیوں ہے، مہنگائی کی دو صورتیں ہوتی ہیں، ایک روٹین میں مہنگائی ہوتی ہے، جیسے کچھ اشیا ہم باہر سے منگواتے ہیں، وہ ڈالر کی وجہ سے مہنگی آتی ہیں یہ تو ہو گئی روٹین کی مہنگائی، دوسرا تہواروں پر چیزیں مہنگی کردی جاتی ہیں۔ بد قسمتی سے اسلامی ممالک خاص طور پر پاکستان میں جب بھی کوئی تہوار آتا ہے، جیسے عیدیں۔ اس موقع پر چیزیں مہنگی کردی جاتی ہیں۔ اب عید قربان آ رہی ہے، تو کھانے میں استعمال ہونے والی چیزیں جیسے پیاز، ٹماٹر، ادرک، لہسن اور مصالحہ جات بہت مہنگے کردیے گئے ہیں۔ اسکی بھی دو وجوہات ہیں، جیسے رسد و طلب بھی وجہ بن جاتی ہے، تہواروں پر جس چیز کی مانگ بڑھ جاتی ہے، وہ مہنگی ہو جاتی ہے، جس شے کی مانگ کم ہو جاتی ہے، وہ سستی ہو جاتی ہے۔ جب آمدن کے مقابلے میں ضروریات زندگی کی قیمتیں بڑھ جائیں، تو مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب زیادہ پیسوں میں تھوڑی چیز میسر ہو تو بھی اسے معا شی نکتہ نظر سے مہنگائی کہا جاتا ہے۔ روپیہ ڈالر کی حاکمیت کا شکار ہے، اس معاشی افراتفری میں اشیا کی قیمتوں کا کنٹرول میں رکھنا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ بے شمار ٹیکس بھی قیمتوں میں اضافے کا موجب بن رہے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی، ناجائز بلیک مارکیٹنگ اور رسد میں رکاوٹ بھی مہنگائی کا باعث بنتی ہے۔ بے دریغ لیے گئے غیر ملکی قرضہ جات بھی معیشتیں کمزور کرتے ہیں، حکومتی اخراجات اور معاشی خسارہ پورا کرنے کیلئے بے تحاشا نوٹ چھاپنے سے افراط زر پھیلتا ہے۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم بھی مہنگائی کو بڑھاوا دیتی ہے کیونکہ دولت مند افراد کم وسائل کے حامل لوگوں کو لوٹنے لگ جاتے ہیں، جو مہنگائی کا باعث بنتے ہیں۔ حکومت جب تک ذاتی مفادات کے برعکس اقتصادی استحکام کو ترجیح نہیں دیتی، معاشی عدم استحکام ختم نہیں ہو سکتا۔ لوگوں کے ذرائع آمدن پہلے ہی کورونا وائرس کے منفی اثرات کے باعث آدھے سے بھی کم ہو چکے ہیں۔ نچلہ طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے، جو کرائے کے گھروں میں رہتا ہے۔ گزشتہ دس سالوں سے مکانوں اور دکانوں کے بڑھتے ہوئے کرائے بھی مہنگائی میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔ جن کو کسی بھی حکومت نے کنٹرول کرنے کی کبھی نہ تو کوشش کی نہ ہی اس ضمن میں کبھی کوئی قانون سازی عمل میں آئی۔
نجی ہسپتالوں ڈاکٹروں اور سکولوں کی بڑھتی ہوئی فیسیں اور مہنگی ادویات بھی مہنگائی میں اضافے کا اہم ذریعہ ہیں۔ صحت اور تعلیم دونوں حکومت کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ عوام سے لیے گئے ٹیکسوں کے عوض ریاست نے عوام کو صحت اور تعلیم کی جو معیاری سہولتیں فراہم کرنی ہوتی ہیں۔ ان سہولتوں کی فراہمی بھی اشرافیہ تک محدود ہے، ان حالات میں اشرافیہ نے کم آمدنی والے طبقات کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ کنزیومر پرائس انڈکس آبادی کے استعمال کی اشیا کا جو سیٹ بناتی ہے، اسے سی پی آئی باسکٹ کہا جاتا ہے، جس کے مطابق ایک پاکستانی شہری ماہانہ 34.58 فیصد کھانے پر 26.68 فیصد مکان کے کرائے بجلی گیس پانی کے بلوں پر خرچ کرتا ہے۔ 8.6 فیصد کپڑوں جوتوں پر 7 فیصد ہوٹلنگ پر 6 فیصد ٹرانسپورٹ کرایوں پر 3.8 فیصد تعلیم پر اور 2.7 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس سال آٹے کی قیمتوں میں پچاس سے ساٹھ فیصد، چینی بیس سے تیس فیصد، دالیں پچیس سے چالیس فیصد، کوکنگ آئل، گوشت، دودھ اور چاول کی قیمتوں میں دس فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ انتظامی اداروں میں موجود پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان میں آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر فلورملز مالکان کا کہنا ہے کہ حکومت نے 7 سے 8 لاکھ ٹن گندم فیڈ ملز کو فراہم کر دی، حکومت کا وہ فیصلہ ملک میں گندم کی قلت کا باعث بنا۔ وزیراعظم نے منہ توڑ مہنگائی کے تدارک کے لیے نوٹس تو لے رکھا ہے لیکن عوام ان کے سابقہ لیے گئے نوٹسوں پر بھی تشویش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں کہ وزیر اعظم جس چیز کا نوٹس لے لیں وہ چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے ملک میں مہنگائی کی شرح کے تعین کے لیے ادارہ شماریات کو ملک کے مزید شہروں سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں اکٹھا کرنے کی ہدایت جاری کی ہے تاکہ ملک میں مہنگائی کی صحیح شرح کا تعین ہو سکے۔ اْنھوں نے ہدایات جاری کی ہیں کہ ہول سیل اور ریٹیل سطح پر قیمتوں کی باقاعدہ نگرانی کا طریقہ کار اپنایا جائے تاکہ ملک کے مختلف حصوں میں قیمتوں کے درمیان فرق کو بہتر انداز میں اکٹھا کیا جا سکے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح کے تعین کا ذمہ دار ادارہ شماریات پاکستان ہے۔ پاکستان میں کھلی منڈی کی قیمتیں اور سرکاری ادارے کی جانب سے اْنھیں اکٹھا کر کے اس کی بنیاد پر مہنگائی کی شرح کا تعین کرنے پر بہت سارے سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کی شرح کا تعین تین طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح کے اعداد و شمار ہیں جو کنزیومر پرائس انڈیکس کہلاتا ہے۔ اس میں ماہانہ بنیادوں پر قیمتوں میں ردّ و بدل کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ ہفتہ وار بنیادوں پر قیمتوں میں ہونے والے ردّ و بدل کو یہ ادارہ قیمتوں کے خاص اشاریے کے تحت جاری کرتا ہے، جس میں ہفتہ وار بنیادوں پر اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں کا تقابل کیا جاتا ہے۔ مہنگائی جانچنے کے لیے تیسرا طریقہ ہول سیل پرائس انڈیکس ہے، جس میں ماہانہ بنیادوں پر ہول سیل کی سطح پر قیمتوں میں ردّ و بدل کو دیکھا جاتا ہے۔ اس ادارے کے تحت پاکستان کے 35 شہری علاقوں اور 27 دیہاتی علاقوں سے قیمتیں اکٹھی کی جاتی ہیں۔ شہری علاقوں میں 65 مارکیٹوں اور دیہاتی علاقوں میں 27 مارکیٹوں سے قیمتوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے۔
شہری علاقوں میں 356 چیزوں کی قیمتوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے اور دیہاتی علاقوں سے 244 چیزوں کی قیمتیں معلوم کی جاتی ہیں۔ ان سب اعداد و شمار کو اکٹھا کر کے ایک اوسط نکال کر کنزیومر پرائس انڈیکس کے تحت ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح بتائی جاتی ہے۔ یہ ڈیٹا پنجاب کے 17، سندھ کے سات، خیبر پختونخوا کے پانچ اور بلوچستان کے چھ اضلاع سے اکٹھا کیا جاتا ہے جبکہ دیہاتی علاقوں میں پنجاب کے آٹھ، سندھ کے چھ، خیبر پختونخوا کے اور بلوچستان کے سات سات اضلاع کی ایک ایک دیہاتی مارکیٹ سے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ حکومت کے مطابق معیشت ترقی کر رہی ہے تمام انڈسٹریاں ترقی کر رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کو اس کا صلہ کب ملے گا۔ مہنگائی ہر ملک میں ہوتی ہے لیکن ساتھ ساتھ لوگوں کی قوت خرید بھی بڑھتی رہتی ہے۔ یہ پہلی بار ہوا کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے لیکن لوگوں کی نہ تنخواہ بڑھ رہی ہے نہ آمدن، اب دیکھنا ہے کہ کب اچھے دن آتے ہیں۔