پاکستان کی ہمیشہ سے پہچان ایک زرعی ملک کے طورپر رہی ہے، ملک کا 28 فیصد رقبہ زرعی اراضی پر مشتمل ہے، اس ملک میں چار موسم ہیں، ربیع اور خریف کی فصلیں سونا اور چاندی کہلاتی ہیں، کپاس چاندی اور گندم کو سونا کہا جاتا ہے پاکستان کی 45 فیصد آبادی براہ راست کاشتکاری سے منسلک ہے، مجموعی قومی پیدار میں زراعت کا حصہ 21 فیصد ہے یعنی زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، کوئی وقت تھا کہ پاکستان ایک زرعی قوت تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے، ان دنوں زرعی معیشت بحران کا شکار ہے، چینی اور گندم ایکسپورٹ کرنے والا ملک اب دونوں چیزیں امپورٹ کر رہا ہے، ملک میں آٹا 70 اور چینی 110 روپئے کلو تک پہنچ گئی ہے حکومت کے کچھ اقدامات کی بدولت ان دونوں اشیا کی قیمت میں 10 سے13 روپئے کمی ہوئی ہے پھر بھی بات تشویشناک ہے۔
ملک کی مجموعی ایکسپورٹ میں 60 فیصد حصہ ڈالنے والا ٹیکسٹائل سیکٹر کو دھاگے اور کپڑے کی تیاری کیلئے کپاس باہر سے منگوانی پڑ رہی ہے حد تو یہ ہے کہ ملک میں سبزیاں تک مہنگی ہو گئی ہیں، پچھلے دنوں ایران سے ٹماٹر اور افغانستان سے پیاز منگوانا پڑی، پچھلے سال وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے گندم اور چینی کی ایکسپورٹ پر درست اور بر وقت فیصلے نہ کئے گئے جبکہ اس سال گندم اور چینی کی امپورٹ کا فیصلہ تاخیر سے کیا گیا جس کی وجہ سے مل مالکان ذخیرہ اندوزوں اور مارکیٹ پورٹل نے عوام کو خوب لوٹا۔
وزیر اعظم نے اپنے پہلے خطاب میں قوم سے ملک میں زرعی ترقی کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ وعدہ پورا نہیں ہوا وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اگر پاکستان نے تیزی سے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں کسانوں کی مدد کرنی ہو گی کسانوں کے خرچے کم کرنا ہونگے اور فی ایکڑ پیداوار بڑھانی ہو گی، ایگریکلچر ریسرچ میں کام کرنا ہو گا، ہمارے کسان ہندوستان سے سبزیوں کے بیج لیتے ہیں، انشا اللہ حکومت کسانوں کی مدد کرنے کیلئے پورا زور لگائے گی۔
یہ باتیں وزیر اعظم نے دو سال پہلے کی تھیں لیکن ابھی تک ان پر کوئی عمل در آمد نہیں ہوا، کسان ابھی بھی رو رہے ہیں انہیں اپنی فصلوں کی مناسب قیمت نہیں مل رہی، اس سال کسانوں سے گندم 1400 سو روپے کلو خریدی گئی اور اچانک مارکیٹ میں قیمت 2200 سے 2400 روپے کلو تک پہنچ گئی جس سے آٹا کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی۔
علاوہ ازیں ہر سال کرشنگ سیزن شروع ہوتے ہیں چینی کی قیمت کم ہو جاتی ہے پنجاب حکومت نے 10 نومبر اور سندھ نے 30 نومبر سے کرشنگ سیزن شروع کرنے کا اعلان کیا اس مہینے وفاق اور صوبائی حکومتوں نے گندم گندم کی فی من سرکاری قیمت مقرر کردی ہے۔
پنجاب نے قیمت 1650 اور سندھ نے 2000 روپئے فی من قیمت مقرر کی ہے اس میں بھی پر ابلم پیدا ہو گی۔ پنجاب میں سب سے زیادہ گندم پیدا ہو تی ہے پنجاب میں قیمت کم ہونے کی وجہ سے گندم سندھ میں اسمگل ہو سکتی ہے یوں پھر بحران پیدا ہو سکتا ہے، ڈوسری طرف سرکاری قیمت کا تعین دیر سے کیا گیا جس کی وجہ سے پنجاب اور سندھ میں کاشتکاروں نے گندم کی بجائے دوسری فصلیں بیجی ہیں جس سے اس سال بھی گندم کا ہدف مکمل نہیں ہو پائے گا اور پھر سے کوئی بحران پیدا ہو گا۔ کپاس بھی پاکستان میں انتہائی اہم اور کیش فصل سمجھی جاتی ہے۔
کپاس کی بدالت ہی ملک بھر میں 500 کے قریب ٹیکسٹائل ملوں کا پہیہ گھومتا ہے ملک میں 13 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ ہو تی ہے لیکن پاکستان میں مسلسل کپاس کی فصل تباہ ہو رہی اس سلسلے میں کوئی ریسرچ سنٹر کام نہیں کر رہا۔
نیا بیج متعارف نہیں ہو رہا ہر سال کپاس کی فصل کو کیڑا لگتا ہے اس حوالے سے کوئی زرعی ادویات متعارف نہیں کرائی گئیں، جو ادویات استعمال ہو رہی ہیں وہ اب کار گر ثابت نہیں ہو رہیں۔ پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال کپاس کی پیداوار میں 30 فیصد کمی ہو ئی کا امکان ہے پچھلے سال 85 کروڑ ڈالر کی کاٹن امپورٹ کی گئی۔ اس سال کاٹن کی درآمدات ڑیڑھ ارب ڈالر ہو سکتی ہے، یہ امپورٹ وہ پاکستان کریگا جو کبھی کاٹن ایکسپورٹ کرتا تھا۔ کبھی وہ وقت تھا جب پاکستان میں 11 سے 12 لاکھ ملین گانٹھ پیدا ہوتی تھی پاکستان میں فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کیلئے نئے طریقوں کا فقدان ہے۔
پاکستان ایک مضبوط زرعی ملک سے مفلوک زرعی ملک کیوں بنتا جا رہا ہے، پاکستان میں جو بھی فصلیں ہیں، سب میں بحران نظر آ رہا ہے کسی قسم کی کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے وزیر اعظم اور وزراء بھی آئے روز بیانات دیتے ہیں کہ کچھ دنوں میں مہنگائی کم ہو جائے گی لیکن مہنگائی مزید بڑھ جاتی ہے۔
وزیر اعظم نے ٹائیگر فورس کو بھی اس کا م پر لگایا لیکن کوئی فرق نہیں پڑا، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سندھ میں ہونے والی بے موسمی بارش نے وہاں کی تمام فصلیں تباہ کردی تھیں جن میں سبزیاں بھی شامل ہیں، اسی لئے پاکستان میں سبزیاں ایک دم مہنگی ہو ئیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو حکومت سنبھالے تین سال ہونے والے ہیں، ان کے قوم سے جو وعدے تھے وہ ابھی تک وعدے ہی ہیں۔ گندم کی بیجائی کا آخری وقت 15 نومبر تک ہوتا ہے کسانوں کو اچھا بیج لینے میں دقت پیش آ رہی تھی۔ اچھا بیج نہیں ملا تھک ہار کر وہی بیجا گیا جو ان کے پاس تھا یہ وقت تھا کہ حکومت کسانوں کو معیاری بیج مفت فراہم کرتی۔
لاہور کے قریب کالا شاہ کاکو میں چاول کی ریسرچ کے حوالے سے ایک ادارہ ہے جو کبھی کار آمد ہوتا تھا لیکن حکومت اگر اسے اب بند بھی کردے تو چاول کی فصل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ یہ ادارہ ریسرچ کے حوالے سے کوئی کام نہیں کر رہا۔
حال میں حکومت نے ڈی اے پی پر سبسڈی کا اعلان کیا لیکن ابھی تک ڈیلر کئی علاقوں میں وہ سبسڈی کسانوں کو نہیں دے رہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ نیا اسٹاک آئے گا تو سبسڈی اس پر دی جائے گی اور جب تک نیا اسٹاک آئے گا گندم کی بیجائی کی آ ئیڈیل ڈیڈی لائن گزر چکی ہو گی۔
پاکستان کی معیشت میں مجموعی طور پر زراعت کا حصہ 21 فیصد بنتا ہے جو کم ہوتا جا رہا ہے، 18 ویں ترمیم کے بعد زراعت صوبوں کی ذمہ داری بن گئی ہے اس پر صوبوں کو آپس میں کوآرڈی نیشن کرنا چاہئے لیکن ہر صوبے میں الگ پارٹی کی حکومت ہونے کی وجہ سے صوبے آپس میں مل بیٹھ کر فیصلہ نہیں کر رہے، وفاق اور صوبوں کے درمیان کوارڈینیشن نہیں ہو رہی۔
یہ صورتحال اچھی نہیں ہے، پاکستان میں اس وقت آٹا، چینی، سبزیوں کا جو بحران چل رہا ہے وہ اور زراعت کا بحران جو بنا ہوا ہے اسی طرح چلتا رہا تو یہ ملک کے مستقبل کیلئے بہتر شگون نہیں ہو گا۔