اسٹاک مارکیٹ کے حوالے سے حکومتی اقدامات کے ثمر ملنا شروع ہوگئے ہیں، پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں 16 سال بعد 11 فروری کوایک ارب حصص کا کارو بار ریکارڈ کیا گیا، اس سے قبل 23 فروری 2005ء کو اس قدر کارو بار ہوا تھا۔ اسٹاک مارکیٹ کے بعد اب دیگر معاشی اشاریے بھی بہتر ہونا شروع ہو جائینگے، مارکیٹ پرفارم کر رہی ہے۔ کارو باری حضرات میں اعتماد آ رہا ہے، حکومت کارو بار کے حوالے سے جو بھی اقدامات کر رہی ہے اسکے اچھے نتائج آ رہے ہیں۔
ڈیجیٹل اکائونٹ میں غیرملکی پاکستانی اکائونٹ کھلوا رہے ہیں، کوویڈ کی وجہ سے تمام ممالک کی معیشت متاثر ہوئی لیکن خوش قسمتی سے کوویڈ کا پاکستان میں وہ اثر نہیں ہوا جو دیگر ممالک میں ہوا، اب پاکستان میں کوویڈ کا خوف ختم ہوتا جا رہا ہے، ویکسین آگئی ہے اورلگنا شروع ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے کارو بار میں ترقی شروع ہوگئی ہے، سیمنٹ، اسٹیل، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے۔ جس طرح سے اسٹاک مارکیٹ بہتر ہو رہی ہے، امید ہے اس سال کے آخر تک اسٹاک مارکیٹ 55000 تک پہنچ جائے گی۔ اس وقت ملک میں فارما انڈسٹری، ٹیکسٹائل، کیمیکل انڈسٹری تمام بہتر پرفارم کرہی ہیں، لوگوں کو روز گار مل رہا ہے، مہنگائی میں بھی کافی حد تک کمی آ گئی ہے، ڈالر نیچے آ رہا ہے، حکومت ہر قسم کے سرکولر ڈیٹ کو ختم کرنے کیلئے کوششیں کر رہی ہے۔ اگر یہ کام ہو گیا تو ایک نیا پاکستان دیکھنے کو ملے گا۔ کیبنٹ میٹنگ باقاعدگی کے ساتھ ہو رہی ہے، ہر اجلاس میں ایشو حل ہو رہے ہیں، لگ رہا ہے حکومت ملکی حالات بہتر بنانے کیلئے کوششیں کر رہی ہے۔ جتنے بھی ایشو ہیں ہر ایشو کو ایک ایک کر کے حل کرنے کی طرف جا رہی ہے، بہت سے مسائل حل ہو چکے ہیں کچھ باقی ہیں وہ بھی حل ہو جائینگے۔ دو مسائل ایسے ہیں جن کی وجہ سے تمام مسائل جنم لے رہے ہیں، بجلی اور پٹرول کی قیمتیں حکومت کے قابو میں نہیں آ رہیں، ہر 15 دن بعد پٹرولیم پرائس بڑھ رہی ہیں، پچھلے دنوں تین دنوں میں تین بار بجلی کی قیمتیں بڑھیں، ہر پندرہ دنوں بعد پٹرولیم کی قیمتیں پڑھا دی جاتی ہیں، جس کے باعث تقریباً ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے، کہا جا سکتا ہے کہ ہر پندرہ دنوں بعد عوام کو پریشانی لگ جاتی ہے، وزیر اعظم تو کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں، جس پر لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ جناب اب تھوڑا سا گھبرالیں۔
وزیر اعظم اپوزیشن کے حوالے سے کہا کرتے تھے کہ میں انہیں رلائوں گا لیکن دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اپوزیشن تو رو ہی رہی ہے عوام بھی رو رہے ہیں، شاید ہی کوئی طبقہ ہو جو نہ رو رہا ہو سرکاری ملازمین بھی خوب روئے اتنے روئے کہ انہیں چپ کرانے کیلئے آنسو گیس کی شیلنگ کرنا پڑی۔ اب سرکاری ملازمین کی تنخواہیں تو بڑھادی گئیں کہ پرائیویٹ نوکری کرنے والوں کا کیا قصور ان کی تنخواہیں کب بڑھیں گی۔ یہ کوئی نہیں جانتا غریب لوگوں کے مسائل کب حل ہونگے، سبزی فروٹ سستے ہوئے ہیں لیکن چینی آٹا، گھی، صابن، دالیں، گوشت، انڈے یہ سستے ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ ان کے علاوہ اور بھی چیزیں پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ کہا جا رہا کہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھی ہیں گزشتہ 2 ماہ میں انٹرنیشنل مارکیٹ میں 8 سے10ڈالر قیمتیں بڑھی ہیں اس کا تعلق ہمارے ہاں ڈالر کی قیمت سے بھی ہوتا ہے 2005 میں ڈالر 59 روپے کا تھا آج ڈالر 159 کا ہے۔ ڈالر میں 100 روپے کا اضافہ ہوا لیکن پٹرولیم کی قیمتوں میں اتنا اضافہ نہیں ہوا، پٹرولیم پر ٹیکس بہت زیادہ ہے۔ ایک لٹر پٹرول پر 21 روپے لیوی ہے۔ سیلز ٹیکس اور دوسرے ٹیکس اسکے علاوہ ہیں۔ ٹیکس کا اگر 40 یا 45 فیصد ہوگا تو مہنگا تو ہوگا، دوسرا پہلے خبریں چلتی ہیں کہ پٹرول زیادہ مہنگا ہو رہا ہے لیکن آخر میں کم بڑھایا جاتا ہے۔ یہ ایک نفسیات ہے کہ لوگوں کی توقع بنائی جائے 8 روپے لٹر پٹرول مہنگا ہو رہا ہے لیکن جب 3 روپے بڑھایا جاتا ہے تو لوگوں کو لگے کہ کم بڑھا ہے، ہمیں ریلیف دیا گیا ہے۔ پٹرولیم کی قیمتیں کم رکھنے کیلئے اس پر عائد ٹیکسوں کو کم کرنا چاہئے اور ٹیکس وہاں سے لیا جائے جہاں نہیں دیا جا رہا، آج بھی بہت سے شعبے ہیں ایسے ہیں جہاں سے پورا ٹیکس نہیں مل رہا۔ یہ پاکستان میں برننگ ایشو ہے کہ ایک تو لوگ ٹیکس نہیں دیتے اور ٹیکس ہوتے بھی ہیں تو وہ درست جگہ استعمال نہیں ہوتے، بجٹ میں 4 ٹریلین روپے کا ٹیکس آتا ہے، جس میں سے کچھ بجٹ ڈیفنس میں چلا گیا، صوبوں کو چلا گیا، تنخواہوں میں چلا گیا، پیچھے حکومت کے پاس بہت کم بچتا ہے۔
پاکستان پر جتنا قرض ہے پھر اس پر سود بڑھتا چلا جا رہا ہے وہ ایک الگ سے مسئلہ ہے، قرضے کیسے اتارے جائیں وہ اتارنے کیلئے پھر پٹرول، بجلی کی قیمتیں بڑھانی پڑتی ہیں تاکہ کچھ پیسے جمع ہوں اور قرضہ اتارا جائے لیکن ان دوچیزوں کے بڑھنے سے مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ اس سارے سلسلے میں پس بیچارے غریب عوام ر ہے ہیں۔ اب جو لگ رہا ہے کہ پٹرولیم کی قیمتیں بڑھتی رہیں گی۔ نیچے شاید آئیں لیکن بہت کم نیچے آ کر پھر بڑھیں گی جس سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوگا، مہنگائی بڑھنے کا مطلب ہے غربت، لہٰذا غربت بڑھتی رہے گی۔ ایک طرف تو تنخواہیں نہیں بڑھ رہیں، دوسری طرف مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے تو لوگوں کیلئے زندہ رہنامشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اب دو چیزیں ہیں ایک تویہ کہ کیا ہو رہا ہے اور دوسرا یہ کہ کیا ہو گا۔ جو اس وقت سیٹ اپ چل رہا ہے وہ فائر فائٹنگ میں لگا ہوا ہے اپنا بیانیہ سیدھا کرنے میں لگا ہوا ہے۔ وہ اپوزیشن کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔
اب اڑھائی سال ہو گئے ہیں حکومت کو یہ بیانیہ چھوڑ کر اب پرفارمنس اینڈ ڈلیوری کی طرف آنا چاہئے۔ آپ کا کام ہے لانگ ٹرم پالیسی بنانا، لوگوں کی مشکلات حل کرنا، لوگوں کی کیا ضروریات ہیں انہیں پورا کرنا۔ بد قسمتی سے حکومت ابھی تک عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہی ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ گلے اڑھائی سال بھی ایسے ہی گزریں گے۔ اور ہو سکتا ہے کہ اس سے اگلے سال بھی ایسے ہی گزریں۔ اگر اڑھائی سال بعد الیکشن میں تحریک انصاف کے علاوہ بھی کوئی پارٹی جیتتی ہے تو ان کے لئے بھی حالات بہتر کرنا مشکل ہو جائے گا، اور اگلے سال بھی عوام کے تو ایسے ہی گزریں گے۔ ہونا یہ چاہئے کہ ایک سمت مقررکی جائے اور پھر اس کے مطابق چلتے رہیں۔ اس سے کچھ عرصے بعد حالات بہتر ہونا شروع ہو سکتے ہیں لیکن فی الحال تو سمت ہی کوئی نظر نہیں آ رہی۔ عمران خان کی نیت پر کسی کو شک ہے، نہ عزائم پست، مگر ایجنڈے پر کام کرنے والی ٹیم ناقص ہے اور جذبے سے محروم، ذاتی مفادات کی غلام ٹیم سے بہتری کی توقع عبث ہے، خان کو مگر کون سمجھائے۔