پچھلے دنوں سے ڈالر کی قیمت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ڈالر کی قیمت بڑھنے اور روپے کی قدر کم ہونے سے قرضے بھی بڑھ رہے ہیں اگر حکومت کے دعوے مان لیں کہ معاشی اشاریے بہتر ہو رہے ہیں تو ڈالر کی قیمت کیوں بڑھ رہی ہے۔ حکومت کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ برآمدات بڑھ رہی ہیں، باہر سے ڈالر آرہے ہیں تو ڈالر کیوں مہنگا ہو رہا ہے۔ روپیہ کیوں سستا ہو رہا ہے، حکومت کیوں کنٹرول نہیں کر پا رہی ہے۔ کچھ معاشی ماہرین کے مطابق حکومت معیشت کو انتہائی کمزور بنیادوں پر استوار کر رہی ہے جو چیلنجز اور خطرات اکنامک انڈیکیٹر میں نظرآرہے ہیں ان سے چشم پوشی کر رہی ہے۔ مئی سے چار مہینوں میں ڈالر کی قیمت میں 13 رو پے اضافہ ہوا جبکہ تحریک انصاف کی حکومت میں اب تک ڈالر کی قیمت43 ر وپے بڑھ چکی ہے۔ کون سے اشاریے بہتر ہوئے نہیں معلوم۔ دو مہینوں جولائی اور اگست میں تجارتی خسارہ7.6ارب ڈالر ہو گیا جو پچھلے سال کی اسی مدت سے دگنا ہے۔ گزشتہ 14 ماہ میں 38ارب ڈالر کا خسارہ ہو چکا ہے جو پچھلے سال کی اسی مدت کا11.4 ارب ڈالر زائدتجارتی خسارہ ہے اور جو صورتحال نظر آرہی ہے، اس سال کرنٹ اکائونٹ خسارہ 10 ارب ڈالر منفی کی طرف جا رہا ہے۔
حکومت برآمدات نہیں بڑھا پا رہی، صرف ترسیلات پر انحصار کر رہی ہے۔ حکومت کے تین سال میں جو مجموعی قرضے بڑھے ہیں وہ 18ہزار ارب رو پے ہیں اگر پاکستان کی آزادی سے لیکر اب تک کی بات کی جائے تو2013ء کو جب پی پی کا دور ختم ہوا تھا، اس وقت جو مجموعی قرضے تھے وہ 16440 ارب رو پے تھے تو 66 سال میں جتنے قرضے چڑھے تھے۔ اس حکومت نے تین سال میں اس سے زیادہ چڑھا لئے۔ اب قرضے18000 ارب سے اوپر چلے گئے، اسکے علاوہ جو ایکسپورٹ 2011ء میں تھیں، اس سال بھی وہی ہیں لیکن روپیہ کی قدر گر گئی تو ایکسپورٹ تو بڑھی نہیں، اور یہ جو ترسیل زر اضافہ نظر آ رہا ہے وہ تقریباً 4 ملکوں سے آئی ہیں اور دوسری چیز جو ہم نظر اندار کر رہے ہیں، وہ حکومت نے مہنگی شرح سود پر جو قرضے لئے ہیں وہ مستقبل قریب میں ہم نے ادا کرنے والے ہیں۔ جن ترسیلات زر پر حکومت فخر کر تی ہے، یہ ترسیلات زر دنیا کی کسی اکانومی میں بہتری نہیں لا سکتیں، دنیا میں سب سے زیادہ لوگ جو اپنے ملک سے باہر ہیں وہ لبنان کے ہیں، لبنان میں اس وقت 40 لاکھ لوگ ہیں، ایک کروڑ 20 لاکھ لوگ باہر گئے ہو ئے ہیں اور وہ تقریباً 25 ارب ڈالر اپنے ملک کو بھیج رہے ہیں لیکن لبنان کی اکانومی تباہ و برباد ہے کیونکہ ترسیلات زر کسی ملک کی اکانومی بہتر نہیں کر سکتیں۔ جس ملک کے کھیت آبا ہوں، انڈسٹریاں چل رہی ہوں، وہی ملک ترقی کرتا ہے، پاکستان میں بہت انڈسٹریاں تھیں لیکن ایسی ٹریڈ پا لیسی چلائی گئی کہ ہر چیز باہر سے منگوانی شروع کردی جس سے ہما ری صنعتیں تباہ ہو گئیں۔
حکومت کے اور بھی دعوے ہیں کہ اسنے ملک سے غربت ختم کرنے کیلئے بڑے مؤثرپرو گرام متعارف کرائے ہیں جس میں احساس پرو گرام سر فہرست ہے۔ اس کے علاوہ شیلٹر ہوم، کوئی بھوکا نہ سوئے، غریبوں کیلئے قرضہ اسکیم، صحت کارڈ، کسان کارڈ ان سب کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ کم آمدنی وا لے طبقے کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو حالات معمول پر نہیں تھے، تجاتی خسارہ 20 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا، فارن ریزور ایکسچینج بہت کم رہ گئے تھے، پہلے دو سال تک حکومت کا رجحان اسی پر رہا کہ کسی طرح سے تجارت کے خسارے کو کم کیا جاسکے۔ اور پھر تیسرے سال میں تجارتی خسارہ کچھ عرصہ سر پلس میں بھی رہا، اسکے بعد پچھلے سال کے آخر میں 1.8 ڈالر ہو گیا۔ حکومت کارجحان پہلے یہ تھا کہ ہم کسی طرح اس صورتحال کو سنبھالیں کو۔ ویڈ کی وجہ سے بھی معاشی صورتحال خراب رہی، ہماری صنعتی پیداوار میں 25 فیصد کمی رہی، ایکسپورٹ میں 25 فیصد کمی رہی، بجلی کے استعمال میں 12 فیصد کمی ہوئی، اس کے نتیجے میں، بے روزگاری ہوئی، ایک اندازے کے مطابق 50 لاکھ افراد بے روز گار ہوئے جس سے غربت میں بہت اضافہ ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق 2 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے تو تحریک انصاف کی حکومت کو ایک ایسا وقت ملا جو مشکل ترین تھا لیکن حکومت نے کچھ بہتر پرفارم کیا۔ پچھلے سال اعدادو شمار چھے آئے ہیں اسی وجہ سے شرح نمو 4 تک پہنچا ہے۔
حکومت نے کوویڈ کے بعد کچھ بہتر اقدامات کئے، احساس پرو گرام ان میں کافی بہتر تھا، سب سے بڑا پرو گرام رہا اور اس کے نتیجے میں ایک کروڑ پچاس لاکھ گھرانوں کو پیسہ پہنچا، اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا لیکن یہ پرو گرام غربت کے خاتمے کیلئے نہیں صرف ریلیف فراہم کرنے کیلئے تھا۔ غربت اسی وقت کم ہو گی جب اکانومی میں تیز ی آئے گی، روز گار بڑھے گا، تنخواہوں میں اضافہ ہوگا، تبھی غربت کم ہو گی۔ ایک اندازے کے مطابق کوویڈ کی وجہ سے ایک گھرانے کو 35 ہزار رو پے دینے چاہئیں تھے، حکومت نے دیئے 12 ہزار، اس طرح 13 ہزار رو پے مزید ملتے تو بہت بہتر ہوتا، اسی طرح اسٹیٹ بنک نے جو مختلف پیکیجز دیے، فنانس کیلئے اس کی وجہ سے اکانومی میں بہت ٹھہرائو آیا اور معیشت نیچے نہیں گئی۔ معاشی پیکیج کی وجہ سے بے روز گاری میں کچھ کمی ہو ئی ہمارے ملک میں جو سب سے امیر طبقہ ہے انہیں بے شمار مراعات ملی ہوئی ہیں اور اسکے نتیجے حکومت کی جو کوششیں ہیں کہ نیچے والے طبقے کو کچھ پیسے ملیں اور وہ اوپر آجائیں۔ ملک میں مہنگائی ہوتی ہے تو وہ بھی مصنوعی اور جو قیمتوں میں کمی ہوتی ہے وہ بھی مصنوعی طریقے سے ہو رہی ہے جس میں غریب لوگوں کو کچھ نہیں ملتا۔ امیر طبقے کیلئے اڑھائی ہزار ارب سے زیادہ کی مراعات مل جاتی ہیں جب ان لوگوں کو اتنی مراعات ملیں گی تو ٹیکس ریو نیو میں کیسے اضافہ ہو گا۔ ایک بات اور عجیب سی ہے کہ جب پا کستان میں ریزور اچھے ہیں تو ڈالر کیوں اوپر جا رہا ہے۔
اسٹیٹ بنک کو چاہئے کہ کسی بھی طرح ڈالر کو ایک سطح پر رکھے لیکن لگتا ہے اسٹیٹ بنک نے طے کرلیا ہے کہ امپورٹ بڑھ رہی ہے، اکانومی میں بہتری آ رہی ہے جیسے کہ دو ماہ میں گاڑیوں کی سیل ڈبل ہو گئی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ استعمال کا یہ ایک طریقہ ہے کہ روپیہ گرتا جائے، مہنگائی بڑھتی جائے لوگوں کی امپورٹ کرنے کی کپیسٹی کم ہو ا لیکن تجارتی خسارہ جو پھر سے بڑھتاجا رہا ہے اسٹیٹ بنک کی یہ پالیسی اچھی نہیں ہے۔ جب اسٹیٹ بنک کے پاس ریکارڈ لیول کے ریزور ہیں تو اسے کچھ تو کوشش کرنی چاہئے کہ روپیہ مستحکم رہے، لیکن پچھلے اڑھائی ماہ میں روپے کی قدر 8سے9 فیصد کم ہو گئی ہے اور اس کے نتیجے میں افراط زر میں دو طرح سے اضافہ ہو گا ایک تو ڈالر کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، پام آئل کی قیمت80 فیصد، دالوں کی قیمت24 فیصد، پٹرول کی قیمتیں 75 فیصد بڑھ چکی ہیں، جتنا ڈالر مہنگا اور روپیہ نیچے آئے گا تو چیزوں کی قیمتیں بڑھتی رہیں گی۔