پی ٹی آئی حکومت اپنے اقتدار کے چوتھے سال میں کئی مسائل ساتھ لئے داخل ہو چکی ہے، داخلی سیاست، خارجہ پالیسی، معاشی صورتحال، مہنگائی اور گورننس کے معاملات نے حکومت کومسائل میں گھیرا ہوا ہے۔ وزیر اعظم ایک مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو دوسرا مسئلہ سر اٹھا لیتا ہے۔ ابھی تک حکومت کی کار کردگی غیر تسلی بخش رہی ہے۔ اس وقت ملکی معیشت کے تمام اشار یے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ 4ماہ میں روپے کی قدر بری طرح متاثر ہوئی، اسٹاک مارکیٹ گرتی جا رہی ہے، اس کے علاوہ مہنگائی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ حکومت پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھائے چلی جا رہی ہے، انکی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں، آٹا، سبزیاں، گھی، دالیں دودھ، اور دیگر کئی اشیا تو عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ بیف، مٹن اور چکن بھی عوام کا منہ چڑا رہے ہیں۔ عام آدمی کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔
پورے ملک میں مہنگائی مہنگائی اور مہنگائی کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ لیکن حکومتی ارکان کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی باقی ملکوں سے کم ہے، حکومت معاشی حالات کو سنبھالنے میں کامیاب نظر نہیں آرہی، مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے والا کوئی نہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور500 ارب روپے کے ممکنہ نئے ٹیکس یا ٹیکس چھوٹ کی واپسی کے ساتھ پاکستان کی معیشت ایک بار پھر آئی ایم ایف کی معاشی شاہراہ پر گامزن ہے۔ تجارتی خسارے اور گردشی قرضے اور ہچکولے کھاتے روپے کی قدر می کمی کے باعث پاکستان آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ پاکستان پچھلے دو سال کے دوران آئی ایم ایف سے دو ارب ڈالر قرض حاصل کر چکا، اب مذاکرات کے نتیجے میں ایک ارب ڈالر اور ملیں گے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات کا محور ٹیکس کلیکشن میں اضافہ اور انرجی سیکٹر کے خساروں میں کمی لانا ہے۔ خبریں ہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو تحریری طور پر یقین دہانی کرائی تھی کہ اس سال دو مراحل میں بجلی کے بنیادی نرخ میں تین رو پے34 پیسے اضافہ کیا جائے گا، اس سال فروری میں ایک روپے 95 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا جا چکا ہے، بقیہ ایک روپے39 پیسے کا اضافہ یکم جون کو کرنا تھا لیکن یہ اضافہ 5 ماہ کے بعد اکتوبرمیں کیا گیا۔ حکومتی وزیر حماد اظہر کا کہنا ہے کہ حکومت جس قیمت پر بجلی خرید رہی ہے اور جس قیمت پر بجلی فروخت کر رہی ہے اس میں ڈیڑھ دو روپے کا فرق ہے اور یہی فرق گردشی قرضے میں اضافے کی وجہ بن رہا ہے، حیران کن بات ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں شوکت ترین نے کہا تھا کہ بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھائی جائینگی بلکہ ٹیرف میں بتدریج اضافہ کرینگے۔
ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کئی ماہ سے پاکستان میں بجلی کی قیمتیں بڑھانے اور سبسڈی کے خاتمے کا پر زور مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس لیے حکومت مشکل میں تھی کہ ٹیرف بڑھائے تو مصیبت نہ بڑھائے تو مصیبت۔ افسوس کہ گردشی قرضے کم کرنے کیلئے نہ اصلاحات لائی گئیں اور نہ ہی خسارے میں چلنے والے ڈسکوز کی نجکاری میں پیش رفت ہوئی، خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے سردیوں میں صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں کمی کی منظوری دی گئی ہے۔ توانائی پر کابینہ کمیٹی کے ایک فیصلے کے مطابق سردیوں میں بجلی کے صارفین کو 12.66 فی یونٹ کے حساب سے بل ادا کرنا پڑے گا۔ اس کا اطلاق اْن صارفین پر ہو گا جو ماہانہ تین سو یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرتے ہیں۔ ملک میں تین سو یونٹ یا اس سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین پہلے ہی بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس ٹیرف کا اطلاق یکم نومبر 2021 سے 28 فروری 2022 تک ہوگا، جو پاکستان میں سردی کا سیزن ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اب اپنی انتخابی مہم کے دوران کی گئی تقاریر کی وڈیوز بھی دیکھنا چھوڑ دی ہیں، جن میں وہ سابقہ حکمرانوں پر مہنگائی کے حوالے سے طرح طرح کے الزامات لگاتے تھے۔
وزیر اعظم عمران خان بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف قوم کو صبر کا مشورہ دے کر بہلانے کی کوشش میں مصروف ہیں، ان کا کہنا ہے کہ حالات جلد بدل جائیں گے، مگر ان کے اقدامات سے ایسا نہیں لگ رہا کہ وہ اپنی حکومتی مدت مکمل ہونے تک قوم کو کوئی خوش خبری دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مہنگائی کیوں ہوتی ہے، ذخیرہ اندوز کیسے کام کرتے ہیں، وہ انتظامیہ کے ساتھ ملی بھگت کیسے کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ آڑھت ہے، یعنی مال صارف تک پہنچتے پہنچتے کئی ہاتھوں سے گزرتا ہے۔ جو سبزی کسان سے پانچ روپے کلو خریدی جاتی ہے، وہ منڈی سے ہوتی ہوئی محلے کی دکان تک آتے آتے 10 گنا مہنگی ہو چکی ہوتی ہے، اس وقت کئی اشیا پر17 فیصد تک جی ایس ٹی نافذ ہے۔
صارف کی جیب سے یہ پیسے وصول کر لیے جاتے ہیں مگر سرکاری خزانے تک اس 17 فیصد میں سے چار فیصد ہی پہنچتا ہے، باقی انڈر انوائسنگ اور مانیٹرنگ نہ ہونے کہ وجہ سے چوری ہو جاتا ہے کیونکہ پاکستان میں لاکھوں کریانہ سٹورز ہیں، جنہیں فیکٹری والے روزانہ کی بنیاد پر مال سپلائی کرتے ہیں اور ان سے کیش کی صورت وصولی کرتے ہیں، حکومت کے لئے یہ اندازہ لگانا بڑا مشکل ہوتا ہے کہ کس برانڈ کا مال حقیقت میں کتنا فروخت ہوا۔ صرف ایک ایٹم یعنی سگریٹ کی ہی مثال لی جائے تو بڑے شہروں میں روزانہ کی مد میں جو ٹیکس چوری ہے وہ دس سے 50 کروڑ روپے روزانہ کا ہے، پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال جس غیر یقینی کا شکار ہے وہ حکومت کے ساتھ عوام کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہے۔
مہنگائی نے شہریوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، ان حالات میں افغانستان کے بگڑ تے ہوئے معاملات سے پاکستان کی معاشی پوزیشن کو مزید دھچکا لگنے کا خطرہ ہے۔ اہم ملکی اثاثوں کو گروی رکھوانے کی باتیں ہورہی ہیں، جس سے ہماری مفلسی میں مزید اضافہ ہوگا۔ دوسری طرف حکومت کی پالیسی کی وجہ سے سب سے زیادہ تاجر برادری کو مشکلات کا سامنا ہے، حکومت ابھی تک ان کے اعتماد کو بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی، جس کی وجہ سے ہماری معیشت ہچکولے کھارہی ہے۔
ملک کے معاشی حالات کی بہتری کے لئے حکومت اگر نیشنل سیونگز اسکیم میں شہریوں کے منافع میں مناسب اضافہ کر کے انہیں اپنی رقم دس سال تک بینک میں رکھنے کا پابند کرتی تو اس سے بھی معاشی پوزیشن بہتر ہوسکتی تھی، اسی طرح نئی پالیسی سے معیشت کو بہتر بنانے کے لئے ماضی میں اہم کردار ادا کرنے والے پرائز بانڈ کے شعبے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا۔ ملکی قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے حکومت اگر یوٹیلیٹی بلوں پر عائد غیر ضروری ٹیکس ختم کر کے صرف سو روپے کا سرچارج لگاتی اور اسے دس سال تک کے لئے رکھا جاتا تو سالانہ کی بنیاد پر ہم اپنے غیر ملکی قر ضوں کے بڑے حجم کو کم کر سکتے ہیں۔