Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Quwat e Khareed Mein Izafa

Quwat e Khareed Mein Izafa

اپوزیشن نے بجٹ آنے سے قبل ہی بجٹ کو مسترد کر کے یہ ثابت کر دیا کہ حکومت جو مرضی کر لے انھوں نے شور مچانا ہی مچانا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ موجودہ حالات میں جب کرونا وبانے ساری دنیا کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہر ملک کی معیشت متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان مختلف وجوہات کے باعث معاشی طور پر گرداب کا شکار تھا۔ ایسے میں نہ صرف حکومت نے معاشی استحکام پیدا کیا بلکہ بہتری کی طرف سفر شروع کر دیا ہے۔ مختلف معاشی ماہرین نے اس بجٹ کو بہترین بجٹ قرار دیا ہے۔۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے چند روز قبل یہ دعویٰ کیا تھاکہ ملک میں مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی قوتِ خرید بھی بڑھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی قوت خرید بڑھنا ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کی جانب سے عوام کی قوت خرید بڑھنے کا دعویٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ملک میں افراط زر کی شرح دس فیصد سے زیادہ کی سطح پر موجود ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات نے مئی میں مہنگائی کی شرح 10.9 فیصد ہونے کا اعلان کیا ہے، فنانس ڈویژن نے مئی کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 9.8 فیصد رہنے کی توقع کا اظہار کیا تھا۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے رواں برس افراط زر کی شرح کا ہدف 6.5 فیصد رکھا ہے اور ماہرین کے مطابق مالی سال کے اختتام تک اس ہدف کا حصول مشکل نظر آتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اگرچہ حکومت کی جانب سے جی ڈی پی میں اضافے کے اعداد و شمار پر سوالیہ نشان ہے لیکن اگر انھیں صحیح بھی مان لیا جائے تو اس کا فائدہ اتنی جلدی عام افراد کو منتقل نہیں ہو سکتا۔ وفاقی سطح پر کام کرنے والی نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے اعلامیے کے مطابق پاکستانیوں کی فی کس آمدنی میں گذشتہ سال کے مقابلے میں 13 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ کمیٹی کے مطابق گذشتہ سال فی کس آمدن 1361 ڈالر تھی جو اب 1543 ڈالر ہو گئی ہے۔ یعنی اگر پاکستانی روپے میں بات کی جائے تو فی کس آمدن گذشتہ سال 68403 تھی جو اب بڑھ کر 72 ہزار ہو گئی ہے۔ ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ فی کس آمدنی جی ڈی پی کے سائز کو ملک کی مجموعی آبادی پر تقسیم کر کے نکالی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سال حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 43.9 فیصد جی ڈی پی میں شرح نمو ہے جس کی وجہ سے اس کا سائز بڑھ گیا ہے، جس نے فی کس آمدنی کے اعدادوشمار کو بھی بڑھا دیا ہے۔ حکومت کی جانب سے جی ڈی پی سائز میں اضافے کی بنیاد پر فی کس آمدنی بڑھنے کے اعداد و شمار جاری کر کے قوت خرید میں اضافے کا جو دعویٰ کیا گیا ہے اسے کچھ ماہرین اور اپوزیشن ارکان درست نہیں سمجھتے۔ ماہر ین معیشت کا کہنا ہے کہ معیشت کی اصطلاح میں اگر دیکھا جائے تو جب جی ڈی پی میں ترقی ہوتی ہے تو اسی سال لوگوں کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اسے منتقل ہونے میں دو تین سال کا عرصہ لگتا ہے۔ معیشت میں ترقی کی وجہ سے کمپنیوں کے مالکان کو تو چھ مہینے یا سال کے اختتام پر منافع کی صورت میں منافع ہوتا ہے لیکن ملازمین کو اس کا فوری فائدہ نہیں ہوتا۔ انھوں نے کہا جس طرح جی ڈی پی راتوں رات نہیں بڑھتی اسی طرح قوت خرید میں اضافہ بھی راتوں رات نہیں ہوتا۔

ادارہ شماریات نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی سست روی کے باعث ملک میں دو کروڑ ستر لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے، لاک ڈاون سے پہلے ملک میں ساڑھے پانچ کروڑ افراد کی ورک فورس تھی جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے ساڑھے تین کروڑ رہ گئی ہے، تاہم معیشت میں بحالی کی وجہ سے بے روزگار ہونے والے افراد کی ایک بڑی اکثریت دوبارہ کام پر لوٹ چکی ہے اور اس وقت ان کی تعداد پانچ کروڑ بیس لاکھ تک ہے۔ ایک خاص طبقہ کی آمدنی یقینی طور پر بڑھی ہے کہ جو پیدا کر رہا ہے یا وہ جو اسے سٹاک کر رہا ہے کیونکہ اْن کی پیداوار اب مہنگے داموں بک رہی ہے کیونکہ ملک میں افراط زر کی شرح بلندی کی جانب گامزن ہے۔ اگر معیشت میں بہتری آئی بھی ہے تو اس کا معیشت کے اصولوں کے تحت فائدہ ایک سال کے اندر منتقل نہیں ہو سکتا۔ جی ڈی پی کی شرح کا دو طرح سے تعین کیا جاتا ہے۔ ایک حقیقی جی ڈی پی ہوتی ہے جس میں ملک کے پیداواری شعبوں کے اعداد و شمار لے کر ملک کی مجموعی ترقی کا نمبر دیا جاتا ہے، اس میں مہنگائی کو شامل نہیں کیا جاتا۔ دوسری قسم نومینل جی ڈی پی ہوتی ہے جس میں مہنگائی کو شامل کیا جاتا ہے کہ اگر پہلے کوئی شخص ایک سو روپے میں خرید کر رہا تھا تو اب وہ ایک سو دس روپے میں وہی چیز خرید رہا ہے یعنی وہ چیز بنانے والی کمپنی زیادہ پیسے کما رہی ہے اور اسے مزید نفع مل رہا ہے تاہم جو عام صارف خرید رہا ہے اس کی آمدنی پر اس کا بوجھ پڑ رہا ہے۔ معاشرے میں کیونکہ معاشی عدم مساوات ہے اس لیے کمپنیوں کی پیداوار میں اضافے کی بنیاد پر جی ڈی پی میں گروتھ کے اعداد و شمارجاری کر دیے جاتے ہیں اور اس کی بنیاد پر فی کس آمدنی میں بھی اضافہ دکھا دیا جاتا ہے، لیکن ایک ایک ورکر کی آمدنی میں اضافہ ہوا یا نہیں اس کے بارے میں کسی کو پتا نہیں۔

پاکستان ایک خرچ کرنے والی معیشت ہے کہ جہاں لوگوں کی جانب سے پیسے خرچ کر کے جب چیزیں خریدی جاتی ہیں تو اس کا اثر جی ڈی پی میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اگر جی ڈی پی میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس کا مطلب لوگ زیادہ خرچ کر رہے ہیں اور ان کی طلب پوری کرنے کے لیے زیادہ چیزوں کی پیداوار ہو رہی ہے۔ اگرچہ مہنگائی کی شرح بڑھی ہے لیکن چیزوں کی کھپت بھی بڑھی ہے، جس کی وجہ سے زرعی، صنعتی اور خدمات کے شعبے میں زیادہ افزائش ہوئی ہے۔ موجودہ مالی سال میں مئی کے مہینے تک افراط زر کی شرح دس فیصد سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے جس کی بنیادی وجہ کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ ہے۔ تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے تنخواہ اور پنشن میں اضافہ ہوا ہے جب کہ دو سال میں مہنگائی کی شرح بلند سطح پر موجود ہے۔ وفاقی بجٹ میں کم از کم اجرت بھی بڑھا دی گئی ہے جو اب 20 ہزار روپے ہو گی جو اس سے قبل 17500 روپے تھی۔ اسی طرح شہری گھرانے کو کاروبار کے لیے بلا سود پانچ لاکھ تک کا قرضہ اور کاشتکار کو ڈیرھ لاکھ تک کا بلا سود قرضہ بھی کم آمدنی والے طبقات کی بہتری میں مدد گار ثابت ہو گا۔ وفاقی بجٹ میں 850 سی سی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کی شرح کم کرنے کے ساتھ ویلیو ایڈڈ ٹیکس، اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، کی شرح میں بھی رعایت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس اقدام سے چھوٹی گاڑیوں کی قیمتیں کم ہوں گی جو ایک عام آدمی کے لیے خوش آئند پیش رفت ہے تاکہ وہ موٹر سائیکل سے چھوٹی گاڑی پر آسکے۔ اسی طرح چھوٹی صنعتوں کے لیے مراعات اور ٹیکسوں میں کمی بھی ایک عام شخص کو ریلیف فراہم کرے گا۔ زرعی ماہر ڈاکٹر عالیہ نے زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے زرعی آلات پر ٹیکسوں میں کمی کو ایک عام کسان کے لیے مثبت اقدام قرار دیا جو اس شعبے میں ترقی اور ایک عام کسان کی حالت بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ اسی طرح شہری گھرانے کو کاروبار کے لیے بلا سود پانچ لاکھ تک کا قرضہ اور کاشتکار کو ڈیرھ لاکھ تک کا بلا سود قرضہ بھی کم آمدنی والے طبقات کی بہتری میں مدد گار ثابت ہو گا۔