Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Roshni Ki Kiran

Roshni Ki Kiran

وزیر اعظم پاکستان کی معاشی ترقی کے اشاریوں سے بہت خوش ہیں، انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ بر آمدات میں اضافے پر ایکسپورٹرز کو مبارک باد دیتا ہوں، دسمبر کے مہینے میں ریکارڈ بر آمدات ہوئیں، گزشتہ سال کی نسبت برآمدات میں 18 فیصد اضافہ ہوا، ملک کی معاشی پالیسی کا اہم ستون بر آمدات میں اضافہ ہے۔

وزیر اعظم نے لکھا کہ کو حکومت بر آمدات میں اضافے کیلئے مکمل مدد فراہم کرے گی، وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت ترقی کے سفر پر گامزن ہے کمزور معیشت کو درست ٹریک پر لگادیا ہے، تمام معاشی اشار یے درست سمت میں ہیں، لیکن دیکھا جائے تودوسری طرف پاور سیکٹر میں ملک کو روزانہ ڈ یڑھ ارب کا نقصان ہو رہا ہے، گردشی قرضے 2400 ارب سے زائد کے ہو چکے لیکن ایک اطلاع کے مطابق اب روشنی کی ایک کرن نظر آ رہی ہے اور پاور سیکٹر میں گردشی قرضوں سے آ زادی کی ابتدا ہونے والی ہے لیکن یہ ایک بہت طویل سفر ہے۔ حکومت اور آئی پی پی میں مفاہمت کی یاد داستیں ایک ٹھوس معاہدوں میں تبدیل ہونے والی ہیں، آئی پی پیز کو ادائیگی کے معالات طے ہونے جا رہے ہیں جن پر آئی ایم ایف سے بھی منظوری لی گئی ہے اور فروری کے بعد معاہدہ ہو گا۔ یعنی پاور سیکٹر سے جڑے مسائل حل کرنے کیلئے سر توڑ کوششیں کی جا رہی ہیں، جس پر ابتدائی کامیابی ملنے جا رہی ہے۔

ایک اطلاع کے مطابق آئی پی پیز کے 700 ارب روپے واجب الادا ہیں، حکومت نے 50 آئی پی پیز کو 450 ارب روپے دینے کی پیشکش کی ہے، حکومت یہ رقم ایک سال میں تین اقساط میں ادا کرے گی۔ اور بجلی خریداری کے نظر ثانی معاہدوں پر دستخط کے وقت ایک تہائی رقم نقد اور دیگر اقساط پاکستان انویسٹمنٹ بانڈ کی شکل میں دی جانے کی تجویز ہے۔ یکم جنوری کو وزیر خزانہ کے ساتھ اجلاس میں آئی پی پیز کے وفود نے اس منصوبے کو قابل قبول قرار دیا تھا اور میڈیا میں بھی اس حوالے سے تفصیل سے خبریں آ ئی تھیں۔

آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کی تجدید سے آئندہ برسوں میں حکومت کو ساڑھے آٹھ سو ارب روپے کی بچت کی توقع ہے اگر یہ منصوبہ اسی انداز سے آگے بڑھے تو پاکستان کے پورے پاور سیکٹر کے مسائل ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے حکومتی موقف ہے کہ اس وقت آئی پی پیز اور حکومت کی جو میٹنگز ہو رہی ہیں وہ بہت بہتر انداز میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ حکومت کو امید ہے کہ اگلے دو سے تین ہفتوں میں آئی پی پیز کے ساتھ جو ایم او یوز سائن ہوئے تھے وہ معاہدوں میں تبدیل ہو جائیں گے، معاہدے سے حکومت کو400 ارب روپے سالانہ کی بچت ہو گی اور عوام کو سستی بجلی دستیاب ہو گی۔ اگلا ہدف ترسیلی نظام میں اصلاحات اور بجلی چوری روکنا ہے، نیا معاہدہ1997ء کے اس معاہدے کی جگہ لے گا جو بے نظیر بھٹو کے دور میں کیا گیا تھا، جس کی خاص بات یہ ہے کہ حکومت صرف اْسی بجلی کی قیمت ادا کرے گی جو وہ خریدے گی، جبکہ پرانے معاہدے میں حکومت کمپنیوں کو ان کی استعداد کے مطابق ادائیگی کی پابند تھی۔ سابقہ حکومتوں نے بجلی کمپنیوں کے ساتھ ایسے معاہدے کئے ہوئے تھے، جن کے ذریعے بہت مہنگی بجلی مل رہی تھی اور ہماری صنعتیں خطے کے دوسرے ممالک کی صنعتوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہی تھیں، عوام کو بھی مہنگی بجلی مل رہی تھی، گردشی قرضے بڑھتے جا رہے تھے، کیونکہ جس قیمت پرحکومت بجلی لے رہے تھی اس سے کم پر صارفین کو فراہم کر رہی تھی، اس طریقے سے کوئی بھی کاروبار نہیں چل سکتا۔

آئی پی پیز کے ساتھ اْس وقت کی حکومت نے جو معاہدے کئے تھے اْن پرنکتہ چینی بھی ہوئی تھی اور مسلسل ہو رہی تھی۔ عام خیال یہ تھا کہ مہنگی بجلی کا یہ سودا کرنے والوں نے اپنے مفاد میں غلط فیصلے کئے، اتنی مہنگی بجلی نہ صرف قومی خزانے پر ناروا بوجھ ہو گی، بلکہ صارفین بھی اس قیمت پر بجلی خریدنے کے متحمل نہیں ہو سکیں گے، جنرل پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو اس معاہدے پر نظرثانی کے لئے مذاکرات کئے گئے، اْس وقت کی حکومت نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ حکومت نے کچھ شرائط نرم کرائی ہیں، جن سے بچت بھی ہو گی اور بجلی بھی سستی ملے گی، تاہم جنرل پرویز مشرف کے تقریباً دس سالہ دور میں یہ خواب شرمندہ ٔ تعبیر نہ ہوا اور بجلی مہنگی ہی رہی۔ پیپلزپارٹی کے اگلے دورِ حکومت(2008ء تک2013ئ) میں تو صورتِ حال بدتر سے بدترین ہو گئی، بجلی ہی مہنگی نہیں ہوئی، لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھا اور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ بھی ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ2013ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی شکست کی بہت سی وجوہ میں سے ایک وجہ طویل لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی تھا، غالباً اسی لئے مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو اس نے بجلی کی پیداوار پر خصوصی توجہ دی اور جب اس نے اقتدار چھوڑا تو مْلک میں بجلی کی پیداوار ضرورت سے زائد تھی اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا تھا، مزید برآں اِس سارے دور میں بجلی کی قیمتوں میں بڑی حد تک استحکام رہا، لائف لائن صارفین کو تو سبسڈی اب تک دی جا رہی ہے، لیکن300یونٹ سے زائد استعمال کرنے والے ہر قسم کی سبسڈی سے محروم ہو چکے ہیں، بجلی کی قیمتیں بھی بڑھ چکی ہیں اور فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر صارفین کو الگ سے زیر بار کیا جا رہا ہے۔

آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدوں سے حکومت کو جو400ارب روپے بچنے کا امکان ہے اس کا اگر تھوڑا سا حصہ بھی صارفین کو منتقل کیا جائے تو بجلی سستی ہو سکتی ہے، اسی طرح بجلی کے بلوں میں جو مختلف اقسام کے ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں ان کا خاتمہ بھی کر دیا جائے تو بجلی کے نرخ مزید کم ہو سکتے ہیں، لیکن یہ تبھی ہو گا جب حکومت نیک نیتی کے ساتھ بجلی سستی کرنا چاہے گی، ابھی تو چند روز پہلے ہی نرخ بڑھائے گئے ہیں اور نرخوں کا ایک نیا فارمولا بھی لاگو کیا جا رہا ہے، جس کے تحت سردیوں میں بجلی مہنگی کی جائے گی، کیونکہ اْس وقت بجلی کا استعمال کم ہوتا ہے، اِس لئے اس کی سزا بھی صارفین ہی بھگتیں گے۔

یہ بھی اپنی جگہ ایک انوکھا تجربہ ہو گا، یعنی کم بجلی استعمال کرنے والوں کو ایک طرح سے زیادہ نرخوں کی صورت میں ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا۔ حکومت ایک طرف آئی پی پیز سے "کیپسٹی چارجز" ختم کرا رہی ہے کہ یہ غیر منصفانہ ہیں، دوسری طرف صارفین سے ایسے نرخ وصول کرنا چاہتی ہے جنہیں کسی صورت منصفانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

وزیراعظم نے خود کہا ہے کہ مہنگی بجلی کی وجہ سے ہماری صنعتیں دوسرے ممالک کی صنعتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اردگرد کے ممالک میں سستی بجلی میسر ہے۔ اگر حکومت اور آئی پی پیز میں نیا معاہدہ ہو جاتا ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ لوگوں کو سستی بجلی ملے گی انڈسٹری کو سستی بجلی ملے گی ملک میں خوشحالی آئے گی۔