معاملات جب بھی مثبت ہونا شروع ہوتے ہیں، اوپر سے ٹھیک ہوتے ہیں۔ پہلے کارو بار بہتر ہوتا ہے، پھر میکرو نمبر بہتر ہوتے ہیں، پھر عام مزدور یا عام آدمی کو اس کے فوائد ملنے لگتے ہیں۔ چھوٹی سی مثال ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری پچھلے 10 برسوں سے بحران کا شکار تھی بلکہ 2019 کے آخر تک بحران کا شکار تھی۔ کورونا کی وبا میں پاکستان کوآرڈر ملنے لگے تو یہ انڈسٹری بہت بہتر انداز میں چل پڑی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کچھ شہروں میں لیبر کی کمی ہو گئی ہے جب لیبر کی کمی ہوتی ہے تو لیبر منہ مانگی اجرت لیتی ہے۔ اسی طرح تعمیراتی شعبہ ہے، اس سیکٹر میں بھی چیزیں بہتر ہونا شروع ہو گئی ہیں، کراچی میں پالش اور رنگ کرنے والا 1500 روپے دیہاڑی لے رہا ہے۔ اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ کام کرنے والے کے پاس کام ہے، جو لوگ فکس سیلری پر کام کر رہے ہیں، ان کی تنخواہیں نہیں بڑھیں، مہنگائی بڑھ گئی، انکے لئے مشکلات ہیں، اب دیکھا یہ جا رہا ہے کہ روز مرہ استعمال کی اشیا کچھ سستی ہوئی ہیں جیسے کہ آٹا، پھل اور سبزیاں کافی سستی ہو گئی ہیں لیکن پھر بھی مجموعی طور پر مہنگائی دیکھی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ کوویڈ کی وجہ سے جو چیزیں باہر سے درآمد ہوتی ہیں، ان کاپہلے جو 1000 ڈالر کاکنٹینر تھا، وہ اب 5000 ڈالر کا ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ سے گھی، تیل، مرچ، مصالے، دالیں اور ادرک وغیرہ مہنگی ہیں۔ جب معاملات معمول پر آئیں گے تو دیگر اشیا بھی سستی ہو جائینگی۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ ہمیں کوویڈ کی وجہ سے بہت سی چیزیں سمجھنے کی ضرورت ہے جو ہم نہیں سمجھ رہے۔ بڑا آسان ہے، ہر چیز کا ملبہ مرکزی حکومت بلکہ وزیر اعظم پر ڈال دیتے ہیں۔ پچھلی حکومتوں کے دور میں 18 ویں ترمیم ہوئی تھی، اس میں زراعت صوبوں کے پاس چلی گئی۔ اب سبزی مہنگی ہوتی ہے تو یہ صوبائی معاملہ ہے لیکن جب بھی خوراک کا بحران آتا ہے وہ وفاقی حکومت کے ذمے ڈال دیا جا تا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی معیشت، روزگار اور کارو بار کی ترقی کے لیے بہت اچھا ماحول بن رہا ہے۔ جو اعدادو شمار آرہے ہیں ان سے واضح لگ رہا ہے کہ پاکستان میں صنعتی ترقی کے لئے 2021تاریخی سال ہو گا۔ ہم سب دیکھیں گے کہ پاکستان میں نئی صنعتیں لگیں گی۔ موجودہ صنعتیں مزید بڑھیں گی۔ اس بات کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے کہ 2020 میں سینکڑوں صنعتکاروں نے بڑے بڑے قرضے لئے 500 صنعتکار 500 ارب روپے کے قرضوں کیلئے اپلائی کر چکے ہیں، جن میں اڑھائی سو ارب کے 300 کے قریب پراجیکٹ منظور ہو چکے ہیں، جن میں ٹیکسٹائل، آٹو موبیل، کنسٹرکشن اور فارما انڈسٹری سے جڑے منصوبے شامل ہیں، صنعتکار اربوں روپو ں کی مشینری کی خریداری بھی کر چکے ہیں۔ مشینری جلد پاکستان پہنچ جائے گی۔
ملک بھر میں انڈسٹریل پلاٹوں کی قیمتیں انتہائی بڑھ چکی ہیں، آنے والے دنوں اور مہینوں میں پاکستان میں بے شمار ملازمتیں پیدا ہونگی۔ نجی شعبے کے قرضوں کا حجم 6235 ارب تک پہنچ چکا ہے، کنسٹرکشن پیکیج کے تحت زبر دست سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ گزشتہ سال 16 ارب روپے کے مقابلے میں اس سال 31 ارب روپے ٹیکس وصولیاں ہو ئیں، ٹیکس ریٹرن جمع کرانے والے ٹیکس دہندگان کی تعداد بھی 21 لاکھ90 ہزار تک جا پہنچی ہے، پہلے یہ تعداد 15 لاکھ بتائی جاتی تھی۔ حکومت کی طرف سے کورونا کے باعث سست پڑتی معیشت کو سہارا دینے کیلیے مختلف مراعاتی پیکیج اور کاروباری طبقے کو ریلیف دینے کی خاطر اسٹیٹ بنک کے اعلان کردہ آسان شرائط پر مختلف قرض اسکیموں کے ثمرات نظر آنا شروع ہو چکے ہیں، جب کوویڈ نے پاکستان کو ہٹ کیا تو اسٹیٹ بنک نے کچھ اقدامات کیے، انٹرسٹ ریٹ کم کیا۔ اسکے علاوہ ادارے جنہوں نے کہا کہ ہم چھ ماہ تک اپنے کسی ملازم کو نہیں نکالیں گے انہیں اسٹیٹ بنک نے فنانسنگ دی۔ اسٹیٹ بنک کے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ سال نومبر کے مقابلے میں مجموعی طور پر نجی شعبوں میں قرضے کا حجم 6114 ارب سے بڑھ کر 6235 ارب تک پہنچ گیا۔ سب سے زیادہ قرضوں میں اضافہ ٹیکسٹائل کے شعبے میں نظر آیا۔ جن میں 92 ارب رو پے اضافہ ہوا۔ حکومت کی جانب سے تعمیراتی پیکج اور سستے گھروں جیسے منصوبے کے باعث تعمیراتی شعبہ بھی معیشت کا ستون مضبوط کرنے میں آگے آ گے ہے۔ گزشتہ سال نومبر کے مقابلے میں بلڈنگ اور رہا ئشی تعمیراتی شعبوں کے قرضوں میں 24 ارب رو پے اضافہ ہوا، اسکے علاوہ ہول سیل ریٹیل سیکٹر میں گزشتہ سال نومبر کے مقابلے میں 22 ارب روپے زیادہ قرضہ لیا گیا، ادویات سازی کے شعبے میں قرض 21 ارب زیادہ لیا گیا، انفارمیشن اور کمیونیکیشن کے شعبے میں 20 ارب روپے قرض لیا گیا، کنزیومر فنانس کا موازنہ کیا جائے تو گاڑی کی خریداری کے لئے قرضوں میں 32 ارب روپے اضافہ ہوا۔ یہ جو کریڈٹ ہوتا ہے وہ ماڈرن اکانومی کی لا ئف لائن ہوتا ہے، پاکستان میں کریڈٹ تو جی ڈی پی ریشو بڑا کم ہے باقی ملکوں میں بینکس اور دیگر فنانشل ادارے کافی زیادہ کریڈٹ دیتے ہیں۔ اکانومی کو کریڈٹ زیادہ کیوں ضروری ہوتا ہے کئی فرمز اور ہائوس ہو لڈ ان کے پاس اتنی آمدنی نہیں ہوتی جو وہ اپنی انویسٹمنٹ کر سکیں، بزنس کو بڑھا سکیں اور اسکے لئے انہیں بینک جا کر کریڈٹ لینا پڑتا ہے جب ان کو وہ کریڈٹ ملتا ہے تو وہ اپنے بزنس کو بڑھاتے ہیں جس سے لوگوں کو روز گار ملتا ہے، پیسہ سرکولیٹ کرتا ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ نجی شعبے اور خاص طور پر پیداواری شعبوں کی جانب سے قرضوں کے حصول میں اضافہ اس بات کی عکاسی ہے کہ بزنس مین مستقبل سے پر امید ہے اور ملکی معیشت میں ترقی کے حوالے سے پر عزم ہے۔ پاکستان میں پچھلے 60 ستر سال سے انویسٹمنٹ اور سیونگ ریٹ بڑا کم رہا ہے، ہمارا جو خرچ ہوتا ہے وہ کھپت کی طرف ہوتا ہے، انویسٹمنٹ کی طرف نہیں، جس سے ہماری انڈسٹریل اور کیپیٹل بیس کم رہ جاتی ہے، حکومت نے اس سال کئی پیکیجز متعارف کروائے ہیں، جن میں انڈسٹریل انرجی ریلیف پیکیج تھا، ریفنڈ کا اجرا کیا۔ حکومت نے چھوٹے صنعتکاروں کے بجلی کے بل معاف کئے اسی لئے کوویڈ کے باوجود لارج اسکیل مینو فیکچرنگ تیزی سے گرو کر رہی ہے۔ پیداوار جب بڑھے گی، روز گار تب پیدا ہو گا، جب فیکٹریاں بڑھیں گی، زیادہ انڈسٹریاں لگیں گی۔ دنیا ایک گلوبل ویلیو کی طرف چلی گئی ہے یعنی جو ملک جس چیز میں مہارت رکھتا ہے وہ اس چیز کو بنائے اور جو دوسرا ملک کسی دوسری چیز میں مہارت رکھتا ہے وہ بنائے، وہاں سے وہ چیز امپورٹ کی جا ئے۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل ایسی چیز ہے جس میں پاکستان کو مہارت حاصل ہے ہم اپنی ٹیکسٹائل سے پیسے کما سکتے ہیں اورہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری بہتر انداز میں چل پڑی ہے۔ اسکے علاوہ ہمارا فارموسیو ٹیکل سیکٹر بھی اٹھ رہا ہے، اس میں تیزی کے ساتھ ایکسپورٹ گروتھ ہو رہی ہے۔ موبائل ڈیوائس مینو فیکچرنگ میں فارن انویسٹمنٹ آرہی ہے۔ آٹو موبائل کے اندر ہمارے تین سے چار نئے پلیئرآچکے ہیں، اس سے ہمیں امپورٹ کا متبادل بھی نظر آئے گا اور ایکسپورٹ بھی بڑھے گی۔ پاکستان میں اب تک تین گاڑیوں کے پلانٹ چل پڑے ہیں، مزید اگلے چھ ماہ کے اندر کام شروع کردینگے۔