پاکستان کو معاشی طور پر کئی چیلنجوں کا سامنا ہے، جس میں مالیاتی خسارہ، ٹیکسوں کے ہدف کو حاصل کرنے میں نا کامی، برآمدات میں کمی، سرمایہ کاری میں جمود، معاشی نمو میں نمایاں کمی اور بڑھتے ہوئے امپورٹ بل شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کو بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، پیداوار میں کمی اور اخراجات میں اضافے کا بھی سامنا ہے۔ عالمی منڈی میں مسلسل تیل کی قیمت میں اضافہ ہو رہاہے، یہ حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے لیکن اس کے پاکستانی معیشت پر بہت ہی منفی اثرات ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کی موجودہ صورتحال پہلے ہی بہتر نہیں ہے، اس پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے بہت دبائو بڑھ گیا ہے۔ اس وقت عالمی منڈی میں تیل تقریباً80 ڈالر فی بیرل ہے۔ یہ عالمی سطخ پر ایک بہت اونچا اضافہ ہے اور پاکستان کیلئے ایک ڈالر کا بھی اضافہ ہوتا ہے تو اس سے ڈیڑھ ارب ڈالر مزید خرچہ ہو جاتا ہے۔
یقینی طور پر یہ صورتحال پاکستان کے کیلئے اچھی نہیں ہے، اس سال کے اختتام تک عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 90ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہیں، عالمی مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی قیمتوں کے اثرات پاکستان میں بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں پٹرول کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ اس وقت ملک میں پٹرول کی قیمت 128روپے کے قریب ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ قیمتیں مزید بڑھیں گی، اس بڑھتی ہوئی قیمت کے معیشت پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں، اس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورت حال مہینہ یا دو مہینے رہی تو حکومت نے جو امپورٹ بل میں تھوڑی سی کمی کی تھی، وہ دوبارہ بڑھ جائے گی۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں جو بہتری ہوئی ہے وہ بھی اب خطرے میں پڑ جائے گی۔ جلد معاشی ریکوری کی سارے کوششیں متاثر ہوں گی اور اس کی وجہ سے گیس اور ایل این جی کی قیمتیں بھی متاثر ہوں گی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے عوام کی سہولت کیلئے600 ارب کی لیوی بھی موخر کی۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اگر حکومت لیوی اور ٹیکس کم نہ کرتی تو حکومت کو400 ارب کا فائدہ تھا لیکن حکومت نے یہ فائدہ عوام کو منتقل کیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اب بھی پٹرولیم کی قیمتیں خطے میں سب سے کم ہیں۔ یعنی بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال سے بھی کم قیمت ہے۔
بھارت میں 250 روپے، بنگلہ دیش میں 198اور سری لنکا میں 186 روپے لٹر پٹرول مل رہا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے پٹرولیم کی قیمتیں 13سے14 فیصد بڑھائی ہیں لیکن دوسرے ممالک میں 50 فیصد کے قریب بڑھی ہیں۔ پاکستان کے مجموعی امپورٹ بل کا ایک چوتھائی حصہ پٹرولیم مصنوعات کا ہوتا ہے اور پاکستان سالانہ تقریباً 14 ارب ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات امپورٹ کرتا ہے۔ ایل این جی قیمتیں بھی پٹرول کی اوسط قیمتوں سے طے ہوتی ہیں۔ اس مالی سال کے پہلے دو مہینوں میں پٹرولیم امپورٹ بل میں 103فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پٹرولیم امپورٹ 3 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، جس کے براہ راست اثرات تجارتی خسارے میں اضافے اور زر مبادلہ کے ذخائر پر بوجھ اور مہنگائی کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ پٹرولیم کے ساتھ گیس، کوئلہ اور بجلی کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں اور اسی دوران پاکستان میں روپے پر بھی دبائو بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے ڈالر مہنگا ہو رہا ہے۔
پاکستان میں ڈالر 170 روپے سے زا ئد کا ہو گیا ہے، جب بھی پٹرول5 ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو پاکستان میں 1.2بلین ڈالر کا پریش آجاتا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی خسارہ 100 فیصد بڑھ گیا، برآمدات27.32فیصد اضافے سے6ارب96 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئیں، گزشتہ سال5 ارب47کروڑ ڈالر کی برآمدات کی گئی تھیں درآمدات65.08 فیصد اضافے سے18ارب63کروڑ ڈالر رہیں۔ گزشتہ سال11ارب28 کروڑ ڈالر کی درآمدات کی گئی تھیں، تجارتی خسارہ 11 ارب 66 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے بتایا ہے کہ خام تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے بعد پاکستان نے سعودی عرب سے درخواست کی ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ تیل کی فراہمی کا معاہدہ تکمیل کے قریب ہے، رواں سال جون کے مہینے میں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری کے اشاروں کے بعد ریاض نے پاکستان کو ادھار تیل کی فراہمی کی سہولت بحال کر دی تھی۔ درآمدی تیل پر انحصار کرنے والے پاکستان کو سعودی عرب کی جانب سے ایک سال کی مؤخر ادائیگی پر 1.5 ارب ڈالر کا تیل فراہم کیا جائے گا۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو مؤخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی کی سہولت پہلی بار نہیں دی جا رہی اور ماضی میں بھی یہ سہولت پاکستان کو چند مرتبہ فراہم کی گئی۔ تاہم 1.5 ارب ڈالر مالیت کے تیل کی مؤخر ادائیگی پر فراہمی اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی تعلقات میں گرم جوشی کے واپس آنے کی عکاسی کرتی ہے۔ جن میں کچھ عرصہ قبل کچھ رنجش پیدا ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے سعودی عرب نے تحریک انصاف کے دور حکومت میں دی جانے والی تین ارب ڈالر کی مؤخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی معطل کر دی تھی۔ یاد رہے کہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے دس ارب ڈالر تک مصنوعات کو باہر کی دنیا سے منگواتا ہے اور آر ایل این جی کی درآمد سے توانائی کے شعبے کی درآمدات 14 سے 15 ارب ڈالر پہنچ جاتی ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ادھار پرتیل حاصل ہونے سے پاکستان کو زرِمبادلہ کے ذخائربرقرار رکھنے میں مدد تو ملے گی لیکن قرض بڑھے گا اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ گزشتہ سال سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں گراوٹ کے باعث موخرادائیگیوں پر تیل کی فراہمی کے معاہدے پر عمل روک دیا تھا۔ سالانہ تین ارب ڈالر کے ادھار تیل کا معاہدے کے تحت سال 2020-2019 کے مالی سال میں پاکستان نے صرف پونے دو ارب ڈالر کی سہولت حاصل کی تھی۔ سعودی عرب نے 2018 کے آخر میں پاکستان کو چھ ارب 20 کروڑ ڈالر کا مالی پیکیج دیا تھا، جس میں تین ارب ڈالر کی نقد امداد اور تین ارب 20 کروڑ ڈالرز کی سالانہ تیل و گیس کی موخرادائیگیوں کی سہولت شامل تھی میرے خیال میں ہمیں فوری طور پر ایران سے بھی تیل و گیس لینے کی کوشش کرنا چاہیے اور اگر تہران پر لگنے والی پابندیوں کی وجہ سے کوئی مشکل ہے تو ہمیں بھارت کی طرح امریکا سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں ایران سے تیل و گیس منگوانے کے لیے استثنیٰ دے ورنہ تو ہماری معاشی مشکلات بہت بڑھ جائیں گی جس کے خطرناک سیاسی نتائج ہوں گے۔