ایشیائی ترقی بنک نے کورونا کا خصوصی سپلیمنٹ جاری کردیا، کورونا کے دوران پاکستان کی معیشت کی بحالی تسلی بخش رہی، پاکستان کے تعمیراتی اور پیداواری شعبوں میں بہتری آئی، حکومت نے تعمیراتی اور پیداواری شعبوں کو تعاون فراہم کیا، پاکستان کے مقابلے میں جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں معاشی بحالی کی رفتار سست رہی، دنیا کے مختلف خطوں میں معاشی بحالی کی راہ میں رکاوٹیں رہیں، رکاوٹوں سے نمٹنے کے لئے مختلف طریقے اپنائے جا رہے ہیں، چین میں ریکوری کی رفتار تیز رہی، تمام ممالک میں معاشی اشاریے، اہداف کے تعین میں اعتماد کا فقدان نظر آ رہا ہے، عمومی طور پر جنوبی ایشیا میں معیشت سکڑ رہی تھی، اب ہمارا کارو بار اور معیشت برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے، ٹیکس آمدن، اسپورٹس، زرمبادلہ اور روپے کی قدر میں ریکارڈ بہتری آ رہی ہے، اسٹاک مارکیٹ کے انڈیکس میں پچھلے 9 ماہ کے دوران 59 فیصد اضافہ ہو چکا ہے، ٹیکسٹائل، سیمنٹ، فرٹیلائزر، آٹو موبیل، میں بھرپور پیداوار جاری ہے، پاکستان اسٹاک مارکیٹ11 ماہ کی بلند ترین سطح پر ہے، سوموار کو اسٹاک مارکیٹ میں 795 پوائنٹ تقریباً 2 فیصد اضافہ ہوا، جیسا کہ پہلے بھی لکھا کہ اگلے سال کے آخر تک اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس50 ہزار پوائنٹس سے زیادہ رہنے کی توقع ہے۔
اگلا سال پاکستان کی معاشی ترقی کا بہترین سال ہو سکتا ہے، اوور سیز پاکستانی بینکنگ چینلز سے رقوم بھیج رہے ہیں، پچھلے6 ماہ کے دوران ترسیلات زر سوا 2 ارب ڈالر سے زیادہ ماہانہ آ تی رہی ہیں۔ پچھلے ماہ 2 ارب 34 کروڑ ڈالر آئے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 28 فیصد زیادہ ہیں۔ کورونا کے باجود جولائی سے نومبر ایکسپورٹ میں 7فیصداضافہ ہوا، پچھلے مہینے 10 سال بعد 2 ارب 15 کروڑ ڈالر کی ریکارڈ ایکسپورٹ ہوئی، مشیر تجارت عبد الرزاق دائودنے بھی ٹویٹ کیا۔ ٹیکسٹائل اور فارماسیٹیکل ایکسپورٹ میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔ ایشین ڈویلپمنٹ بنک نے بھی 2021 میں 6.8 فیصد گروتھ کی نشاندہی کی ہے، 40 مہینے بعد پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 20 ارب 40 کروڈ ڈالر سے زائدکی سطح پر آ چکے ہیں۔ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر 160 کے قریب ٹریڈ کر رہا ہے۔ 27 اگست کو ڈالر 168 روپے43 پیسے کے قریب ٹریڈ کر رہا تھا، اب ڈیڑھ ماہ سے پاکستانی روپے کی قدر مستحکم ہے۔ ماہرین کے مطابق 2018 میں جب تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی اس وقت سے لیکر اب ملک میں استحکام دیکھنے کو مل رہا ہے، پرائیویٹ سیکٹر کو ایک اعتماد ملا ہے، حکومت کی پالیسیاں اب کھل کر سامنے آ رہی ہیں، شرح سود اب یہیں پر رہے گی اور بھی بہت سے اچھے اقدامات ہو رہے ہیں۔ صنعتی پیداوار میں 5 فیصد اضافہ ہوا ہے، کرنٹ اکائونٹ سر پلس میں گیا ہے، شرح سود میں کمی سے کارو باری لاگت میں کمی ہو رہی ہے، اور اس سلسلے میں مسلسل گروتھ دیکھی جا رہی ہے۔
ہوم فنانسنگ اور آٹو فنانسنگ میں بینکنگ سیکٹر بہت منافع میں جا رہے ہیں۔ گذشتہ 5 ماہ میں سیمنٹ کی فروخت میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایکسپورٹ میں 21 فیصد اضافہ ہوا ہے، ان5 ماہ میں گاڑیوں کی فروخت میں 13.6 فیصد اضافہ ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق 55780 گاڑیاں فروخت ہو ئی ہیں۔ پچھلے ہفتے وزیر اعظم نے پاکستان کی تیسری مقامی پرواز ائیر سیال کا افتتاح کیا۔ اسی ہفتے برطانوی ائیر لائن ورجن اٹلانٹک نے اسلام آباد اور لاہور سے اپنی پرواز کا آغاز کیا، یہ برطانیہ کی دوسری بڑی ائیر لائن ہے۔ اس سے قبل برٹش ایئر ویز بھی اپنی پرواز کا آغاز کر چکی ہے۔ اس مالی سال کے پہلے5 ماہ میں جو ہدف تھا اس میں 1670 ارب سے بڑھ کر 1690 ارب روپے جمع کیا اس طرح سے پاکستان کی معاشی صورتحال نہ صرف مستحکم نظر آتی ہے بلکہ تمام اشاریے بتا رہے ہیں کہ پاکستان اس وقت اپنی معاشی ترقی کی بہترین سمت کی جانب برق رفتاری سے رواں دواں ہے۔ اوور آل دیکھا جا رہا ہے مارکیٹ کی صورتحال، بزنس کی صورتحال، سب ایک مستحکم سمت کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق گذشتہ سال ایکسچینج ریٹ ہائی تھا جس کی وجہ سے اکنامک ایکٹیویٹی سلو رہی اس کے بعد کورونا آ گیا جس کی وجہ سے کارو بار رک سا گیا، اب صورتحال بہتر ہو رہی ہے ایکسچینج ریٹ کم ہو گیا، کنسٹرکشن کا شعبہ فعال ہو گیا اس شعبہ سے جڑی 40 اور صنعتوں میں کام شروعہو گیا ہے، مہنگائی پچھلے سال 11 فیصد ہو گئی تھی۔ اب وہ 8 فیصد پر آ گئی اور آہستہ آہستہ مہنگائی مزید کم ہو رہی ہے، اس وقت سیمنٹ، اسٹیل، موٹر بائیکس کی ڈیمانڈ بڑھ گئی۔ دیہاتی علاقوں میں موٹر سائیکل کی ڈیمانڈ اتنی بڑھ گئی کہ پوری نہیں ہو پا رہی۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی سیکٹر ایسے ہیں جن میں گروتھ آ رہی ہے ان سیکٹر زمیں گروتھ 17.5 تک جا سکتی ہے۔ جو پچھلے 5 سال کی نسبت سب سے زیادہ گروتھ ہو گی، اس سے پہلے ایوریج گروتھ 9 یا 10 فیصدرہی ہے۔ لگ یہ رہا ہے کہ اگلے 5 سال میں شرح سود یہی رہے گی اور ترسیل زر مزید بڑھ سکتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان کی کرنسی اوور ویلیو تھی ہماری امپورٹس بہت زیادہ تھیں جس سے ایکسپورٹ متاثر ہو رہی تھی، اب آہستہ آہستہ پاکستانی روپیہ مستحکم ہو رہا ہے، امپورٹ کم ہو گئی ہیں، ایکسپورٹرز کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اگلے ایک سال تک کے آرڈرز ہیں، مارکیٹ بہتر ہو رہی ہے روز گار مل رہا ہے۔ ایک شعبہ ابھی بھی ایسا ہے جہاں توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ ہے زراعت۔ زراعت میں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ورلڈ بنک کے مطابق گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران پاکستان کے سروسز کے شعبے میں 12.8 فیصد اضافہ ہوا۔ مگر زراعت کے شعبے میں 14.4 فیصد کمی واقع ہوئی۔ 1960ء کی دہائی میں جس سطح پر تھے آج بھی اسی کے آس پاس ہیں۔ ہمارے حالات آج بھی چھ دہائیاں پہلے کی سطح پر اٹکے ہوئے ہیں۔ قومی معیشت میں زراعت کا حصہ 12.8 فیصد کم ہو چکا ہے۔ ملک کی مجموعی لیبر فورس کا 45 فیصد زراعت سے وابستہ ہے۔ ہماری پیداوار عالمی مارکیٹ میں مقابلے کی سکت سے محروم ہے۔ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، آبادی کے لحاظ سے 67.5فیصد افراد بلا واسطہ کاشتکاری کے پیشے سے منسلک ہیں، کاشتکاری میں مشکلات کی وجہ سے پاکستان کا جی ڈی پی غیر متوازن ہے، پاکستان کی جی ڈی پی میں کاشتکاری حصہ 25 فیصد ہے تقریباً 45 فیصد افراد کا روز گار کاشت کاری کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور تقریباً 62 فیصد افراد جن کا تعلق دیہی علاقہ جات سے جڑا ہوا ہے وہ بھی روزی روٹی کمانے کے لئے کاشت کاری کے شعبے سے منسلک ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو سخت گرمی اور یخ بستہ سردی میں کھلے آسمان کے نیچے اپنے خون پسینے کی کمائی سے منسلک ملک کے لئے زر مبادلہ اکٹھا کرتے ہیں اور ملکی صنعت کے لئے خام مال اکٹھا کرتے ہیں۔ زراعت سے عام انسان کی بنیادی ضروریات یعنی خوراک کو پورا کیا جاتا ہے، زراعت کا شعبہ ترقی کرنے لگے تو اجناس کی قیمتیں کم ہو نگی اور غریب آدمی پیٹ بھرکر کھا سکتا ہے، جتنی توجہ صنعتوں کی طرف دی جا رہی ہے، اتنی ہی زراعت کی طرف بھی دی جائے۔