Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Abhi Waqt Hai

Abhi Waqt Hai

ٹویوٹا جاپان کی گاڑیاں بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے، یہ کمپنی 1937میں قائم ہوئی اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں میں شامل ہوتی ہے۔ فرض کریں ٹویوٹا آ ج ایک ایسی کار بنانے کا فیصلہ کرتی ہے جو بہت زیادہ کمفرٹیبل اور تیز رفتار ہو، اس کے لیے وہ دنیا بھر کے ماہرین کو مدعو کرتی اور ان سے تجاویز لیتی ہے۔ وہ دنیا کے بہترین دماغ چن لیتی ہے، بہترین انجینئرز اور ڈیزائنرز کو ہائیر کرتی ہے، ماہر ترین اکانومسٹ کا انتخاب کرتی ہے، سیاسی و سماجی شخصیات کی رائے لیتی ہے اور پڑھے لکھے مزدور ہائیر کرتی ہے۔ کمپنی اس ٹیم میں دو نوبل انعام یافتہ شخصیات، آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار، مشہور آرٹسٹ اور ماہر ترین کاریگروں کو بھاری معاوضے پر رکھ لیتی ہے۔ پانچ سالہ مسلسل تحقیق اور محنت کے بعد وہ ایک نیا ماڈل بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، ایک ایسی کا ر جوبہت زیادہ تیز رفتار، آرام دہ اور کم خرچ ہے، مشہور شخصیات کو مدعو کر کے اس کی نقاب کشائی کی جاتی ہے، دنیا بھر کے میڈیا میں اس کی ایڈورٹائزمنٹ کی جاتی ہے اور بعد ازاں اسے دنیا بھر میں کمپنی کے ڈسٹری بیوٹرز کے شو رومز میں پہنچا دیا جاتا ہے۔

یہ سات ارب انسانوں کے لیے واقعی ایک اہم پیش رفت ہوتی ہے مگر اس کے باجود گاڑی کی طرف عوام کا رجحان نہیں ہوتا، انتہائی کم خرچ اور آرام دہ ہونے کے باوجود لوگ اسے نہیں خریدتے، دنیا کے ماہر ترین انجینئرز، نوبل اور آسکر ایوارڈ یافتہ شخصیات اور ماہرین اقتصادیات کی شمولیت کے باوجود گاڑی مارکیٹ میں اپنی ویلیو بنانے میں ناکام ہو جاتی ہے، اب اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا گاڑی بنانے والی کمیٹی میں شامل ماہرین اور انجینئرز غلط تھے، کیا نوبل اور آسکر ایوارڈ یافتگان پر عوام نے اعتماد نہیں کیا اور کیا کمیٹی میں شامل تمام افراد غلط تھے جنہیں عوام نے مسترد کر دیا؟ نہیں ایسا نہیں ہے، یہ گاڑی بالکل ٹھیک ہو سکتی ہے، یہ آرام دہ اور کم خرچ بھی ہو سکتی ہے مگر بات یہ ہے کہ اگر لوگ اسے نہیں خرید رہے تو یہ کسی کام کی نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اور آزادانہ تجارت میں گاہک ہمیشہ درست ہو تا ہے، خریدار اگر مطمئن نہیں تو کوئی پروڈکٹ مارکیٹ میں اپنا نام نہیں بنا سکتی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دنیا بھر کے ماہرین، انجینئرز، اکانومسٹ، سماجی شخصیات، نوبل اور آسکر ایوارڈ یافتگان اور بااثرشخصیات اس کے حق میں دلائل دیتے رہیں۔

وہ چیخ چیخ کر اعلان کریں کہ یہ دنیا کی سب سے بہترین گاڑی ہے، جامعات کے پروفیسرز اور مذہبی شخصیات اس کے حق میں دلائل دیں لیکن اگر عوام اس سے مطمئن نہیں اور اسے نہیں خرید رہے تو یہ کسی کام کی نہیں۔ آپ ایک اور مثال دیکھیں، آج ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ دودھ اور گوشت کے حصول کے لیے جانوروں میں جینیاتی ترامیم کی جا رہی ہیں۔ ایک نارمل گائے اور بھینس کوجوان ہونے اور دودھ کے قابل ہونے کے لیے تین سے چار سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے مگر جینیاتی ترمیم کے ذریعے یہ کام دو سالوں میں کیا جا رہا ہے، ایک نارمل گائے اور بھینس دس سے پندرہ لیٹر دودھ دیتی ہے مگر جینیاتی ترمیم کے ذریعے یہ مقدار چالیس سے پچاس لیٹر تک پہنچ چکی ہے۔ ایک جنگلی اور پالتو مرغی کو جوا ن ہونے میں دو سال کا عرصہ درکار ہوتا مگر جینیاتی ترمیم کے ذریعے یہ مرحلہ چند مہینوں میں مکمل ہو جاتا ہے اور گوشت بھی پالتو مرغی سے کہیں زیادہ۔ اب آپ لاکھ چیختے رہیں، جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی این جی اوز پیٹتی رہیں کہ یہ جانوروں کے لیے تکلیف کا باعث ہے، دودھ دینے والے جانوروں کے تھن اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں چلنے میں دشواری ہوتی ہے اور برائلر مرغیاں بمشکل اپنے پاوں پر کھڑی ہو سکتی ہیں مگر این جی اوز کا رونا دھونا اور چیخ و پکار سب فضول ہے، کیوں؟ کیونکہ ایسا کرنے والوں کے پاس ٹھوس دلائل موجود ہیں کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو سات ارب انسانوں کی ضروریات پوری نہیں ہو سکتی۔

اگر جینیاتی ترمیم کا سہارا نہیں لیاجاتا تو دودھ اور گوشت مہنگا بھی ہو گا اور نایاب بھی، اب خریدار کو فیصلہ کرنا ہے کہ اسے جانوروں کے حقوق کا خیال رکھنا ہے یاسستے داموں اپنی ضروریات پوری کرنی ہیں، انسانی خریداروں سے آپ کیا توقع کر سکتے ہیں یہ بتانے کی البتہ ضرورت نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں اصل اصول یہی ہے، صرف یہ جاننا اہم ہے کہ کوئی کمپنی عوام کی ضروریات اور خواہشات کو پورا کر رہی ہے یا نہیں، اس کے جائز یا ناجائزہونے اور انسانی حقوق اور جانوروں کے حقوق کی سب باتیں فضول ہیں۔ اسی نظریے کے مطابق اگر کوئی میڈیا ہائوس، کوئی چینل، کوئی کمپنی یا کوئی یونیورسٹی اگر بہت منافع کما رہی ہے یا عوام کی خواہشات کی تکمیل کر رہی ہے تو وہ بہت اچھا کر رہی ہے، ایسے میں اگر میں یا آپ اس میڈیا ہائوس، چینل، کمپنی یا یونیورسٹی کو بتانے کی کوشش کریں کہ آپ غلط کر رہے ہیں، غلط چیزیں سماج میں پھیلا رہے ہیں، نئی نسل کو غلط راستوں کی طرف لے جا رہے ہیں اور اپنی تہذیب و ثقافت کو برباد کر رہے ہیں تو ممکنہ جواب یہ ہوگا کہ آپ کون ہوتے ہیں ہمیں یہ سب بتانے والے، جب لاکھوں کروڑوں صارفین ہماری کمپنی، ہمارے چینل، ہمارے میڈیا ہائوس اور ہماری یونیورسٹی سے مطمئن ہیں تو یہ اس کی کامیابی اور اچھائی کی دلیل ہے۔

ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کے یہ تصورات و نظریات ہیں جو پوری دنیا میں نافذ اور رائج العمل ہیں اور دوسری طرف خیر اور بھلائی کے پیامبر ہیں جو کنویں کے مینڈک بن کر رہ گئے ہیں، کوئی ان کی سنتا ہے نہ یہ کسی کو سنا پا رہے ہیں، یہ کیوں نہیں سنا پا رہے؟ اس لیے کہ یہ سماج کی نفسیات کو نہیں سمجھ پا رہے، یہ سرمایہ دارانہ نظام کے مزاج کو نہیں سمجھ رہے اور یہ انسانی نفسیات کو اپیل نہیں کر رہے۔ وہ جو اقبال نے کہا تھا کہ ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت، نادان یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد۔ یہ لوگ بھی اپنی مساجد، درسگاہوں اور خانقاہوں میں بیٹھ کر سمجھتے ہیں کہ اسلام، مسلمان او رنئی نسل بالکل آزاد اوردین پسند ہے۔

یہ چند افراد کو مخاطب بنا کر سمجھ رہے ہیں کہ ہم صرف کوشش کے مکلف ہیں اور وہ ہم کر رہے ہیں۔ نئی نسل میں الحاد پھیل رہا ہے، یونیورسٹیاں اس الحاد کی آماجگاہیں ہیں اور سوشل میڈیا اس کا پلیٹ فارم ہے، میڈیا ہائوسز اور چینلز فیملی سسٹم کو تباہ کر رہے، فحاشی و عریانی اور ہیجان کو پروان چڑھا رہے ہیں مگر خیر کے داعیوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ انہیں یہ احساس ہی نہیں کہ ہم نے اس نسل اور ان اداروں کو کیسے اپنا مخاطب بنانا ہے، ہم نے خیر کے پیغام کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے کیسے پیش کرنا ہے اور انسانی نفسیات کو کیسے اپیل کرنا ہے۔ انسانی نفسیات خیر کی بجائے شر کی طرف جلد ی متوجہ ہوتی ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام انسانی نفسیات کی اسی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اپنا کھیل کھیل رہا ہے اور خیر کے داعی بسم اللہ کے گنبد میں بند کوشش کے مکلف ہو کر مطمئن بیٹھے ہیں۔

مساجد، مدارس اور خانقاہوں کی اہمیت بجا مگر آج ہمیں خیر کے ایسے داعیوں کی ضرورت ہے جو انسانی مزاج کو سمجھتے ہوئے اپنے پیغام کو عام کریں، جو نوجوان نسل کی نفسیات کو سمجھ کر انہیں اپیل کریں اور جو سرمایہ دارانہ نظام کے جال کو توڑ کر عوام کی درست سمت راہنمائی کریں۔ ابھی وقت ہے، یہ نسل شاید بات سن اور سمجھ لے، دس بیس سال بعد شاید یہ بھی ممکن نہ رہے۔