Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Ahal e Falasteen Ko Mubarak Ho

Ahal e Falasteen Ko Mubarak Ho

1686 میں اورنگزیب عالمگیرنے پہلی بار ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستان چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ انگریز کے خلاف پہلی جنگ آزادی 1757میں لڑی گئی تھی جس میں بنگال کے سردار نواب سراج الدولہ نے انگریزوں کو ٹف ٹائم دیا تھا۔ 1782میں میسور کے فرماں رواں نواب حیدر علی نے انگریزوں کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ حیدر علی کے بیٹے ٹیپو سلطان نے 1791 میں انگریزوں کو شکست دی اور 1799کی جنگ میں میر جعفر کی غداری کی وجہ سے ٹیپو سلطان نے جام شہادت کو نوش کیا۔

ٹیپو سلطان ہندوستان کاپہلا جرنیل تھا جس نے انگریزوں کے خلاف توپ اور میزائل استعمال کیے تھے۔ انیسویں صدی کے شروع سے 1831 تک سید احمد شہید کی قیادت میں تحریک مجاہد نے مختلف محاذوں پر انگریزوں کو شکست دی۔ 1857میں ہندوستان کی مشہور جنگ آزادی لڑی گئی جس کی قیادت بہادر شاہ ظفرنے کی۔ 1868 میں ہندوستان کے اہل علم نے دار العلوم کی بنیاد رکھی جہاں سے تحریک آزادی کی نئی قیادت نے جنم لیا۔ 1885میں ایک انگریز نے انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھ کر ہندوستانی کی پہلی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔

انیسویں صدی کے آخرمیں ندوۃ العلماء قائم ہوا۔ 1905 میں ریشمی رومال کی تحریک شروع ہوئی جس کی قیادت مولانا محمود حسنؒ اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے کی، یہ انٹرنیشنل تحریک تھی جس کا مقصد ہندوستان کی ریاستوں سمیت بین الاقوامی طاقتوں کو انگریزوں کے خلاف متحد کرنا تھا۔ 1906میں مسلم لیگ نے تحریک آزادی کی باگ ڈور سنبھالی۔ 1916 میں ایک فکر مند مسلمان نے گاندھی جی کو افریقہ سے ہندوستان لانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس سلسلے میں اٹھنے والے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کیے۔

1920میں علی گڑھ یونیورسٹی نے تحریک آزادی کی قیادت کو جنم دیا۔ 1920 کی دہائی میں صحافت اور اہل صحافت نے بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ ہندوستان کی آزادی کی تاریخ کے مختلف پڑاؤ اور مختلف واقعات تھے لیکن ان واقعات میں کتنے لوگ شہیداور کتنے زخمی ہوئے ہوئے، کتنوں کو درختوں کے ساتھ لٹکا کر پھانسی دی گئی اور کتنوں کو توپ کے دھانوں کے ساتھ باندھ کر پھڑکایا گیا یہ الگ داستان ہے۔

2019میں انڈیا کی وزات ثقافت نے ایک ڈکشنری مرتب کی تھی جس میں ہندوستان کی تحریک آزادی میں گزرجانے والوں کے نام شائع کیے تھے۔ اس ڈکشنر ی میں شہیداسے قراردیاگیا تھاجو تحریک آزادی میں حصہ لیتے ہوئے کسی بھی طرح جان سے گزر گیاتھا۔ کسی کی تشدد سے وفات ہوئی، کوئی زیر حراست جان سے گزر گیایا جسے سزائے موت دی گئی۔ اس میں 1857کی جدوجہد میں شہید ہونے والے، 1919 میں جلیانوالہ باغ قتل عام میں شہید ہونے والے، 1920 میں تحریک عدم تعاون کے شہدا، 1930سے 1934تک جاری رہنے والی سول نافرمانی تحریک کے شہدا، 1942سے 1944تک جاری رہنے والی ہندوستان چھوڑدوتحریک کے شہداء شامل ہیں۔

اس ڈکشنری کی چار جلدیں شائع کی گئی تھی اور چار جلدوں میں 13500 شہدا کے کوائف اورتفصیلات درج تھی۔ پہلی جلد میں دہلی، ہریانہ، پنجاب اور ہماچل پردیش کے 4400 سے زائد شہیدوں کی فہرست شائع کی گئی تھی۔ دوسری جلد میں اترپردیش، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان اور جموں وکشمیر کے 3500سے زائد شہیدوں کی فہرست شامل تھی۔ تیسری جلد میں 1400شہیدوں کے نام شامل ہیں جن میں مہاراشٹر، گجرات اور سندھ کے شہیدوں کے نام شامل ہیں۔ چوتھی جلد میں 3300 شہیدوں کے نام شامل ہیں، جن میں بنگال، بہار، جھار کھنڈ، اڑیسہ، آسام، اروناچل پردیش، منی پور، میگھالیہ، ناگالینڈ اور تریپورہ کے شہید شامل ہیں۔

صرف 1857 کی جنگ میں تقریباً پانچ لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا تھاجس میں 5000 صرف علماء تھے۔ موپلا تحریک کے دوران صرف ایک جنگ میں تین ہزار مسلمان شہید ہوئے تھے۔ ہندوستان کی وزارت ثقافت نے جن شہیدوں کی ڈکشنری مرتب کی وہ عام ہندوستانی نہیں تھے بلکہ اس ڈکشنری میں صرف ان شہیدوں کے نام شامل تھے جنہوں نے شعوری طور پر آزادی کی جنگ میں کسی نہ کسی طرح حصہ لیا تھا اوراس جرم میں انہیں تشدد، دوران حراست، پھانسی اور دیگر طریقوں سے شہید کیا گیا تھا۔ 1857میں پانچ ہزارعلماء کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا گیا یہ کوئی معمولی تعداد نہیں تھی مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایسا ہوا۔

پاکستان اور ہندوستان کو آزادی حاصل کرنے میں تقریباً دو صدیاں لگی تھی، آزادی کی پہلی چنگاری 1757میں جنگ پلاسی میں بھڑکی تھی اور اس کے بعد یہ چنگاری ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سلگتی رہی، 1857 میں یہ چنگاری الاؤ بن کر روشن ہوئی اور ٹھیک نوے سال بعدہندوستان آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ ان دو صدیوں میں تقریباً تین چار نسلیں تھی جو اس جنگ کا ایندھن بنی، جنہوں نے اپنے دائیں بائیں صرف جنگ، خون اور لاشیں دیکھیں اور غلامی کے طوق کے ساتھ زندگی گزاری۔ اگر اہل ہندوستان آزادی کی جنگ نہ لڑتے اور اپنے سے کئی گنا طاقتور ملک کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے تو شاید آج ہم کسی اور حال میں ہوتے۔ شاید یہ قدرت کی تکوینی سکیم کا حصہ ہے کہ انسانی تاریخ کے ہر عہد میں کوئی نہ کوئی قوم اپنی آزادی اور بقا کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہے۔

انیسویں اور بیسیویں صدی میں جب ہم آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے تو پور ا عرب سلطنت عثمانیہ کی چھتری تلے آزادی کی سانسیں لے رہا تھا۔ آج ہم آزادی کی نعمت سے مستفید ہو رہے ہیں تو عرب کا ایک حصہ فلسطین اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اہل فلسطین پچھلے پچھتر سال سے آزادی کی چنگاری سلگائے ہوئے ہیں، یہ چنگاری تاریخ کے مختلف ادوار میں سلگتی اور بجھتی رہی لیکن اہل فلسطین نے طوفان الاقصیٰ کے نام سے ان چنگاری کو الاؤمیں بدل کر پوری دنیا کی آنکھیں روشن کر دی ہیں۔

طوفان الاقصیٰ فلسطین کی آزادی کا اہم پڑاؤ ہے، یہ اہل فلسطین کی آزادی کا 1857ہے اورقومیں ایسے واقعات سے ہی آزادی کی طرف گامزن ہوتی ہیں۔ اہل فلسطین جس ظلم اور کرب سے گزر رہے ہیں وہ تکلیف دہ تو ہے لیکن ان کی جرأت، استقامت اور بہادری نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی قیمت پر اپنی آزادی کا سودا نہیں کریں گے۔ وہ چند مفاد پرست عرب حکمرانوں کے فیصلوں کو اپنی سرزمین پر مسلط نہیں ہونے دیں گے۔

اے اہل فلسطین! مبار ک ہو، آپ نے آزادی کی بجھتی چنگاری کو از سر نو سلگا دیا ہے، آپ نے طوفان الاقصیٰ برپا کرکے اپنی نسلوں کے لیے آزادی کی طرف پیش قدمی کر دی ہے۔ آپ نے ساری دنیا کی طاقت، انٹیلی جنس اور ہتھیاروں کا غرور خاک میں ملا دیا ہے۔ آپ نے حصول آزادی کا جوطویل اور کٹھن سفرطے کیا تھا اس کا اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ آزادی جس عزم، حوصلے اور ولولے کا مطالبہ کرتی ہے آپ نے اس کی قیمت ادا کر دی ہے، اب کوئی وجہ نہیں کہ آزادی سر کے بل چل کر آپ کی طرف نہ آئے۔ اے اہل فلسطین!آپ اور آپ کی آئندہ نسلوں کو مبارک اور اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔