Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Ghalib Tehzeeb Ke Asraat

Ghalib Tehzeeb Ke Asraat

غالب تہذیب کے علمی مراکز سے استفادہ کیے بغیر کوئی سماج آگے نہیں بڑ ھ سکتا، یہ ایسی بدیہی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا، خود اسلام اور عربی زبان اس کے بہترین عکاس ہیں، آنے والی سطور میں ہم جائزہ لیں گے کہ اپنے زمانہ عروج میں کس طرح عربی دیگر زبانوں پر اثر انداز ہوئی۔ عربی زبان کا آغاز یشجب بن یعرب بن قحطان کی نسل سے ہوتا ہے، انہیں قحطانی عرب کہا جاتاتھا، عربی زبان کے اصل بانی یہی یمنی قبائل تھے۔ ان کا اصل گہوارہ ملک یمن تھا، یہیں یہ مختلف قبیلوں اور شاخوں میں پھیلے اور بڑھے۔ ان میں سے دو قبائل نے بڑی شہرت حاصل کی، ایک حمیر بن سباء دوسراکہلان بن سباء۔ قحطان حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کی نسل سے تھے، اسی وجہ سے عربی کو سامی زبان کہا جاتا ہے، حوادث زمانہ کی وجہ سے سامی قوم نے دنیا کے مختلف حصوں میں ہجرت کی تو ان کے ساتھ یہ زبان بھی دنیا کے مختلف حصوں میں پہنچ گئی۔ مستشرقین اور ماہرین آثار قدیمہ نے یمن، شام اور شمالی حجا ز میں کھدائی کے دوران ملنے والے کتبوں، پتھروں، گنبدوں اور قلعوں سے حاصل ہونے والی معلومات سے عربی زبان کے آغاز و ارتقاء کو دو لہجوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک، جنوبی عربی لہجہ، اس لہجے کے کتبے یمن کے علاقے قتبان، معین اور سبا وغیرہ سے ملے ہیں جہاں اس لہجے کا رواج تھا۔ جنوبی عربی میں حمیر اور کہلان کی زبانیں شامل تھی مگر فوقیت حمیر کو حاصل تھی اس لیے اس کو حمیری زبان بھی کہا جاتا ہے۔

دو، شمالی عربی لہجے، اس لہجے کے کتبے حجاز کے شمال میں قو م ثمود کی جگہوں سے ملے ہیں، یہ عدنانیوں کی زبان تھی اور انہوں نے یہ یمنیوں سے مستعار لی تھی۔ آج عربی ادب کا جو ذخیرہ موجودہ ہے وہ اسی عدنانی لہجے میں ہے۔ جب یمن میں عرم کا سیلاب آیا اور مشہور بند " مآرب " ٹوٹا اور سیلاب کی وجہ سے بہت سارے علاقے تباہ و برباد ہوگئے، سبا کے قبائل نے وہاں سے ہجرت کر کے جزیرہ عرب میں پناہ لی۔ یمن کے یہ لوگ متمدن، طاقتور اور ذہین تھے چناچہ انہوں نے شمالی علاقوں میں آکر بھی اپنا سکہ جمانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو ئے اور عدنانی عربوں نے ان علاقوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ قحطانیوں اور عدنانیوں میں ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی یہ کوشش بعد میں ایک دوسرے کے میل ملاپ کا سبب بن گئی اور دونوں گروہوں میں تجارتی، سفارتی اور معاشرتی تعلقات قائم ہو گئے۔ اس طرح دونوں قبائل میں غیر شعوری طور پر الفاظ، ادائیگی اور لہجے کافرق مٹنا شروع ہو گیا اور دونوں زبانوں اور لہجوں میں یکسانی پیدا ہو نے لگی۔ چھٹی صدی عیسوی کے بعد حمیریوں کا اقتدار آہستہ آستہ غروب ہو نے لگااور عدنانیوں کی طاقت مضبوط ہوتی چلی گئی۔

عربی زبان کی اشاعت کے سلسلے میں یہ جاننا اہم ہے کہ اسلام کی آمد کے بعد مسلمانوں نے جن علاقوں کو فتح کیا وہاں رہائش بھی اختیار کرنا شروع کر دی، اس سے عجمیوں کا عربی کی طرف رجحان بڑھا۔ بہت سے عرب قبائل اپنا آبائی وطن ترک کر کے دنیا کے مختلف خطوں میں جا بسے، مقامی لوگوں نے ان قبائل اور افراد سے عربی زبان سیکھنی شروع کی اوراس طرح عجمیوں میں عربی زبان سیکھنے کا رجحا ن بڑھا۔ دور عروج میں مسلمان امراء نے دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے غیر مسلموں کے لیے بلا امتیاز نسل و ملت ملازمت کے دروازے کھول دیئے تھے، اس طریقے سے بھی عربی زبان دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلتی چلی گئی۔ اس وسعت ظرفی اور رواداری کے نتیجے میں ایک عالمگیر تہذیب نے جنم لیا اور مختصر سے عرصے میں عربی زبان نے شام، مصر، ایران، عراق، اسپین، اٹلی اور افریقہ میں مقامی زبانوں کو اتنا بے اثر کردیا کہ صرف سترسال کے عرصے میں عربی زبان ان علاقوں کی مقامی زبانوں پر غالب آگئی۔ اگرچہ عجمیوں کو عربی سے کوئی سرو کار نہیں تھا لیکن چونکہ یہ ایک عالمگیر تہذیب کی زبان تھی اور عجمیوں کو حکومتی کاموں سے واسطہ پڑتا تھا اس لیے انہوں نے عربی زبان کو حکومتی تعلقات کی وجہ سے بھی سیکھا۔ جن عجمیوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھاوہ اپنے دیگر رشتہ داروں، ہمسایوں کی وجہ سے عربی سے مانوس ہو گئے تھے۔ اس ساری منظرنامے میں عربی زبان نے کھلے دل کا مظاہرہ کیا اور دیگر زبانوں جن میں لاطینی، فارسی، سریانی، عبرانی، حبشی، قبطی اور ہندی زبانیں شامل ہیں ان کے الفاظ مستعار لیے اور یوں عربی کا ذخیرہ الفاظ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ بعد میں جب عجمی سلاطین حکمران ہوئے توانہوں نے بھی معاہدوں اور خط وکتابت کے لیے عربی زبان کو ہی فروغ دیا۔

اس کام کے لیے یہ لوگ عرب سے کاتب اور منشی بلا تے تھے اور ان کے ذریعے عربی زبان میں ہی خط و کتابت کرتے تھے۔ عربی زبان کے فروغ کا ایک بڑا سبب صلیبی جنگیں تھیں، صلیبی جنگجو ؤں کا جب عربوں کے ساتھ انٹریکشن ہوا تو اس سے بھی عربی زبان یورپ او ر دیگر علاقوں تک پہنچ گئی۔ بعد میں جب یورپ میں اسلامی علوم کے تراجم کا سلسلہ شروع ہوا تو یورپی مصنفین اور اہل علم نے باقاعدہ عربی سیکھنی شروع کی، یورپ کے بہت سارے مقامات پر عربی سیکھنے سیکھا نے کے لیے باقاعدہ ادارہ قائم ہوئے اور کچھ یورپی اسکالر زنے اندلس، مصر اور عراق کی جامعات میں جا کر عربی زبان سیکھی۔ قرون وسطیٰ میں مشرق وسطیٰ، افریقی علاقے اور یورپ کے بعض حصے عربی حکو مت کے ماتحت تھے تو اس وجہ سے بھی ان علاقوں میں عربی زبان کو فروغ ملا۔ جزیرۃ العرب کے قرب و بعد کی نسبت سے عربی زبان نے مختلف علاقوں میں مختلف انداز میں اپنے قدم جمانا شروع کیے، ایران کا معاملہ البتہ لگ تھا کہ اہل ایران نے عربوں کی ظاہری اطاعت تو قبول کی لیکن اندرونی طور پر اپنے رسوم ورواج کو کبھی نہیں چھوڑا۔ عام ایرانیوں میں چوتھی صدی ہجری تک مجوسیت غالب رہی اور اس عرصے میں ان کا کوئی علاقہ آتش کدوں سے خالی نہیں تھا۔ خلافت عباسیہ کے زمانے میں ایران کے بڑے شہروں میں بہت سارے علمی مراکز تھے لیکن عربی زبان صرف چند مخصوص شہروں تک محدود تھی حالانکہ اس دوران عربی ایران کی سرکاری اور علمی زبان تھی، یہ تو شہروں کا حال تھا دیہاتوں میں تو بالکل عربی نہیں تھی اور وہاں کردی اور پہلوی زبانیں بولی جاتی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عربی کے ابتدائی ماہرینِ صرف و نحو میں نومسلم ایرانی پیش پیش تھے اور ایرانی مصنفوں نے عربی زبان پر بہت ساری منظم کتابیں لکھی تھیں۔

اندلس پرمسلمانوں کے قبضے کے بعد اس سے متصل جزیروں میں بھی عربی زبان بولی جانے لگی تھی اور اس کا حلقہ یورپ میں وسیع ہوتا چلا گیاتھا۔ یورپ میں عربی زبان نے کافی عرصے تک اپنی حکمرانی قائم رکھی، جنوبی فرانس میں عربی دو صدیوں تک اور صقلیہ، کریٹ اور دیگر جزائر میں ایک عرصے تک موجود رہی، شمالی افریقہ کے تقریبا سب ممالک عربی کے زیر اثر رہے۔ اندلس کی فتح کے صرف پچاس سال بعد عربی وہاں اتنی مقبول ہو چکی تھی کہ ارباب کلیسا اپنی عبادت کا ترجمہ عربی میں کرنے لگے تھے تا کہ عام عیسائی اس کو سمجھ سکیں۔ اس دور میں اندلس کے عام باشندے اسپینی، پرتگالی اور عربی یکساں بولتے تھے۔ اسپین کے شہر اسکوریال میں آج بھی مسلمان مصنفین کی تحریر کردہ عربی، یونانی، لاطینی اور اسپینی لغت کی کتب موجود ہیں۔ یہ مختصر منظرنامہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ غالب تہذیب کی زبان اور اس کے علمی مراکز اور علمی ذخیرے سے استفادہ کیے بغیر کوئی سماج آگے نہیں بڑھ سکتا، آج ہمیں کسی سے مرعوب ہوئے بغیر اس میدان میں قدم رکھنا ہے ورنہ ہمارا سماج دنیا کے قافلے سے بچھڑ کر بالکل الگ تھلگ اور بہت پیچھے رہ جائے گا۔