Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Kayenaat Khuda Kyun Nahi

Kayenaat Khuda Kyun Nahi

ہم اس سوال تک پہنچے تھے کہ کیا کائنات اور انسان از خود اپنے خالق ہو سکتے ہیں۔ ہم بات کو آگے بڑھاتے ہیں، علم جدید اور ملحدین کا بیانیہ ہے کہ کائنات کے وجود میں آنے سے قبل کچھ نہیں تھا اور سب کچھ کائنات کے وجود میں آنے کے بعد وجود میں آیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کائنات خود خالق ہے۔ کائنات کو خالق ماننے سے قبل ہمیں خالق کو ڈیفائن کرنا ہوگا کہ خالق کو ن ہوسکتا ہے، اس کی لازمی صفات کیا ہیں اور ہم کس ہستی کو خالق مان سکتے ہیں۔

عقل انسانی کا بنیادی تقاضا ہے کہ خالق وہ ہستی ہو سکتی ہے جو ازل سے ہو اور ابد تک رہے۔ ایسی ہستی یا ایسا وجود خالق نہیں ہو سکتا جو ازل سے نہ اور ابد تک نہ رہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا کائنات میں خالق ہونے کی یہ بنیادی صفات پائی جاتی ہیں۔ سائنس اور علم جدید دونوں اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات کی عمر تقریباً ساڑھے تیرہ ارب سال ہے۔ ساڑھے تیرہ ارب سال پہلے بگ بینگ ہوا جس کے نتیجے میں کائنات وجود میں آئی۔ معلوم ہوا بگ بینگ سے پہلے کائنات نہیں تھی لہٰذا خالق کی بنیادی صفت ازل سے ہونا اس میں نہیں پائی جا تی۔

اسی طرح سائنس اور علم جدید کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انسانی تاریخ میں ایک وقت آئے گا جب کائنات تباہ و بربادہو جائے گی۔ اس سے کائنات کا ابدی ہونا بھی محال ہوگیالہٰذا ایسا وجود جو ازلی ہے اور نہ ابدی اس کو خالق کیسے تسلیم کیا جا سکتا۔ اسی طرح سائنس اور علم جدید یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ کائنات مادہ سے مل کر بنی ہے یا دوسرے لفظوں میں کائنات کا وجود مادہ پر مشتمل ہے تو یہ کیسا خدا ہے جو مادہ پر مشتمل ہے جبکہ مذہب خالق کا جو تصور پیش کرتا ہے وہ ازلی بھی ہے، ابدی بھی، مادہ سے ماوراء اور مافوق الفطرت بھی۔

ہم بات کو مزید آگے بڑھاتے ہیں، سائنس اور علم جدید جب بگ بینگ کو مان چکے ہیں تو یہ اس با ت کا اقرار ہے کہ کائنات کی کوئی شروعات ہیں۔ جس وجودکی شروعات ہوں وہ شروعات سے پہلے نہیں ہوتااور جووجود ایسا ہو کہ کسی زمانے میں نہ ہو وہ ازلی نہیں ہو سکتا اور جو ازلی نہ ہو وہ خالق نہیں ہو سکتا۔ اس مقدمے سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ جو وجود ازلی نہ ہو اس کا کوئی خالق ضرور ہوتا ہے یعنی یہ کیسے ممکن ہے کہ مینار پاکستان موجود ہے مگر اس کا کوئی خالق نہ نہیں ہے۔

کائنات جب ازلی نہیں تو خالق نہیں، جب مخلوق ہے تو لازمی طور پر کسی خالق کی تخلیق ہے اور مذہب اسی خالق کو خدا کا نام دیتا ہے۔ آپ ایک اور استدلال دیکھیں، مذہب اور سائنس دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ یہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، قرآن کہتا ہے "وانا لموسعون"ہم کائنا ت کو مسلسل پھیلا رہے ہیں۔ سائنس بھی کہتی ہے کائنات میں ہر لمحہ نئے ستارے اور سیارے وجود میں آ رہے ہیں۔ چنانچہ ہمیں پھیلاؤ کو ماننے کے لیے پہلے اس کانکتہ انجماد ماننا پڑے گا یعنی اس کا کوئی نکتہ انجماد تھا جہاں سے یہ پھیلنا شروع ہوئی۔ جب نکتہ انجماد مان لیا تو گویاا س کی شروعات ثابت ہو چکی اور جووجود اپنی شروعات یا زمان و مکان رکھتا ہو وہ ازلی نہیں ہو سکتا اور جو ازلی نہ ہو وہ خالق نہیں ہو سکتا۔

جب مذہب اور سائنس دونوں کے نزدیک کائنات کا مخلو ق ہونا ثابت شدہ ہے تو پھر کسی ہمیں کسی خالق کو تلاش کرنا پڑے گاپھر خالق بھی کوئی عام نہیں بلکہ ذہین خالق کو تلاش کرنا پڑے گا کیونکہ اتنی بڑی کائنات اور اس کا نظم بغیر کسی ذہین خالق کے وجود میں آسکتا ہے نہ ہی اربوں سال سے اتنے منظم انداز میں چل سکتا ہے۔ علم جدید اور ملحدین ذہین خالق کو تسلیم کرنے کے بجائے اسے از خود خالق ہونے یا محض اتفاق کا نام دے کر بات بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ از خود خالق ہونے کے استدلال کو ہم دیکھ چکے اب اتفاق کے استدلال پر بات کر لیتے ہیں۔

علم جدید اور ملحدین کہتے ہیں یہ سب اتفاق سے ہوا ہے، مشہور فلسفی ہکسلے کہتا ہے کہ ممکن ہے اگر چھ بندر کروڑوں سال تک ٹائپ رائٹر پر پریکٹس کرتے رہیں تو اس کے نتیجے میں شکسپیئر کی کوئی نظم وجود میں آ جائے۔ بعینہ ممکن ہے کہ اربوں سال کے مادہ اور انرجی کی اندھا دھند گردش کے نتیجے میں موجودہ کائنات وجود میں آ گئی ہو۔ اس استدلال پر بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ اتنی بڑی کائنات کا بغیرکسی ذہین خالق کے محض اتفاق سے وجود میں آجاناگویا ایسے ہی ہے جیسے پرنٹنگ پریس میں دھماکے سے کوئی خوبصورت کتاب وجود میں آ جائے۔

علم جدید اور ملحدین کی طرف سے یہ استدلال بھی پیش کیا جاتا ہے کہ ممکن ہے مادہ اربوں سال کی گردش کے نتیجے میں اتفاقاً اس کائنات کی صورت میں ڈھل گیا ہو۔ اس اصول اتفاق کے مطابق کائنات کا از خود خالق ہونا اس لیے ممکن نہیں کہ اس کے لیے کائنات کی پیدا ئش کے لیے جو مدت درکار ہے وہ بہت کم ہے۔ مثلاً اصول اتفاق کہتا ہے کہ اگر آپ کی جیب میں دس سکے ہوں اور آپ انہیں بالترتیب جیب سے نکالنا چاہتے ہوں تو یہ امکان کہ پہلی بار پہلے نمبر والا سکہ ہی آپ کے ہاتھ میں آ ئے دس میں سے ایک فیصد ہے۔ یہ امکان کہ دوسرے نمبر والا سکہ بھی بالترتیب ہاتھ میں آئے سو میں سے ایک ہے۔

یہ امکان کہ تیسرے نمبر والا سکہ بھی بالترتیب ہاتھ میں آئے ہزار میں سے ایک ہے، چوتھے نمبر والا سکہ بھی بالترتیب ہاتھ میں آئے دس ہزار میں سے ایک ہے، پانچویں نمبروالاسکہ بھی بالترتیب ہاتھ میں آئے یہ امکان لاکھ میں سے ایک ہے اور دس کے دس سکے بالترتیب ہاتھ میں آئیں یہ امکان دس ارب میں صرف ایک ہے۔ جبکہ سائنس نے کائنات، زمین اور زمین پر حیاتیات کی جو عمر دریافت کی ہے وہ اس اتفاق کے اصول کے لیے ناکافی ہے۔

پھر اگرہم اتفاقاً کائنات کے وجود میں آنے کو مان لیں تو اربوں سال سے اس کا بھرپور معنویت اور منظم انداز میں چلتے رہنا بھی محض اتفاق ہے؟ اگر سورج، زمین اور چاند کا فاصلہ موجودہ فاصلوں سے کم یا زیادہ ہوجائے تا تو سوچیں کیا ہو۔ اس لیے محض اصول اتفاق سے بات نہیں بن سکتی بلکہ لازماً ہمیں کسی ذہین خالق کو ماننا پڑے گااور کائنات کی تخلیق اور اس کے نظم کی توجیہ اس کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

سائنس اور علم جدید تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ابھی تک کائنات میں پائی جانے والی صرف پانچ فیصد معنویت دریافت کر پائے ہیں اور پچانوے فیصد دریافت کرنا ابھی باقی ہے، سوچیں اگر وہ معنویت بھی دریافت ہو جائے تو انسان ذہین خالق کے وجود کو ماننے پر نہ صرف مجبور ہو جائے بلکہ وہ بے ساختہ اس کی قدرت کے سامنے سجدہ ریز ہو جائے۔ کائنات تو ایک بہت بڑی تخلیق ہے خود انسانی وجود کے اندر بے انتہا معنویت اور نظم و ضبط موجود ہے۔ ہم جو دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، چکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں یہ سارے اعمال دماغ کے ذریعے انجام پاتے ہیں اور دماغ ان تمام اعمال کا حکم متعلقہ حس کو دیتا ہے جس سے دیکھنے، سننے، چکھنے اور محسوس کرنے کا عمل وجود پذیر ہوتا ہے۔

آج ذہین خالق کے تخلیق کردہ وجود کو دیکھ کر سائنٹفک چیزیں ایجاد کر لی گئی ہیں مثلا آنکھ کو دیکھ کر کیمرہ ایجاد کیا گیا ہے، لینز تیار کیے گئے ہیں، جیلی فش جو سمندروں میں آنے والے طوفانوں کو محسوس کر لیتی ہے اس کو دیکھ کر طوفانوں کی آمد کی اطلاع کی دینے والے آلات تیار کیے گئے ہیں۔ ان جدید سائنسی آلات کے بارے میں کوئی نہیں کہتا کہ یہ از خود یا اتفاقاً وجود میں آ گئے ہیں مگرجن اصل اشیاء کو دیکھ کر یہ سائنسی آلات بنائے گئے ہیں ان کے بارے میں ہم بڑی آسانی سے از خود خالق ہونے اور اصول اتفاق کا حوالہ دے دیتے ہیں۔

اب تک کی گفتگو سے کائنات کے از خود خالق نہ ہونے اور کسی ذہین خالق کا وجود تو ثابت ہوگیا مگر وہ خالق مسلمانوں والا تصور خدا ہی کیوں، دنیا میں بیسیوں مذاہب ہیں اور ہر مذہب میں خالق اور خدا کا تصور موجود ہے تو کسی بھی مذہب کے خدا کو مانا جا سکتا ہے صرف مسلمانوں والا تصور خدا ہی کیوں۔ اس پر بات اگلے کالم میں۔