میں آپ کو کلکتے کے نواحی علاقے ہوڑہ میں مقیم 73 سالہ سلطانہ بیگم کی کہانی سنانا چاہتا ہوں لیکن اس کہانی کو سمجھنے کے لیے پہلے آپ کو ماضی میں جانا پڑے گا۔ امیر تیمور برصغیر کے مغلیہ حکمرانوں کا جد امجد تھا۔ دنیا کے نامور جرنیلوں کی فہرست بنائی جائے تو امیر تیمور کا نا م ٹاپ ٹین میں آئے گا۔ اس نے زندگی میں 54 ملک فتح کیے اور ہر ملک فتح کرنے کے بعد جب تک وہ انسانی کھوپڑیوں کے مینار نہ چن لیتا وہ آگے نہیں بڑھتا تھا۔
امیر تیمور کی نسل میں آگے چل کر ظہیر الدین بابر پیدا ہوا، ظہیر الدین کی ساری زندگی اپنوں سے لڑتے ہوئے گزری، ظہیر الدین کو اپنے بیٹے ہمایوں سے بہت پیار تھا، ہمایوں بیمار ہوا تو ظہیر الدین سے رہا نہ گیا اس نے دعا مانگی یا اللہ ہمایوں کی بیماری مجھے دے دے اور ہمایوں کو تندرست کر دے۔ وہ قبولیت کی گھڑی تھی ہمایوں صحت یاب ہوگیا اور ظہیر الدین وفات پا گیا۔ ہمایوں نے بڑی خوفناک جنگیں لڑیں، ایک دن وہ اپنے محل کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا کہ پاؤں پھسلا اور لڑھکتا ہوا سیڑھیوں سے نیچے آ گرا۔ بظاہر یہ معمولی واقعہ اس کی موت کا سبب بنا۔
ہمایوں کے بعد جلال الدین اکبر نے مغلیہ سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی، وہ صرف تیرہ سال کا تھا جب اسے شاہی لباس پہنا دیا گیا۔ اکبر نے رعایا پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے ایک نیا دین ایجاد کیا جسے دین اکبری کا نام دیا۔ اکبر نے ہندوؤں کو اپنے دربار میں اعلیٰ عہدے عطا کیے، اکبر کا ایک بیٹا شہزادہ سلیم تھا، شہزادہ سلیم ایک کنیز زادی انار کلی کے عشق میں گرفتار ہوگیا، اکبر یہ حرکت برداشت نہیں کر سکتا تھا چنانچہ عشق نے باپ اور بیٹے کو میدان جنگ میں لا کھڑا کیا۔ جنگ کے میدان میں عشق نے باپ کے سامنے گردن جھکا دی اور شہزادے کو بیڑیاں پہنا کر باپ کے سامنے پیش کیا گیا۔
شہزادے نے دونوں ہاتھ جوڑے اور باپ کے سامنے گردن جھکا کر بولا: "ابا حضور ہم سے غلطی ہوگئی ہم معافی کے طلبگار ہیں" اکبر طیش میں آ گیا اور کہا: "بیوقوف تمہاری چھوٹی سی غلطی نے اکیس ہزار سپاہیوں کی جان لے لی"۔ اکبر 1605 کو طبعی موت مرا اور یہی شہزادہ سلیم بعد میں جہانگیر کا لقب پا کر ہندوستان کا حکمران بنا۔ 1611 میں جہانگیر کے عشق کا جادو سر چڑھ کر بولا اور نور جہاں کے منظر عام پر آنے کے بعد ہندوستان کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا، 1627 میں کشمیر سے واپس آتے ہوئے راستے میں جہانگیر کا انتقال ہوگیا۔
جہانگیر کے بعد اس کے بیٹے شاہجہان نے زمام اقتدار سنبھالی اور اس نے آگرے میں تاج محل بنا کر باپ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ شاہجہان کی عیش پرستی دیکھ کر مقامی سرداروں نے بغاوت کر دی اور پورا ملک خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔ شاہجہان کے چاروں بیٹے آپس میں گتھم گتھا ہو گئے، شاہجہان کی ہمدردی دارا کے لیے تھی لیکن اورنگزیب عالمگیر نے سب کو شکست دے کر زمام اقتدار سنبھال لی۔ اس نے اپنے باپ شاہجہان کو قید کر دیا اور وہیں 1666 شاہجہان کی وفات ہوئی۔
اورنگزیب مغل حکمرانوں میں قدرے نیک طبیعت واقع ہوا تھا، اس نے ملک میں شرعی قوانین کا اجرا کیا۔ اس کے دور میں مغلیہ سلطنت غزنی سے چٹا گانگ تک اور کشمیر سے کرناٹک تک پھیلی ہوئی تھی اور یہ مغلیہ سلطنت کے انتہائی عروج کا زمانہ تھا۔ 1707میں اورنگزیب کا انتقال ہوا اور اس کے ساتھ ہی برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوگیا۔ اورنگزیب کی وفات کے بعد اس کے جانشینوں میں ہونے والی خانہ جنگیوں نے مغلیہ سلطنت کے زوال کی پہلی اینٹ رکھی۔
اورنگزیب کے بعد محمد معظم بہادر شاہ بادشاہ بنا، بہادر شاہ کے بعد کئی بادشاہ آئے لیکن آپس کی خانہ جنگیوں کی وجہ سے کوئی بھی زیادہ عرصے تک نہ ٹھہر سکا اور صرف پچاس ساٹھ سال میں 11 مغل بادشاہ حکمران بنے۔ کسی کی مدت بادشاہت چار ماہ تھی اور کو ئی دو ماہ کے بعد قتل ہوا۔ انہی بادشاہوں میں ایک نام محمد شاہ رنگیلا کا تھا، مؤرخ جب محمد شاہ رنگیلا کا نام لیتا ہے تو تاریخ کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
وہ چوبیس گھنٹے نشے میں دھت رہتا، فحاشی و عریانی اس کی سرشت میں داخل تھی اور اکثر اوقات وہ دربار میں ننگا آ جاتا تھا۔ وہ دربار میں سر عام پیشاب کر دیتا اور اس کے درباری اس کے سامنے اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے تھے۔ اسے قانون بنانے اور توڑنے کا بھی بڑا شوق تھا، وہ چاہتا تو کسی راہ چلتے کو وزیر اعظم بنا دیتا اور چاہتا تو وزیر اعظم کو جیل بھیج دیتا، وہ حکم دیتا کل سارے درباری زنانہ کپڑے پہن کر آئیں گے اور خود سب سے پہلے زنانہ کپڑوں میں دربار میں موجود ہوتا، وہ موسیقی اور رقص و سرود کا رسیا تھا اور وہ طوائفوں کی گود میں بیٹھ کر نظام حکومت چلاتا تھا۔
کثرت شراب نوشی کے باعث 1748 میں اس کا انتقال ہوا اور یہ مغلیہ سلطنت کے زوال کی انتہا تھی۔ اس کے بعد 1757 سے 1857 تک تمام مغلیہ حکمران انگریز کے وظیفہ خوار رہے اور بہادر شاہ ظفر آخری وظیفہ خوار بادشاہ تھا، بہادر شاہ ظفر لال قلعے کے اندر تک محدود ہو کر رہ گیا تھا اور حد یہ تھی کہ قلعے کے اندر بھی اس کی کوئی نہ سنتا تھا۔ صرف دو انگریز سپاہی اسے وظیفہ دینے آتے اور جاتے ہوئے اس کی عزت اور غیرت کا جنازہ پڑھا کر جاتے تھے۔
1857 کی جنگ آزادی کے بعد انگریز نے بہادر شاہ ظفر کو بیٹوں سمیت حراست میں لے لیا اور سب کو بھگی میں بٹھا کر شہر کی طرف لے جایا گیا، جب یہ بھگی خونی دروازے کے قریب پہنچی تو میجر ہڈسن نے شہزادوں کو نیچے اتارا اور قطار میں کھڑا کرکے بادشاہ کے سامنے گولی مار دی۔ بہادر شاہ کو رنگون میں قید کر دیا گیا جہاں اس نے اپنی بقیہ زندگی "کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے" جیسی بے بسی اور بے کسی کی شاعری کرتے ہوئے گزار دی۔
ہم واپس آتے ہیں سلطانہ بیگم کی کہانی کی طرف، مرزا بیدار بخت بہادر شاہ ظفر کا پڑپوتا تھا اور سلطانہ بیگم مرزا بیدار بخت کی بیوی ہے۔ غزنی سے چٹاگانگ تک حکمرانی کرنے والے مغلیہ خاندان سے تعلق رکھنے والی سلطانہ بیگم آج کل کلکتے کے علاقے ہوڑہ میں اپنی پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہ رہی ہے اور اپنی زندگی کے دن پورے کرنے کے لیے چائے کا کھوکھا چلاتی ہے۔ انڈین حکومت سلطانہ بیگم کو چھ ہزار روپیہ ماہوار وظیفہ دیتی ہے جس سے سلطانہ بیگم کی جھونپڑی کے اخراجات چلتے ہیں۔
مغلیہ خاندان سے تعلق رکھنے والی سلطانہ بیگم کی کہانی ہمارے حکمرانوں کے لیے سبق ہے۔ تقدیر ہر حکمران کو نیکی اور بدی کے یکساں مواقع فراہم کرتی ہے، جو حکمران نیک نامی کو اپناتے ہیں تقدیر انہیں ہیرو بنا کر ہمیشہ کے لیے امر کر دیتی ہے اور جو حکمران عیش پرستی میں کھو کر عیاش اور بہادر شاہ بن جاتے ہیں ان کی نسلیں آگے چل کر سلطانہ بیگم بن جاتی ہیں اور تقدیر انہیں محلات سے نکال کرجھونپڑیوں میں شفٹ کر دیتی ہے۔