Monday, 02 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Mazhab Aur Khuda Ki Wapsi

Mazhab Aur Khuda Ki Wapsi

محمد حسن عسکری اردو ادب کا بڑا نام ہیں، وہ بیک وقت مصنف، مفکر، مترجم، ادیب، نقاد، شاعر، افسانہ نگا اور نقاد تھے، وہ 5 نومبر 1919کو اترپردیش کے شہر بلند شہر میں پیدا ہوئے، چھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے، والدکا نام معین الحق جبکہ دادا مولوی حسام الدین مذہبی سکالر تھے۔ والد بلند شہر میں کورٹ آف وارڈز میں ملازم رہے پھرشکار پور میں بطور اکاؤنٹنٹ بھرتی ہوئے۔ محمد حسن عسکری نے 1936ء میں مسلم ہائی سکول بلند شہر سے میٹرک اور 1938ء میں میرٹھ کالج سے انٹر پاس کیا۔ 1938ء میں الہ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1942ء میں ایم اے انگریزی کا امتحان پاس کیا۔ یونیورسٹی میں انھوں نے فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ ایم اے انگریزی کے بعد انہوں نے آل انڈیا ریڈیو دہلی میں بطور اسکرپٹ رائٹر شمولیت اختیار کی۔ اسی زمانے میں شاہد احمد دہلوی سے تعلق قائم ہوا۔ 1943ء میں فراق گورکھپوری نے"ساقی" میں "باتیں" کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کیا، فراق صاحب اس کالم کو جاری نہ رکھ پائے اور دسمبر 1943ء سے یہ کالم عسکری صاحب کے حصے میں آگیا، جنوری 1944ء میں اس کالم کا عنوان"جھلکیاں" رکھ دیاگیا۔ کچھ عرصہ اینگلو عربک کالج دہلی میں انگریزی کے استاد رہے، اس کے بعد میرٹھ چلے گئے اور ایک مقامی کالج میں انگریزی پڑھانا شروع کردی۔

1947ء میں قیام پاکستان کے بعد لاہور منتقل ہوئے، سعادت حسن منٹو کے ساتھ مل کر مکتبہ جدید لاہور سے"اردو ادب" جاری کیا۔ کچھ عرصہ بعد کراچی منتقل ہوئے اورفری لانس ادیب کے طور پر ترجمے اور طبع زاد تحریریں لکھنی شروع کیں۔ تقریبا چھ ماہ تک "ماہ نو" کراچی کے مدیر رہے، اس کے ساتھ ایک مقامی کالج میں انگریزی کے استاد کے فرائض بھی سر انجام دیتے رہے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ جزیرے 1943ء میں شائع ہوا، تنقیدی مضامین میں انسان اور آدمی، ستارہ اور بادبان ان کی زندگی میں شائع ہوئے جبکہ جھلکیاں، وقت کی راگنی اور جدیدیت اور مغربی فکرکی گمراہیوں کا تاریخی خاکہ ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے۔ ان کے ادبی شاگردوں میں سلیم احمد، انتظار حسین، مظفر علی سید، سجاد باقر رضوی، احمد مشتاق جیسے ادیب شامل ہیں۔ عسکری صاحب جس بات کو ٹھیک سمجھتے اس کے اظہار سے باز نہیں رہتے تھے، پوری ترقی پسند تحریک ان کے خلاف تھی اور انھیں رجعت پسند اور زوال پسند سمجھتی تھی مگر انہوں نے کبھی اس کو درخور اعتناء نہیں جانا۔ اردو ادب کے علاوہ عالمی افسانوی ادب پر بھی ان کی گہری نظر تھی، وہ فرانسیسی ادب سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھے، انہوں نے مشہور فرانسیسی فلسفی رینے گینوں کے کام کو اردو ادب میں متعارف کر وایا، رینے گینوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا اور اسلامی نام عبد الواحد یحییٰ رکھا۔ انہوں نے کئی مغربی ناولز کو اردو میں ترجمہ کیا، ان میں ہرمن میلول کا مشہور ناول "موجی ڈک" فرانسیسی ناول نگار استاں رال کا "سرخ و سیاہ" فلوبیئر کا "بڈھا گوریو" شامل ہیں۔

عسکری صاحب آخری عمر میں ادب اور ادبی اصناف کی بجائے مذہب کی طرف مائل ہو گئے تھے، مذہب میں ان کا جھکاؤ مولانا اشرف علی تھانوی کی فکر سے تھا، انتقال سے پہلے انہوں نے اپنے استاد پروفیسر کرار حسین کے ساتھ مل کر مفتی محمد شفیع کی تفسیر "معارف القرآن" کے انگریزی ترجمے کا کام شروع کیا، اس ترجمے کی وجہ سے ان کا تعلق دار العلوم کراچی سے جڑ گیا اور وہاں اکثر جانا رہتاتھا۔ ابھی وہ معارف القرآن کے انگریزی ترجمے کا صرف سوا پارہ ہی لکھ پائے تھے کہ 18 جنوری 1978 کو ہارٹ اٹیک ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ ان کا جنازہ مفتی تقی عثمانی نے پڑھایا اور دار العلوم میں ہی دفن ہوئے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے بھی بعض حوالوں سے عسکری صاحب سے استفادہ کیا، مفتی صاحب کی فرمائش پر انہوں نے دارالعلوم کے طلبہ کے لیے مغربی فکر کا خلاصہ تیار کیا جوبعد میں "جدیدیت" کے عنوان سے شائع ہوا۔ یہ مختصر مگر شاندار کتاب تھی، یہ کتاب عسکری صاحب کی وفات کے بعد شائع ہوئی اور ترقی پسند حلقوں اور جدیدیت پسندوں نے اس پرخوب تنقید کی، اس مختصر کتاب میں پوری مغربی فکر کا جامع انداز میں احاطہ کیا گیا تھا، اس کتاب پرتبصرہ کرتے ہوئے فیض احمد فیض نے کہا تھاکہ اس میں مغربی فکر کا مکمل نچوڑ آگیا ہے۔ اس کتاب میں عسکری صاحب نے بتایا کہ کس طرح یورپ نے اپنے سماج اورذاتی زندگی سے خدا کو نکالا اور عقلیت پرستی اور انسانیت پرستی کو فروغ دیا۔

اٹھارویں صدی میں یورپ میں عقلیت پرستی کے دو بڑ ے امام تھے، فرانس کا فلسفی اور ریاضی دان ڈیکارت اور انگلینڈ کا سائنسدان نیوٹن۔ ڈیکارت کے بارے میں یہاں تک کہا گیا کہ فرانس نے خدا کے خلاف جو سب سے بڑا گناہ کیا وہ یہ ہے کہ اس نے ڈیکارت کو فرانس میں پیدا کیا۔ اٹھارویں صدی میں ہیوم نے کہا کہ ہر وہ لفظ جو کسی غیر حسی اور غیر مدرک لفظ پر دلالت کرتا ہو اس کو شک کی نظر سے دیکھنا چاہیئے۔ اسی عرصے میں ایک نیا نظریہ وجود میں آیا جسے دہریت کا نام دیا گیا۔ انیسویں صدی میں معاشرے کے متعلق تین قسم کے نظریات وجو د میں آ ئے۔ پہلا نظریہ انفرادیت پسندی کا تھا، اس نظریئے کے پیچھے یہ فلسفہ تھا کہ معاشرہ خدا کا بنایا ہوا نہیں بلکہ یہ انسانوں کی اپنی تخلیق ہے، معاشرے کی تخلیق کا مقصد انسان کو فائدہ پہنچانا ہے لہذا اگر کہیں فرد کی آزادی اور معاشرے میں ٹکراؤ ہوتا ہے تو معاشرے کو نظر انداز کر دینا چاہیئے۔ دوسرا نظریہ مثالیت پسندی کا تھا۔ اس نظریئے کا احیاء اٹھارویں صدی کے آخر میں ہوا، اس نظریئے کا آغازجرمن فلسفیوں نے کیا لیکن اس نظریئے کا سب سے بڑا نمائندہ ہیگل تھا۔ تیسرا نظریہ نامیت کا تھا ہیگل نے تو صرف تشبیہ کے طور پر معاشرے کو جسم قرار دیا تھا لیکن ہربرٹ اسپنسر اور دیگر فلسفیوں نے حقیقت میں معاشرے کو جاندار ڈکلیئر کر دیا، ان کے نزدیک معاشرے کو مذہب اور اخلاقیات کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ معاشرے کی فطرت جس چیز کا تقاضا کرے وہی اصل اصول ہے۔

ایک اہم نظریہ ثبوتیت کا تھا، اس کے نزدیک ہر وہ چیز جس کو دیکھا نہ جا سکے، چھوا نہ جا سکے اور جس کا حسی مشاہدہ ناممکن ہو اس کا وجود بھی ناممکن ہے۔ حقیقت صرف وہی ہے جسے چھوا جا سکے اور جس کا حسی اور مشاہداتی ادراک ممکن ہو، اس فلسفے کی بنیاد پر مذہب، خدا، وحی، آخرت اور جنت و جہنم کا انکار کیا گیا۔ ایک نظریہ تاریخ پرستی کا تھا، یہ نقطہ نظریہ انیسویں صدی میں بہت مقبول ہوا، اس کا دعویٰ تھا کہ خدا، مذہب، عقل، روح، مادہ، اصول یا فلسفے کے صحیح اور غلط ہونے پر غور وفکر نہ کیا جائے بلکہ ان کی تاریخی حیثیت کو دیکھا جائے، ان کی تاریخ پر تحقیق کی جائے اور دیکھا جائے کہ مختلف زمانوں میں اس نظریئے، عقیدے یا فلسفے کی اہمیت، حیثیت اور نوعیت کیا رہی ہے۔ چونکہ انسانی تاریخ کا اکثر دور مذہب اور خدا سے دوری کا دور ہے لہذا اس فلسفے کے ذریعے خدا اور مذہب کا انکار بڑی آسانی سے ممکن ہوا، لبرلزم اور سیکولرزم کے فلسفے بھی اسی دوران پروان چڑھے۔ مغرب نے خدا اور مذہب کی بے دخلی کا جو راستہ پچھلی دو تین صدیوں میں طے کیا تھا ایک معمولی وائرس نے ان سب فلسفوں کو تہس نہس کر دیا، آج سارا مغرب مذہب اور خدا کے حضور پناہ ڈھونڈ رہا ہے۔ مغربی معاشروں میں اگرچہ کچھ عرصے کے لیے سہی مگر مذہب او ر خدا واپس آ رہے ہیں، کیسے؟ وہ میں آپ کو اگلے کالم میں بتاؤں گا تب تک آپ حسن عسکری صاحب کی "جدیدیت" کا مطالعہ کریں۔