Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Ramzan Aur Lughwiyat

Ramzan Aur Lughwiyat

سورۃ المؤمنون قرآن کی 23 ویں سورۃ ہے جو 18ویں پارے سے شروع ہوتی ہے۔ اس سورۃ کی پہلی دس آیتوں میں مومنین کی صفات بیان ہوئی ہیں۔ ان صفات کے حوالے سے مسند احمد میں حضرت عمرؓ کی یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا اس سورت کی پہلی دس آیتوں میں جو صفات بیان کی گئی ہیں اگر کوئی شخص یہ صفات اپنے اندر پیدا کر لے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ ان صفات میں اللہ نے سب سے پہلے نماز کا ذکر کیا۔

دوسرے نمبر پر جو صفت بیان ہوئی ہے وہ حیران کن ہے اور آج ہم صرف اسی پر بات کریں گے۔ دوسرے نمبر پر اللہ نے فرمایا وہ مومن کامیاب ہیں جو لغویات سے دور رہتے ہیں۔ زکوٰۃ، حفظ فروج، ادائیگی امانت اور عہد کی پاسداری جیسی صفات کو اللہ نے بعد میں رکھا ہے اور لغویات سے دوری کو پہلے بیان کیا ہے۔ لغویات کیا ہیں؟ ہر وہ کام جس سے دین کا فائدہ ہے نہ دنیا کا لغویات میں شامل ہے۔ فرمایا وہ مومن کامیاب ہیں جو ایسے افعال سے دور رہتے ہیں جو لغو ہیں، ایسی ترجیحات سے دور رہتے ہیں جو لغو ہیں، ایسے خیالات سے دور رہتے ہیں جو لغو ہیں اور ایسی باتوں سے دور رہتے ہیں جو لغو ہیں۔

یہ اسلوب بیان اور حفظ مراتب لغویات سے دور رہنے کی اہمیت کا احساس دلاتا ہے۔ قرآن کے ساتھ احادیث میں بھی لغویات میں پڑنے سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد ہے کہ "آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لغویات کو چھوڑ دے"۔ حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے "مومن صرف تین چیزوں کا آرزو مند ہوتا ہے ایک، توشہ آخرت کی فراہمی۔ دو، معاش کے لیے تگ و دو۔ تین، حلال چیزوں سے لطف اندوزی۔ یعنی ایک مسلمان سے اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنے اوقات کو یا تو عبادت میں لگائے یا معاش کے حصول میں صرف کرے اور اس کے بعد جو وقت بچے وہ اسے جائز تفریحات میں صرف کرے۔

آج ہمارا المیہ ہے کہ ہم من حیث القوم لغویات کی دلدل میں دھنس چکے ہیں۔ ہم دو دو گھنٹے فیس بک پر ضائع کر دیتے ہیں اور ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ ہم ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھے کئی کئی گھنٹے ضائع کر دیتے ہیں۔ ہم یوٹیوب پر لغویات کا شکار رہتے ہیں۔ ہم دکان، آفس، درسگاہ اور گلی بازار میں بیٹھے لغویات میں مشغول رہتے ہیں۔ ہم فضول کالز پر لگے رہتے ہیں۔ ہم ٹک ٹاک اور واٹس ایپ سٹیٹس پر کئی کئی گھنٹے ضائع کر دیتے ہیں۔ ہم رات سونے کے بستر پر بھی موبائل کیساتھ لگے رہتے ہیں۔

ہم سفر میں بھی لغویات کو ترجیح دیتے ہیں اور ہم فیملی میں بیٹھ کر بھی فیملی کو وقت نہیں دیتے۔ اللہ نے نماز سے متصل جس صفت کو بیان کیا ہے ہم نے اس کی اہمیت کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ رمضان کا آخری عشرہ چل رہا ہے اور اب بھی ہمارے ہاتھوں میں موبائل ہیں۔ ہم تراویح کے لیے تیس منٹ نہیں نکال سکتے لیکن ہم موبائل کے لیے تین گھنٹے نکال لیتے ہیں۔ ہم تلاوت کے لیے بیٹھتے ہیں تو چند منٹ بعد اکتا جاتے ہیں لیکن ہم فیس بک پر کئی کئی گھنٹے تک نہیں اکتاتے۔ ہمیں ذکر اور اور دعا کے لیے وقت نکالنا مشکل ہوتا ہے لیکن ہم لغویات کے لیے پورا پورا دن میسر ہوتے ہیں۔ اپنی ان ترجیحات کے ساتھ ہم چاہتے ہیں اللہ ہماری ذات، ہمارے سماج اورہمارے ملک پر رحمتیں اور برکتیں نازل کرے۔ بھلا ان اجتماعی عادات کے ساتھ اللہ کوئی فرد، قوم یا ملک کیسے اللہ کی رحمت کا امیدوار ہو سکتا ہے۔

اسلامی روایت میں لغویات سے اجتناب اور وقت کی قدر ہمیشہ قابل رشک رہی ہے۔ عامر بن قیسؒ تابعی تھے، ایک شخص نے ان سے کہا "آؤ بیٹھ کر باتیں کریں" انہوں نے جواب دیا "ٹھیک ہے! پھر سورج کو بھی ذرا ٹھہرا لو"۔ امام محمدؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ دن رات مطالعہ اور کتب لکھنے میں مصروف رہتے تھے۔ ابن جوزی کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ایک ہزار ہے۔ وہ اپنی قلم کے تراشے سنبھال کر رکھ دیتے تھے، ان کی وفات کے بعد ان تراشوں سے گرم کردہ پانی سے انہیں غسل دیا گیا۔ امام رازی کے ہاں وقت کی اہمیت اس درجہ تھی کہ اکثر انہیں یہ افسوس رہتا کہ کھانے کا وقت علمی مشاغل میں حائل ہوتا ہے۔ وقت کی قدر دانی نے ان کو منطق و فلسفہ کا ایسا متبحر عالم اور امام بنایا کہ دنیا آج بھی ان کی امامت کو تسلیم کرتی ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی وقت کے بڑے قدر دان تھے، تین مشغلوں میں سے کسی ایک میں ضرور مصروف رہتے تھے، مطالعہ، تصنیف و تالیف اور عبادت۔ حکیم الامت حضرت تھانوی اصول و ضوابط کے پابند تھے اور وقت ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ کھانے پینے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے غرض کہ ہر چیز کا ایک نظام الاوقات متعین تھا اور اس پر سختی سے عمل کرتے تھے۔ حضرت شیخ الہند حضرت تھانوی کے استاذ تھے، ایک بار حضرت تھانوی کے ہاں تشریف لائے، آپ نے راحت کے ضروری انتظامات کر دیے، جب تصنیف کا وقت ہوا تو عرض کیا "حضرت! میں اس وقت کچھ لکھا کرتا ہوں، اگر اجازت ہو تو کچھ دیر لکھنے کے بعد حاضر ہو جاؤں"۔

شیخ الہند نے فرمایا "ضرور لکھو! میری وجہ سے اپنا حرج ہرگز نہ کرو"۔ حضرت تھانوی کہتے ہیں کہ گو اس روز لکھنے میں دل نہیں لگا لیکن میں نے ناغہ نہیں ہونے دیا تا کہ بے برکتی نہ ہو۔ تھوڑا سا لکھ کر پھر حاضر خدمت ہوگیا۔ آخر عمر میں حضرت تھانوی بہت ضعیف ہو گئے تھے۔ بعض حضرات نے وعظ وغیرہ کم کرنے کا مشورہ دیا کہ بات کرنے میں مشکل ہوگی تو فرماتے "میں سوچتا ہوں وہ لمحاتِ زندگی کس کام کے جو کسی کی خدمت اور نفع رسانی میں صرف نہ ہوں۔ " مولانا عبد الحی فرنگی محلی کی جو مطالعہ گاہ تھی اس کے تین دروازے تھے، ان کے والد نے تینوں دروازوں پر جوتے رکھوائے تھے تاکہ اگر ضرورت کے لیے باہر جانا پڑے تو جوتوں کے لیے ایک آدھا منٹ بھی ضائع نہ ہو۔

مولانا زکریا ایک عرصہ تک صرف دوپہر کا کھانا کھاتے تھے شام کا کھانا تناول ہی نہیں کرتے تھے۔ وجہ اس کی یہ بتاتے کہ میری ایک مشفق ہمشیرہ تھی میں شام کو مطالعہ میں غرق ہوتا تھا وہ لقمہ میرے منہ میں دے دیا کرتی تھی۔ اس طرح مطالعہ کا حرج نہ ہوتا تھا لیکن جب سے ان کا انتقال ہوگیا اب کوئی میری اتنی ناز برداری کرنے والا نہیں رہا۔ مجھے اپنی کتابوں کا نقصان گوارہ نہیں اس لیے شام کا کھانا ہی تر ک کر دیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے وقت کی قدر کی اور وقت نے انہیں ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔

رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو چکا ہے، باقی سال نہیں تو کم از کم اس عشرہ میں لغویات کو چھوڑ دیا جائے۔ اللہ نے نماز کے حکم کے ساتھ لغویات کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ نے ایمان اور مسلمان کی خوبی لغویات سے اجتناب کو ڈکلیئر کیا ہے۔ اس سے ہمیں لغویات سے بچنے کی اہمیت کا اندازہ ہو جانا چاہیے۔ پھر رمضان کے آخری عشرے میں تو لغویات سے اجتناب فرض عین ہو جاتا ہے۔ کچھ دنوں کے لیے فیس بک، ٹک ٹاک، واٹس ایپ اور یو ٹیوب سے کنارہ کشی اختیار کریں اور یہ وقت قرآن، اذکار اور دعا کو دیں اس کے بدلے میں آپ کو جو ملے گا اس کا احساس آپ کو نقد ہونا شروع ہو جائے گا۔