Monday, 02 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Sahafat Aur Ahal e Sahafat

Sahafat Aur Ahal e Sahafat

فلسفے کی روایت میں سقراط امام فن کے درجے پر فائز ہیں، مغربی فلسفے کی پوری عمارت یونانی فلسفے پر کھڑی ہے اور یونانی فلسفے کی بنیادسقراط کے فکری ستونوں پر قائم ہے۔ اگر یونانی فلسفے کی روایت سے سقراطی فکر کو ہٹا دیا جائے تو ساری عمارت چشم زدن میں زمین بوس ہو جائے۔ سقراط سے ماقبل فلاسفر فلسفی کم اور سائنسدان زیادہ تھے۔ متداول فلسفیانہ کتب میں یونانی فلسفے کا آغاز تھیلیز سے ہوتاہے، اس کے بعد انیگزیمینڈر اور انیگزیمنز، ان سب کے غور و فکر کا محور کائنات کا آغاز و ارتقاء تھا، کسی نے پانی کو مادے کی اصل قرار دیا، کوئی ہوا کو اصل علت سمجھتا رہا اور کسی نے آگ کو کائنات کاجوہر ٹھہرایا۔ سقراط نے پہلی مرتبہ، کائنات کے ساتھ انسانی وجود کو غور وفکر کا محور بنایا، انسانی وجود بذات خود کیا ہے، نیکی کیا ہے او ر برائی کیا ہے، علم کیا ہے اور حصول علم کے ذرئع کیا ہیں، اخلاقیات، سماجیات اور معاشیات کی تعریفات کیا ہیں۔ سقراط کا ظہور کسی حد تک سوفسطائیت کے رد عمل کا نتیجہ تھا، سوفسطائیوں نے علم اور ذرئع علم کا انکار کیا، معروضیت کی حقیقت کو جھٹلایا اور اخلاقی تصورات کی نفی کی۔ سقراط نے آکر ان تمام تصورات کی اصلاح کی، معروضیت کو معتبر بنایا اورنیکی، علم اوراخلاقیات کو آفاقی حیثیت بخشی۔

سقراط کا انداز فکر جدلیاتی تھا، وہ لوگوں سے سوال کرتا تھا اورخاموش ہو جاتا تھا، وہ سنتا تھااور اپنے علم میں اضافہ کرتا تھا، وہ جانتا تھا کہ وہ نہیں جانتا اس لیے اس نے کبھی علمیت کا دعویٰ نہیں کیا، ہمیشہ سوال کیا اور اس سوال سے حاصل ہونے والے علم کو اپنی ذات میں جذ ب کیا۔ وہ کئی کئی گھنٹے ایک ہی پہلو پر کھڑا کسی مسئلے پر غور کرتا رہتا تھا، ایک مشہور موقعہ پر جب اس کے سب دوست سو گئے وہ صبح تک ایک ہی پہلو پر کھڑا کسی مسئلے پر غور کر تا رہا، صبح دوستوں نے دیکھا وہ اسی حالت میں کھڑا سوچ رہا تھا۔ وہ سچ کا متلاشی تھا، وہ اشیاء کی آفاقی حیثیت کو پانے کا متمنی تھا اور یہ جانتا تھا کہ ہر سچ اور علم کی ایک قیمت ہوتی ہے اور وہ قیمت چکائے بنا کسی شے کی حقیقت اور حتمیت ناممکن الحصول ہوتی ہے۔

انسانی دماغ کسی تصور یا وجود کے شعور میں متفرق ہوتے ہیں، ہم انہیں دو طرح سے ممیز کر سکتے ہیں، نوع اول وہ ہے جس میں شعور کے خطوط عموما متفرق اور منتشر ہوتے ہیں، اس دماغ کے حاملین وہ مشاہیر ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں جامع الحیثیات ہوتے ہیں، یہ مختلف علوم وفنون پر یکساں عبور رکھتے ہیں، بیک وقت مختلف امور کو نمٹانے کی صلاحیت، ہمہ گیری اور جامعیت ان میں ودیعت ہوتی ہے۔ اسی جامعیت اور ہمہ گیری کی بناء پر یہ اپنے معاصرین پر سبقت لے جاتے ہیں، یہ متنوع شوق رکھتے ہیں، مختلف امور کو بیک آن انجام دینے پر دسترس رکھتے ہیں اور ان افعال کی انجام دہی میں انہیں چنداں مشکل پیش آتی ہے نہ ہی دلچسپی میں زبر زیر کا فرق آتا ہے۔

ایسی جامع الحیثیات شخصیات تاریخ میں بکثرت مل جاتی ہیں، مولانا محمد علی جوہر بیک وقت اردو اور انگلش کے نباض تھے، ہمدرد اردو کا شاہکار تھا، کامریڈ کا پرچہ کسی انگریز کے ہاتھ لگ جاتاتو سلاست وروانگی دیکھ کر عش عش کر اٹھتا، عربی دانی بھی قابل رشک تھی۔ مولانا ابو الکلام آزاداپنی ذات میں عبقری تھے، وہ والے عبقری نہیں جو لاہور کے مزنگ چوک میں پائے جاتے ہیں۔ ابو الکلام کی زندگی کے مختلف ادوار بذات خود ایک عہد کا درجہ رکھتے ہیں، کسی عہد میں وہ الہلال و البلاغ کی صورت میں ہندوستان میں صور پھونکتے نظر آتے ہیں، دوسرے عہد میں تحریک خلافت و ترک موالات کا ہر اول دستہ دکھائی دیتے ہیں اور اگلے عہد میں امام سیاست کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہ ان کی عبقریت کی زمانی تقسیم تھی، ان کی تحریری و تقریری صلاحیتیں زمانے کی بندھنوں سے بھی آزاد تھیں، کسی بھی عہد کی کوئی تحریر یا تقریر اٹھا کر دیکھ لیں آپ خود کو سر جھکا کر سلام کرنے پر مجبور پائیں گے۔

دوسری نوع کے دماغ وہ ہیں جن میں شعورکے خطوط عموما سیدھے، یکجا اور کسی ایک جگہ پر مرتکز ہوتے ہیں، اس نوع دماغ کے حاملین کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ بہت دقیق، پیچیدہ، نکتہ رس اور دقت نظر کے حامل ہوتے ہیں، یہ ایک وقت میں ایک ہی کام پر توجہ مبذول کر سکتے ہیں، ان کی دلچسپی کا ارتکاز ایک ہی وجودیا تصور ہو سکتا ہے، ان کے ذوق کا دائرہ کار مختصرا ور محدود ہوتا ہے، ان کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ کسی مبحث کے نشیب و فراز اورکسی حقیقت کی کنہ تک جاتے ہیں، کسی مسئلے کو لیتے ہیں تو اس میں ہمہ تن مشغول ہوجاتے ہیں، سقراط جب کسی مسئلے پر سوچنا شروع کر تا تھا تو ساری رات ایک ہی پہلو پر کھڑا رہتا تھا، نیوٹن جب کسی مسئلے میں الجھتا توکئی کئی دن کھانابھول جاتا تھا، ایڈیسن جب کسی نئی ایجاد میں منہمک ہوتا تو خود کو لیبارٹری میں قید کر لیتا تھا، ہیگل جب کسی فلسفیانہ تصنیف میں مشغول ہوتا تو اسے شہر پر ہونے والی بمباری کی خبر تک نہیں ہوتی تھی۔

ان دونوں انواع کے ساتھ کچھ مزید مباحث جڑی ہیں، مثلا کس نوع دماغ کے حاملین زیادہ اہم ہیں اور یہ دماغی صلاحیتیں کسبی و اکتسابی ہیں یافطری و دیعت کی ہوئی۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس میں فطر ت و اکتساب دونوں کا عمل دخل ہے، پہلے سوال کا ماحصل یہ ہے کہ دونوں کی اپنی اپنی حیثیت مسلم ہے، کسی کی افضلیت کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا، ہاں اتنا ضرور ہے کہ جامع الحیثیات دماغی صلاحیتوں کے حصول کے لیے زیادہ محنت و ریاضت درکار ہوتی ہے۔ مختلف علوم وفنون پر گہری نظر رکھنی پڑتی ہے، دلچسپی کے تمام موضوعات کو وقت دینا پڑتا ہے اور علوم وفنون کے مختلف دائروں کی کلاسیکی مباحث، عنوانات اور ان میں ہونے والی جدید پیش رفت پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ دینی علوم کے فضلاء اور مفتیان کرام کے لیے ایسی دماغی صلاحیتوں کا حصول لازم ہے کہ انہوں نے سماجی سطح پر مختلف دائروں سے متعلق راہنمائی کرنی ہوتی ہے اور یہ راہنمائی ان دائروں کی واقفیت کے بغیر ممکن نہیں۔

دوسرے درجے میں اس طرح کی دماغی صلاحیتیں صحافی اور کالم نگاروں کے لیے بھی لازم ہیں، صحافی یا کالم نگار کا کام بھی سماج کے مختلف طبقات سے وابستہ ہے، میڈیا کی ادارہ جاتی اہمیت نے صحافی اور کالم نگار کو بھی عزت و جاہ سے نوازا ہے۔ کسی دور میں کالم نگاری کا منصب حالات حاضرہ پر ہلکا پھلکا تبصرہ ہوا کرتا تھا لیکن موجودہ عصر میں کالم سنجیدہ فکری مباحث کا امین ٹھہرا ہے، باشعور اور لکھا پڑھا طبقہ کالم کو سنجیدگی سے لیتا ہے اور اس سنجیدگی نے کالم نگار کو رائے سازی کے منصب پر فائز کر دیا ہے۔ صحافی اگر مذکورہ دماغی صلاحیتوں کا حامل نہ ہوتو محترم جاوید چوہدری کی طرح خلط مبحث کا شکار ہوتا ہے جو بھان متی کے کنبے کے طرح کالم تو جوڑ لیتا ہے مگر قاری کو فکری پراگندگی کاشکار کر دیتا ہے، اسے محترم عامر ہاشم خاکوانی کی طرح بتائے بھی یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ دار الافتاؤں سے ارطغرل کے عدم جواز کے فتوے کیوں آ رہے ہیں اوراسے محترم اظہار الحق کی طرح یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ پاکستانی علماء احتیاطی تدابیر کے ساتھ مساجد کھولنے کی بات کیوں کر تے ہیں۔