Monday, 02 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Taees Aur Mein

Taees Aur Mein

"23اور میں " امریکہ کی ایک کمپنی کا نام ہے، یہ امریکی ریاست کیلیفورنیا سے کام کر رہی ہے اور کمپنی کا ہیڈ آفس ماؤنٹین ویو کیلیفورنیا میں ہے۔ اس کی بنیاد 2006میں تین پارٹنرز نے مل کر رکھی، لنڈا ایوے، پال اور ان وجیکی اس کے کو فاؤنڈر ہیں، این وجیکی گوگل کے بانی سرگے برن کی سابقہ بیوی ہیں اور اسی وجہ سے گوگل نے 2007میں اس میں تین اعشاریہ نو ملین ڈالر کی انویسٹمنٹ کی۔ کمپنی کیا کرتی ہے، کمپنی میرے اور آپ کے ڈی این اے ٹیسٹ کرتی ہے، ڈی این اے کیا ہے، یہ "ڈی آکسی رائبو نیوکلک ایسڈ" کا مخفف ہے، جس طرح کوئی مکان یا عمارت ہزاروں لاکھوں اینٹوں سے مل کر بنتی ہے اسی طرح ہمارا جسم بھی کروڑوں اربوں سیلز پر مشتمل ہوتا ہے، ان سیلز کے اندر ایک مالیکیول ہوتا ہے جسے ڈی این اے کہا جاتا ہے، ڈی این اے کسی بھی انسان کا وہ مخصوص جینیاتی کوڈ ہے جس کے ذریعے اس کی شخصیت کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یہ معلومات اس کی ظاہری شکل و صورت، اس کے آباؤ اجداد، قد، رنگ، نسل، آنکھوں اور بالوں کے بارے میں معلومات، گنجا پن، نابینا پن اور دیگرشناختی علامات پر مشتمل ہوتی ہیں اور اللہ نے ہر انسان کا ڈی این اے مختلف بنایا ہے۔

سب سے پہلے پروفیسر جیفریز نے دنیا کو ڈی این سے آگاہ کیاتھا، پروفیسر جیفریز نے1986میں پہلی مرتبہ ایک جرم کی تحقیق کے دوران ڈی این اے کا استعمال کیا، اس نے برطانیہ کی کاؤنٹی لیسسٹرشائر کے ایک گاؤں میں 1983 اور 1986 میں ہونے والی زیادتی اور قتل کے ملزم کی انگلیوں کے نشانات کے ذریعے ڈی این اے ٹیسٹ کیا، اس ٹیسٹ سے معلوم ہوا دونوں جرائم میں آپس میں گہرا تعلق ہے اور اس طرح اصل ملزم پکڑا گیا۔ اس وقت مغربی دنیا میں ڈی این اے ٹیسٹ بہت مقبول ہو رہے ہیں، لوگ اپنی شخصیت کے بارے میں بہتر جانکاری کے لیے یہ ٹیسٹ کروا رہے ہیں، جینیاتی ٹیسٹوں کی باقاعدہ مارکیٹس وجود میں آ چکی ہیں اور لوگ نجی کمپنیوں سے دھڑا دھڑ ٹیسٹ کروا رہے ہیں۔ دنیا میں دو طرح کے جینیاتی ٹیسٹ ہو رہے ہیں، ایک انسسٹری ٹیسٹ جس میں آپ اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں کہ آپ کا شجربہ نسب کہاں جا کر ملتا ہے اور آپ کے آباؤاجداد دنیا کے کس خطے میں آباد تھے، نیز آج آپ کی نسل کے افراد دنیا کے کس خطے میں آباد ہیں اور کس مذہب کے پیرو کار ہیں۔ دوسرا صحت سے متعلق ٹیسٹ کہ آنے والے زمانے میں آپ کی شخصیت کو صحت کے حوالے سے کون سے خطرات لاحق ہیں اور آپ کیسے ان سے بچ سکتے ہیں۔ مغربی دنیا میں یہ دونوں ٹیسٹ بہت رواج پا چکے ہیں، خصوصا صحت کے حوالے سے لوگوں میں یہ رجحان بہت زیادہ بڑھ رہا ہے۔

کچھ عرصہ قبل مشہور مغربی ادکارہ انجلینا جولی نے اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جس سے معلوم ہوا کہ وہ ایک خطرناک جینیاتی ترمیم کی مالک ہے، اس جین کی مالک خواتین میں بریسٹ کینسر کے امکانات ستاسی فیصد تک ہوتے ہیں، انجلینا کی والدہ اور نانی بھی اسی بیماری سے وفات پا چکی تھیں لہذا اس جینیاتی ترمیم کا وجود اس کے لیے موت کا پیغام تھا۔ اس نے اس امکان کو سرے سے ہی ختم کر دیااور آپریشن کے ذریعے بریسٹ ہی نکلوادی، مئی 2013میں اس نے نیویارک ٹائمز میں مضمون لکھا جس میں بتا یا کہ یہ سب میرے لیے مشکل اور تکلیف دہ تھا، میں اپنی بیماری اور آپریشن کو چھپا بھی سکتی تھی مگر میں نے سب اس لیے ظاہر کیا تاکہ دوسر ے لوگ خصوصاً خواتین اس حوالے سے آگاہ ہو سکیں اور بیماری سے قبل علاج ممکن ہو۔"23اور میں " کمپنی بھی یہی کرتی ہے، اس کا نام "23اور میں " اس لیے رکھا گیا ہے کہ انسانی سیل میں چھیالس کروموسوم ہوتے ہیں، یہ جوڑوں کی شکل میں ہوتے ہیں تو ان کی تعداد تئیس بنتی ہے، کروموسوم کے ان تئیس جوڑوں پرانسانی جینوم کا کوڈ تحریر ہوتا ہے اور اسی کو ڈ کو پڑھ کر کسی شخصیت کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ یہ کمپنی آپ کے دو قسم کے ٹیسٹ کرتی ہے، یہ آپ کو بتاتی ہے کہ آپ کے آباؤ اجداد کون تھے اور آپ کو صحت کے حوالے سے کون سے خطرات لاحق ہیں۔ یہ آن لائن سروسز بھی فراہم کرتی ہے، آپ صرف ننانوے ڈالر کمپنی کو بھیجیں یہ آپ کو ایک چھوٹا سا پیکٹ روانہ کر ے گی جس میں ایک چھوٹی سے بوتل ہو گی، آپ اپنا لعاب اس میں بوتل میں ڈالیں اور بند کرکے اسے ماؤنٹین ویو کیلیفورنیا بھیج دیں۔

وہاں لیبارٹری میں آپ کے ڈی این اے کا ٹیسٹ ہو گا او رنتیجہ آپ کو آن لائن فراہم کر دیا جائے گا۔ اگر آپ نے انسسٹری ٹیسٹ کروایا ہے تو آپ کو بتایا جائے گا کہ آپ کے آباؤ اجداد کون تھے، وہ کس خطے سے ہجرت کر کے آئے اور اس وقت آپ کی نسل کے افراد دنیا کے کس کس خطے میں آباد ہیں۔ اگر آپ نے اپنی صحت کی جانکاری کے لیے ٹیسٹ کروایا تھا تو آپ کو بتایا جائے گا کہ مستقبل قریب میں آپ کو کس طرح کی بیماریوں کا خطرہ ہے، یہ ننانوے سے زیادہ ایسے حالات اور خصوصیات سے آپ کو آگاہ کرے گی جس سے آپ کی صحت کو خطرہ ہے، ان میں نابینا پن سے لے کر گنجا پن تک کی معلومات شامل ہیں۔ میں نے ٹیسٹ کے لیے رابطہ کیا مگر بدقسمتی سے پاکستان میں یہ کمپنی فی الحال سروسز فراہم نہیں کر رہی، پاکستان میں مقامی سطح پر کچھ کمپنیاں یہ سروسز فراہم کر رہی ہیں مگر ایک تو ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی دستیاب نہیں دوسرا ان کے پاس ڈیٹا بہت کم ہے، جس کمپنی کے پاس جتنا زیادہ ڈیٹادستیاب ہو گا اس کے میچ کرنے کے امکانات اتنے زیادہ ہوں گے۔ مغرب میں ایک ایک کمپنی کے پاس پچاس لاکھ سے ایک کروڑ تک افراد کا ڈیٹا موجود ہے جبکہ یہاں پاکستان میں شاید ہی کسی کمپنی کے پاس پچاس ہزار افراد کا ڈیٹا بھی موجود ہو۔ امریکہ میں نجی معلومات کا حصول مشکل ہے اور اس حوالے سے قوانین موجود ہیں جبکہ چین میں ایسی کوئی پابندی نہیں، ممکن ہے کہ چائنہ آنے والے دور میں دیگر شعبوں کی طرح جینیاتی مارکیٹ میں بھی مناپلی قائم کر لے اور ساری دنیا چین کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو۔

آپ ایک لمحے کے لیے تصور کریں اگر گوگل اور اس جیسی کمپنیوں کو ہماری یہ جینیاتی معلومات حاصل ہوجاتی ہیں (خواہ ہم خود ٹیسٹ کی صورت میں انہیں مہیا کریں یا یہ کسی اور طریقے سے حاصل کریں ) تو ہمارے ساتھ کیا ہوگا، ہم مکمل طور پر ان قوتوں کے رحم و کرم پر ہوں گے، یہ لوگ ہم سے زیادہ ہماری شخصیت کے بارے میں جانکاری رکھتے ہوں گے، انہیں معلوم ہوگا کہ دنیا کے کس خطے کے عوام کس طرح کے جینز کے مالک ہیں، ان کی خصوصیات کیا ہیں، ا ن کے عزئم کیا ہیں، یہ کیا سوچتے ہیں، انہیں کیسے مسخر کیا جاسکتا ہے، ان کے رجحانات کو کیسے بدلا جا سکتا ہے اور ان کے اذہان کو کیسے قبضے میں لیا جاسکتا ہے۔ ممکن ہے کرونا کی آڑ میں نہ سہی آنے والے زمانے میں کسی اور بہانے ہر انسان کو ایک چپ یا کڑا پہننا لازم کر دیا جائے جس پر اس کے ساری حیاتیاتی اعدادو شمار درج ہوں، اس چپ یا کڑے کو کسی مرکزی نظام سے مربوط کر دیا جائے اور انسان کی حیثیت محض پتلی تماشے کی سی ہو کہ یہ قوتیں اس کے حیاتیاتی اعدادو شمار پر کنٹرول کی بنا کر اسے جس طرح چاہیں نچاتی پھریں۔