Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Dar, Jo Hamein Kha Gaye

Dar, Jo Hamein Kha Gaye

آپ گاڑی چلا رہے ہیں۔ یہ بڑی شاہراہ ہے جسے "مین روڈ" کہتے ہیں سامنے، بائیں ہاتھ پر، ایک چھوٹی سڑک اس بڑی شاہراہ سے مل رہی ہے۔ اس چھوٹی سڑک پر ایک گاڑی عین اس وقت نمودار ہوتی ہے جب آپ موڑ پر پہنچنے والے ہیں۔ آپ کو ڈر لگتا ہے کہ اگر چھوٹی سڑک سے آنے والی گاڑی نہ رکی اور مین روڈ پر چڑھ آئی تو آپ کی گاڑی سے ٹکر لگے گی اس ڈر سے آپ بریک لگاتے ہیں۔ چھوٹی گاڑی والا ایک ثانیے کے لئے بھی نہیں رکتا۔ بس یہی وہ ڈر ہے جو مہذب ملکوں میں نہیں لاحق ہوتا۔ آپ مین روڈ پر وہاں بلا کھٹکے گاڑی چلاتے جائیے۔ چھوٹی سڑک سے آنے والے نے ہر حال میں رکنا ہے۔ اگر مین روڈ بالکل خالی ہے تب بھی چھوٹی سڑک سے آنے والے نے بریک لگانی ہے۔

آپ نے جوتے خریدے ہیں۔ گھر آ کر دیکھا کہ یہ تو فٹ نہیں آ رہے۔ دوسرے دن بازار کا رخ کرتے ہیں کہ واپس کر آئیں آپ ڈر رہے ہیں کہ نہ جانے دکاندار واپس لے گا یا نہیں! ہو سکتا ہے بدلنے کی اجازت دے مگر ماپ کا جوتا نہ ملا تو کیا وہ جوتے واپس لے کر رقم لوٹا دے گا؟ بس یہی وہ ڈر ہے جو مہذب ملکوں میں نہیں ہوتا جوتا پورا ہے یا نہیں۔ دکاندار وجہ پوچھے بغیر واپس لینے کا اور رقم لوٹانے کا پابند ہے!

آپ ایئر پورٹ کی طرف جا رہے ہیں، جہاز پکڑ کر کراچی پہنچنا ہے۔ کراچی سے دوسرے جہاز (Connectedفلائٹ) کے ذریعے ملک سے باہر روانہ ہونا ہے۔ آپ ڈر رہے ہیں کہ جہاز وقت پر نہ چلا اورکراچی تاخیر سے پہنچا تو کراچی سے بیرون ملک جانے والی پرواز ہاتھ سے نکل جائے گی۔ یہ ڈر اور بھی زیادہ ہوجاتا ہے جب آپ یہ سوچتے ہیں کہ کراچی والا جہاز غیر ملکی ایئر لائن کا ہے اور اس نے ایک لمحہ تاخیر کئے بغیر وقت پر اپنے دروازے بند کر دیے ہیں جب کہ کراچی تک پہنچانے والا جہاز "اپنی" ایئر لائن کا ہے بس یہ وہ ڈر ہے جو آپ کو غیر ملکی ایئر لائنوں میں سفر کرتے وقت نہیں ہوتا۔

آپ کی طبیعت ناساز ہے ڈاکٹر سے آپ نے وقت لیا ہے۔ طے شدہ وقت کے مطابق کلینک کی طرف جا رہے ہیں آپ کو ڈر ہے کہ نہ جانے ڈاکٹر کلینک میں ہے بھی یا نہیں! اپائنٹ منٹ کے باوجود آپ کو نہ جانے کتنا بیٹھنا پڑے گا۔ پچھلی بار آپ کو چار گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ بس یہ وہ ڈر ہے جو مہذب ملکوں میں کسی مریض کے دل میں سوئی نہیں چبھوتا۔ زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ انتظار کرنا پڑتا ہے یا آدھا گھنٹہ۔ ڈاکٹر کسی ایمرجنسی کی وجہ سے غیر حاضر ہے تو آپ کو فون پر اطلاع دی جائے گی ورنہ وہ اپنے کمرے سے نکل کر انتظار گاہ میں آئے گا اور آپ کو خود ساتھ لے کر اپنے کمرے میں لے جا کر دیکھے گا!

آپ کا نوکری کے لئے انٹرویو ہے!تیار ہو کر نکلتے ہیں۔ شاہراہ پر ٹریفک رینگتی نظر آتی ہے۔ اب آپ ڈر رہے ہیں کہ یہ رینگتی ٹریفک آگے جا کر بالکل نہ رک جائے!کوئی مذہبی یا سیاسی جلوس نہ نکل رہا ہو۔ کسی نے لاش چارپائی پر رکھ کر چارپائی شاہراہ کے درمیان نہ رکھی ہوئی ہو۔ اگر ایسا ہوا چار پانچ گھنٹے تو کہیں گئے ہی نہیں! بس یہ وہ ڈر ہے جو مہذب ملکوں میں آپ کو اندر سے نہیں کھاتا ٹریفک جام کی اور بات ہے۔ ورنہ ناممکن ہے کہ جلوس یا احتجاج یا حاکم کے پروٹوکول کے شاہراہ عام بند ہو!

بدقسمتی سے آپ کے گھر رات کو چوری کی واردات ہو گئی۔ آپ پولیس سٹیشن جا رہے ہیں۔ آپ ڈر رہے ہیں کہ نہ جانے ایس ایچ او موجود ہو گا یا نہیں! محرر کیا سلوک کرے گا؟ کتنی دیر لگے گی؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایف آئی آر کٹے گی یا نہیں؟ یہ وہ ڈر ہے جو مذہب ملکوں میں نہیں پایا جاتا۔ آپ فون کریں گے تو پولیس والے خود آئیں گے آپ کو تھانے کے چکر نہیں لگانے پڑیں گے۔

آپ کے کسی عزیز کوگھرمیں دل کا دورہ پڑا ہے۔ آپ ایمبولینس کے لئے ہسپتال فون کرتے ہیں۔ اب آپ ڈر رہے ہیں کہ نہ جانے ایمبولینس کتنی دیر میں پہنچے گی۔ اگر ایمبولینس کا ڈرائیورچائے پینے گیا ہوا ہے تو نہ جانے کب لوٹے گا؟ اگر ایمبولینس کے پیچھے کوئی گاڑی پارک کر کے غائب ہو گیا ہے تو کیا ہو گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایمبولینس بڑے ڈاکٹر صاحب یا وزیر صحت کے گھر قربانی کے جانور پہنچانے میں مصروف ہو(ایسی کئی مثالیں موجود ہیں)یہی وہ ڈر ہے جو مہذب ملکوں میں نہیں ہوتا۔ ایمبولینس پانچ دس منٹ میں پہنچ جاتی ہے ادھر مریض ایمبولینس میں رکھا گیا، ادھر ایمبولینس ہی میں ضروری ٹیسٹ لینے کی کارروائی شروع ہو گئی۔

آپ کے بیٹے یا بیٹی کی شادی ہے بیسیوں قسم کے ڈر آپ کا خون خشک کر رہے ہیں۔ بیٹی والے ہیں تو عذاب دوگنا ہے۔ برات میں کتنے لوگ ہوں گے۔ بیٹے والوں کے مطالبات میں کتنا اضافہ ہو گا؟ ملبوسات تیار کرنے والے وقت پر کام پورا کریں گے یا نہیں؟ لہنگا کب ملے گا؟ زیورات کتنے ہوں گے؟ کیا مالیت ہو گی اور تیار کب ہوں گے؟ کارڈ کب تک چھپیں گے؟ مہمانوں کی فہرست میں کوئی رہ گیا تو جان مصیبت میں آ جائے گی سب سے بڑھ کر یہ کہ پھپھا جان ناراض ہیں اوراس موقع پر وہ اپنی ناراضگی کو ہتھیار بنا کر خوب بلیک میل کریں گے۔ انہیں کس طرح منایا جائے گا؟ کھانا کہیں کم نہ پڑ جائے؟ لڑکی والوں کے لئے جو صوفے ہال میں ریزرو رکھے ہیں ان پر دوسرے مہمان نہ براجمان ہو جائیں۔ ہم کچھ مواقع پر اپنے اعمال کی سزا دنیا میں اپنے آپ کو خود بھی دیتے ہیں اورشادی ان میں سے ایک ہے۔ مہذب ملکوں میں یہ سارے ڈر مفقود ہیں۔ لمبی چوڑی فہرستیں ہیں نہ شادی ہال نہ کھانے کے مہنگے مینو! پھپھا قسم کی مخلوقات ناراض ہی نہیں ہوتیں کہ منایا جائے۔ لڑکے والے فرعونیت کا مظاہرہ نہیں کرتے نہ لڑکی والے ماتحت ہونے کا ثبوت دیتے ہیں!

آپ مکان بنوا رہے ہیں۔ بیسیوں نہیں سینکڑوں قسم کے ڈر ہیں۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ مکان مکمل ہونے تک آپ کی ذیابیطس کی بیماری لگ جائے گی۔ بلڈ پریشر کی بلندی تو کہیں گئی ہی نہیں! مستریوں سے خوں ریز جھگڑے ہوں گے۔ شٹرنگ والا۔ رنگ والا۔ بجلی ولکڑی والا، پلمبر اور نہ جانے کس کس سے پالا پڑے گا۔ مہذب ملکوں میں یہ ڈر بھی دور کر دیے گئے ہیں۔ آپ ایک کمپنی کو مکان بنانے کا کام دیتے ہیں کچھ ملکوں میں تو دوران تعمیر مالک اندر آ کر دیکھ بھی نہیں سکتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ مقررہ وقت کے اندر آپ کے دیے ہوئے نقشے کے مطابق مکان بنا کر آپ کے حوالے کر دیا جائے گا۔ کاریگروں سے الگ الگ نمٹنے کی ضرورت ہی نہیں!

آپ مالک مکان ہیں۔ ڈر رہے ہیں کہ کرایہ دار وقت پر کرایہ دے گایا نہیں! مکان کے ساتھ جانے کیا سلوک ہو رہا ہو گا!کرایہ دار ہیں تو کچھ خراب ہونے کی صورت میں مالک کے پیچھے پیچھے بھاگنا پڑے گا۔ مہذب ملکوں میں یہ سارے ڈر نہیں ہیں۔ رئیل اسٹیٹ ایجنٹ دونوں طرف کا ذمہ دار ہے۔ کرایہ دار مکان کی دیوار میں کیل تک نہیں گاڑ سکتا۔ کرایہ ہر ماہ یا ہر پندرہویں دن کرایہ دار کے بنک اکائونٹ سے خود بخود ایجنٹ کے اکائونٹ میں منتقل ہو جائے گا۔ کرایہ دار کے حقوق زیادہ ہیں۔ مالک مکان سروسز جاری رکھنے کا پابند ہے۔

تہذیب، امارت کا نام نہیں! نہ محلات اور سونے چاندی کی کثرت کا نام ہے! مہذب معاشرے وہ ہیں جہاں قسم قسم کے ڈر لوگوں کی نیندیں نہیں حرام کر رہے، جہاں سسٹم شہریوں کی حفاظت کرتا ہے۔

About Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar ul Haq, is a columnist and a renowned poet of Urdu language, in Pakistan. He has received international recognition for his contribution to Urdu literature, and has been awarded Pakistan’s highest civil award Pride of performance in 2008. He has published four books of Urdu poetry and writes weekly column in Daily Dunya.