بی جے پی کے مودی نے بھارت میں ایک نہیں، بیک وقت دو بھٹیاں سلگا دی ہیں۔ ایک بھٹی کا ہم نوٹس لے رہے ہیں۔ یہ کشمیر کی چتا ہے۔ مودی اس چتا میں مسلسل ایندھن ڈال رہا ہے تا کہ کشمیر کے مسلمان اس چتا میں جل کر راکھ ہو جائیں۔
کشمیری مسلمانوں کے ساتھ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ نصرانی ہوتے تو جنوبی سوڈان اور ایسٹ تیمور کی طرح کشمیر آزاد ہو چکا ہوتا۔ مگر مسلمان فلسطینی ہو یا کشمیری یا فلپائن کا مورو، اس کی مدد کو یورپ آتا ہے نہ امریکہ! رہی اقوامِ متحدہ تو وہ لیگ آف نیشنز بن چکی ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی لیگ آف نیشنز! اقبالؔ نے کہا تھا
بے چاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے
ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے
تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے و لیکن
پیرانِ کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے
ممکن ہے کہ یہ داشتۂ پیرکِ افرنگ
ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے
اقوامِ متحدہ کے بارے میں کسی نے کیا خوب فارمولا پیش کیا ہے۔
1-اگر جھگڑا کسی چھوٹے ملک اور بڑے ملک میں ہو تو چھوٹا ملک غائب ہو جاتا ہے۔
2-جھگڑا دو بڑے ملکوں کے درمیان ہو تو اقوامِ متحدہ غائب ہو جاتی ہے۔
3-اور اگر جھگڑا دو چھوٹے ملکوں کے درمیان ہو تو جھگڑے کا اصل سبب یعنی ایشو غائب ہو جاتا ہے!
سوال یہ ہے کہ پاکستان اس مرحلے پر کشمیر کے لیے کیا کر سکتا ہے؟ پاکستان کے لیے، بظاہر، صرف ایک پرامن راستہ کھلا ہے، دنیا کو احساس دلانا! کہ بھارت کشمیر میں غیر انسانی رویہ اختیار کیے ہے! اس کا آغاز مسلم ممالک سے ہونا چاہیے۔ کئی عشرے گزر گئے ذوالفقار علی بھٹو نے مسلمان ملکوں کے سربراہوں کی کانفرنس بلائی تھی۔ آج وقت کے وزیر اعظم کو یہ کانفرنس پھر بلانا ہو گی۔ مسلمان ملکوں کے سربراہوں کو باور کرانا ہو گا کہ آج اگر پاکستان اور کشمیر کے ساتھ یہ ہو رہا ہے تو کل کسی دوسرے مسلمان ملک کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔ مسلمان ملکوں کا ردِعمل کیا ہو گا؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ پاکستان کی حکومت اور پاکستان کا وزیر اعظم مسئلے کا ابلاغ کس طرح کرتے ہیں۔ پاکستان کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ مسلم ممالک بھارت سے اپنے سفیر واپس بلا لیں۔ مگر افسوس!اس کا امکان کم ہے۔ بہر طور صورت حالات کا درست اندازہ کانفرنس بلانے کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے۔
ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا کہ ہمارے سفارت خانوں کی اکثریت، زیادہ فعال نہیں ہے۔ جو سفارت خانے اپنے تارکین وطن کے مسائل نہیں حل کر سکتے، انہیں ملنے سے گریز کرتے ہیں، ان کی عرضداشتوں کا جواب تک نہیں دیتے، وہ سفارتی جنگ کیا لڑیں گے؟ اب یہ وزیر خارجہ پر منحصر ہے کہ وہ اپنے ان سپاہیوں کو کس طرح تیار کرتے ہیں اور کس طرح انہیں دشمن کے مقابلے پر لاتے ہیں۔
عراق پر امریکی فوج کشی ہوئی تھی تو یورپ کے شہروں میں احتجاجی جلوس نکالے گئے تھے۔ کیا آج یورپ کے عوام ایسا کریں گے؟ نہیں! کیوں کہ انہیں صورت حال کا علم نہیں ہے۔ بدقسمتی سے بھارت کو دنیا ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے جانتی ہے اور پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر جہاں بار بار مارشل لا لگتے ہیں اور جہاں دوسرے ممالک کے دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے مہیا کیے جاتے ہیں۔ یہاں پھر پاکستانی سفارتخانوں پر بات آ جاتی ہے کہ وہ یورپ کے عوام کے لیے بھارت کے ظلم کس حد تک آشکارا کر سکتے ہیں۔
دوسری چتا جو مودی سلگا رہا ہے، وہ پورے بھارت میں مسلمانوں کو جلانے کے لیے تیار ہو رہی ہے۔ ہندو ذہنیت اپنے پورے شیطانی روپ کے ساتھ ظاہر ہو چکی ہے۔ جگہ جگہ مسلمانوں کو زدوکوب کیا جا رہا ہے۔ سینکڑوں ویڈیو کلپس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح مسلمان نوجوانوں اور بوڑھوں کو کبھی بھارت کی جے کا نعرہ بلند کرنے کے لیے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور کبھی بندے ماترم کہنے کے لیے تھپڑوں، مکوں، لاتوں اور گھونسوں سے زمین پر گرا دیا جاتا ہے۔ پھر ان کے زخمی جسموں کو گھسیٹا جاتا ہے۔ ہریانہ سے لے کر جھاڑ کھڑ تک بنگال سے لے کر راجستھان تک اکھنڈ بھارت کا بھوت ننگا ہو کر ناچ رہا ہے۔ قسمیں اٹھائی جا رہی ہیں کہ مسلمانوں کو ختم کر دیا جائے گا۔ یو پی کا پنڈت چیف منسٹر الٰہ آباد کا نام تبدیل کر چکا ہے اور مدارس کو حکم دے چکا ہے کہ یوم آزادی کی تقاریب منعقد کی جائیں اور ان کی ویڈیوز ثبوت کے لیے یو پی کی حکومت کو دکھائی جائیں۔ گیروے رنگ کا مذہبی لباس پہن کر اسمبلی میں آنے والا یہ پروہت ایک علامت ہے۔ اس علامت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اصل کہانی کیا ہے؟
مودی کا، بلکہ بی جے پی کا، یہ کھیل خطرناک ہے۔ اس لیے کہ جب مسلمان نوجوان دیوار سے لگا دیا جائے گا تو ایک دن وہ بندوق پکڑ لے گا۔ پھر اسے گوریلا جنگ لڑنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ زیرزمین خفیہ تنظیمیں وجود میں آئیں گی۔ پورے بھارت میں مسلمان نوجوان جوابی کارروائیاں کریں گے۔ وہ وقت آیا تو بھارت لاکھ دہشت گردی کی دہائی دے، یہ آگ نہیں بجھ سکے گی۔ جب سب راستے بند ہو جائیں تو جانور بھی حملہ کر دیتے ہیں، بھارتی مسلمان تو پھر انسان ہیں۔ جس بربریت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، جس سرعت کے ساتھ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنایا جا رہا ہے، جس طرح بنیادی حقوق سے انہیں محروم کیا جا رہا ہے، اس کا ردعمل آج نہیں تو کل ضرور سامنے آئے گا۔
اہل پاکستان کو یہ بات بھی سمجھنا ہو گی کہ اغراض سے بھری دنیا میں کوئی کسی کے کام نہیں آتا۔ آخرِ کار، اپنی قوتِ بازو ہی کام آتی ہے۔ چین ہو یا کوئی اور دوست ملک، ان کی ترجیحات، ان کے اپنے مفادات کے تابع ہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایران اور یو اے ای بھارت کے ساتھ انتہائی قریبی روابط رکھے ہوئے ہیں۔ چین کی اس وقت بھارت کے ساتھ تجارت نوے بلین ڈالر کو چھو رہی ہے۔ ہمیں یہ خیال اپنے ذہن سے نکالنا ہو گا کہ کوئی ہماری پشتیبانی اس حد تک کرے گا کہ پھل ہماری جھولی میں آ گرے گا۔
بھارت اگر مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی خطوط پر ہندوئوں کی آبادیاں بسانا چاہتا ہے اور مسلمانوں کو Ghettosمیں محصور کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اسرائیل کے پڑوس میں پاکستان تھانہ پاکستانی فوج ! ؎
ہر گوشہ گماں مبرکہ خالیست
شاید کہ پلنگ خفتہ باشد
یہ شرق اوسط نہیں! جنوبی ایشیا ہے۔ اسرائیل کے پڑوس میں اردن اور لبنان تھے۔ بھارت کے پڑوس میں پاکستان ہے۔ بھارت ایٹمی طاقت ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستانی فوج بھالوں اور نیزوں سے نہیں لڑے گی۔ ایک سوال یہ ہے کہ خود بھارت کے اندر، بی جے پی کی انتہا پسند پالیسی کے مخالف حلقے کیا رول ادا کریں گے؟ کیا انہیں احساس ہے کہ مسلمانوں کے بعد انتہا پسند ہندو ان کی گردن پر بھی ہاتھ ڈالیں گے؟ کیا عجب ادتیا ناتھ جیسے نیم مجنونی کل کو ہر بھارتی کے لیے گیروے رنگ کا مذہبی لباس لازمی کر دیں؟ اب بھی بی جے پی کے مخالف ہندوئوں کو بھارتی خفیہ ایجنسیاں اپنے ٹارگٹ پر رکھے ہوئے ہیں۔ کوئی فرد ہے یا تنظیم مودی کی پالیسیوں کی مخالف ہے تو اس کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ کالی دیوی کے یہ بچاری منصوبہ بندی تو کر سکتے ہیں، تاریخ پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ تاریخ اپنی سمت کا تعین خود کرتی ہے!