ترکی کے صدر طیب اردگان کے ترجمان ابراہیم نے بدھ دس مارچ کے روزذرائع ابلاغ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ امریکہ نے ترکی کو پاکستان کیلئے بنائے جانیوالے تیس جنگی ہیلی کاپٹر فروخت کرنے پر پابندی لگادی ہے، پاکستان اور ترکی کے درمیان دو انجن والے گن شپ ہیلی کاپٹر کا معاہدہ 2018ء میں طے پایا تھا، 105کروڑ ڈالر کا یہ معاہدہ پاکستان اور ترکی کی تاریخ میں ہتھیاروں کی فروخت کا سب سے بڑا معاہدہ ہے، ان ہیلی کاپٹروں میں امریکی ساختہ انجن استعمال ہوتے ہیں جو امریکہ نے ترکی کو برآمد کرنے سے منع کردیا ہے، پاکستان پر امریکہ کی مہربا نیاں ایک مدت سے جاری تھیں، اب ترکی امریکی دوستی کا تازہ شکار بنے گا، دونوں ملکوں کی ایک صدی پر محیط دوستی اور شراکت داری اس وقت خطرے میں پڑنا شروع ہوئی جب طیب اردگان کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے فوج میں بغاوت ہوئی اور امریکہ کے زیر استعمال ترکی کے ہوائی اڈوں کو باغیوں کی سہولت کیلئے استعمال کیا گیا۔ اس بغاوت کی بروقت اطلاع ترک صدر کو روس کی جانب سے دی گئی تھی حالانکہ روس کیساتھ ترکی کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے، ترکی روس دشمن یورپی اتحاد "نیٹو"کا اہم رکن بھی ہے، انہی دنوں ترکی نے روسی ہوائی جہاز کو نشانہ بنا کر تباہ کردیا تھا جس پر روس اور ترکی کے درمیان جھڑپ ہوتے رہ گئی تھی، اسکے باوجود روس کے صدر پیوٹن نے طیب اردگان کو مدد دی جسکے بعد دونوں ملکوں کے درمیان نئے تعلقات کی ابتداء ہوئی۔
حال ہی میں ترکی نے روس سے فضائی دفاع کا نظام خریدنے کا معاہدہ کیا، یہ دفاعی نظام دنیا بھر میں سب سے جدید اور بہترین مانا جاتا ہے، اس کی کارکردگی، رینج اور دشمن کو مار گرانے کی صلاحیت امریکی دفاعی نظام سے کہیں بہتر ہے، اور قیمت بھی کم ہے۔ امریکہ نے ترکی کو روسی دفاعی نظام خریدنے سے منع کیا، اس کے انکار پر بہت سی پابندیاں لگادیں۔
اب انجنوں کی برآمد سے انکار نہ صرف ترکی بلکہ پاکستان کو بھی سبق سکھانے کے لیے ہے۔ پابندیوں کے نتیجے میں ترکی نے امریکی انجن کے مقابلے میں اپنا انجن بنانے کا اعلان کردیا، تازہ ترین اطلاع کے مطابق پاکستان اور ترکی مشترکہ کوشش سے اپنا طیارہ بنانے جارہے ہیں، پاکستان اور ترکی دفاعی تعاون میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، اس تعاون نے دونوں کے دشمنوں میں پریشانی کی لہر دوڑادی، اس کی سب سے زیادہ پریشانی اسرائیل کو اور تکلیف امریکہ کو پہنچ رہی ہے۔
ایسی پابندیوں کے نتیجہ میں امریکہ نے ہمیشہ دوہرا نقصان اٹھایا اور پھرا سے پابندی زدہ ملکوں کی طرف واپسی کا موقع نہ مل سکا۔ نہ صرف ان کی دوستی سے محروم ہوا بلکہ معاشی اور تجارتی نقصان بھی سہنا پڑا۔ ان پابندیوں سے وہ ملک مقابلے میں ہتھیار بنانے اور برآمد کرنے لگے۔ پاکستان اور ایران اسکی ظالمانہ پابندیوں کا نشانہ بنے اور یہ پابندیاں دونوں ملکوں کی دفاعی صلاحیت کو مستحکم کرنے کا سبب بنیں، خصوصاً پاکستان کو اس سے بہت فائدہ ہوا اور اس نے خود کفالت کی راہ اختیار کرلی۔
روس کی افغانستان میں شکست کے بعد امریکہ نے پاکستان پر دفاعی اور معاشی پابندیاں عائد کردیں۔ ان پابندیوں سے پہلے دونوں ملکوں کے مابین امریکی ٹینکوں کی خریداری کا معاہدہ ہوچکا تھا، یہ وہ ٹینک ہے جس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق امریکی سفیر "رافیل "اور سینئر عسکری رہنماؤں کے ساتھ بہاولپور گئے تھے اور واپسی پر انہیں اسی دوست نما دشمن کے ایماء پر نشانہ بنایا گیا، ان پابندیوں کے رد عمل میں پاکستان نے اپنا ٹینک بنانے کا ارادہ کیا اور "الخالد" کی بنیاد رکھی، "لیفٹیننٹ جنرل نقوی "ٹیکسلا ہیوی مکینیکل کمپلکس کے سربراہ تھے جب ہم یعنی سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے ممبران نے کمپلیکس کا دورہ کیا۔ ہمیں الخالد کی آزمائشی کارکردگی کا جائزہ لینا تھا، جنرل نقوی نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ اب امریکہ نے نصف قیمت پر ٹینک دینے کی پیشکش کی ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ ہم الخالد ٹینک کا پراجیکٹ بند کردیں۔ جنرل نے کہا کہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کا ٹینک کارکردگی میں مجوزہ امریکی ٹینک سے کم نہیں ہوگا۔ اسی طرح امریکہ نے پاکستان کو اسٹینگر"طیارہ شکن" میزائل بیچنے سے بھی انکار کردیا تھا، اور جو اسٹینگر افغانستان میں مجاہدین کو دیئے گئے تھے وہ بھی واپس مانگے، مجاہدین کے انکار پر انہیں بھاری قیمت پر خرید کر واپس لیا گیا تاکہ پاکستان کے ہاتھ نہ لگیں۔ اس وقت کے صدر غلام اسحاق اور فوج کے سربراہ اسلم بیگ نے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اسٹینگر بنانے کو کہا جو چند مہینوں میں بنالیے گئے جبکہ ان کی مار اور نشانہ امریکی میزائل سے بہتر تھا اور قیمت میں ایک چوتھائی۔ اس سے پہلے 1974ء میں انڈیا نے ایٹمی دھماکے کئے توامریکہ اور یورپ نے پاکستان کے خدشات کو نظر انداز کردیا، نتیجتاً پاکستان کو اپنا ایٹمی پروگرام شروع کرنا پڑا۔ اس پر طرح طرح کی پابندیاں لگادی گئیں مگر حکومت نے کوئی پرواہ نہ کی اور آج پاکستان ایٹمی طاقت ہے، ہر طرح کے میزائلوں سے لیس۔ پاکستان نے دشمن کو روکنے کیلئے چھوٹے ایٹمی ہتھیار بھی بنالیے جو امریکہ اور روس کے بعد صرف پاکستان کے پاس ہیں جس سے انڈیا کی جان جاتی ہے، پاکستان کی سرحد پر آکر اینٹھتا ہے مگر حملے کی جرأت کبھی نہ کرسکے گا اور ایف 16طیاروں کا معاملہ جو ادائیگی کے باوجود پاکستان کو دینے سے انکار ہوا تو پاکستان نے چین کے اشتراک سے اپنا جنگی طیارہ بنایا جو ایف 16کے ہم پلہ اور تقریباً ویسی ہی تکنیک سے تیار کیا گیا۔ پاکستان کے اشتراک سے چین اپنی ٹیکنالوجی کے علاوہ یورپ اور امریکا کی ٹیکنالوجی اور مہارت سے بھی مستفید ہوا۔
ایران پر پابندیوں کا جو اثر ہوا اس سے پوری دنیا اچھی طرح واقف ہے، اس نے رد عمل میں اپنا اسلحہ، دور مار خطرناک میزائل بنالیے اور ایٹمی پروگرام شروع کیا تویورپی ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی۔ ترکی مسلمان ممالک میں سب سے ترقی یافتہ ہے جو بری، بحری و فضائی افواج کیلئے امریکی ٹیکنالوجی سے پوری واقفیت رکھتا ہے، اس نے اپنا انجن بنانے کا اعلان کردیا، وہ اسی نوعیت کے جدید جنگی طیارے بنائے گا جیسے امریکہ کے جدید ترین طیارے ہیں اور اسرائیل کے سوا کسی دوسرے ملک کو نہیں دئیے گئے۔ ترکی پاکستان طیارہ سازی کا مجوزہ پراجیکٹ یقینا ان کے ہوش ٹھکانے لگادے گا، ترکی پاکستان کیلئے بحری جنگی جہاز اور انکی ٹیکنالوجی بھی منتقل کررہا ہے۔ امریکہ کو بہت جلد ترکی، ایران، پاکستان، افغانستان سے دیس نکالے کے بعد وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ چین، روس، ایران، ترکی، پاکستان اور سنٹرل ایشیائی ممالک پر مشتمل اتحاد جلد وجود میں آنے والا ہے جو نیٹو ممالک سے کہیں بڑا، مؤثر اور خطرناک ثابت ہوگا۔ رواں دھائی میں ساری دنیا یورپ اور امریکی اتحاد میں بڑی دراڑیں بلکہ خلیج دیکھے گی۔ یورپ ایشیا کا ہمسایہ ہے، وہ زیادہ دیر تک اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرسکتا۔
اسرائیل نے اپنا بہترین وقت گزارلیا، ٹرمپ کا امریکہ اسرائیل کے عروج کا دور تھا، اب اس کی تشویش روز بروز بڑھتی جائے گی، امریکی وہ احمق قوم ہیں، شاید قوم نہیں ان کی سیاسی قیادت اور خفیہ ایجنسیاں، جنہوں نے سونے کا انڈہ دینے والے گلف ممالک اور ایران کو اپنی حماقت سے ناراض کیا۔ عربوں کیلئے بھی جدید اسلحہ کی فروخت پر پابندیاں لگادی گئی ہے، یہ پابندیاں ان ملکوں کے لیے یقینا نعمت ثابت ہوں گی۔ عربوں کو جلد نظر انداز کیے گئے بھائیوں کی یاد ستائے گی، کسی محبت سے نہیں بلکہ اسرائیل اور امریکہ کا خوف انہیں نئی حقیقتوں سے آگاہ کرنے والا ہے۔ تب صبح کے بھولے واپس آئیں گے مگر ان پر شام ہوچکی ہوگی۔