مضحکہ خیز خاکوں کے ذریعے توہینِ رسالت اگرچہ شرارت پسند، گندی ذہنیت کے گھٹیا حاسد کا انفرادی فعل بھی ہوسکتا ہے مگر اس انفرادی شرارت کے اثرات محدود نہیں ہیں کہ اس سے نہ صرف پونے دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی بلکہ ان کروڑوں انسانوں کو بھی دکھ پہنچا جو حضرت محمد ﷺ کو انسانیت کا محسن اور تاریخ کی سب سے بڑی اور عظیم ہستی سمجھتے ہیں، اس میں یورپ کے فلسفی، عظیم فاتحین اور دانشور حکمران بھی شامل ہیں، عیسائی یورپ کا شاید ہی کوئی فلسفی، دانشور، تاریخ دان ایسا گزرا ہو جس نے حضور نبی اکرم ﷺ کی تعریف اور توصیف نہ کی ہو۔ یہی صورتحال ہندو، بدھ اور دیگر مذاہب کے بڑے رہنماؤں کی ہے۔
ایک بدطینت فرد یا چھوٹے سے گروہ نے کروڑہا انسانوں کے دل دکھائے اور انہیں غم میں مبتلا کیا، اتنے وسیع پیمانے پر اثر ڈالنے والے بے ہودہ عمل کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی جو دو عظیم الشان اور سب سے بڑے مذاہب کے درمیان ایسی غلط فہمی پیدا کرے اور خلیج بنائے جس کی انتہاء خونی تصادم اور نا ختم ہونے والی جنگوں کی شکل اختیار کرجائے۔ اگر یہ انفرادی فعل ہے تو انفرادی فعل کے جواب کے لیے ردّ عمل دینے کو لاہور میں غازی علم الدین اور فرانس میں چیچنیا کا نو عمر عبداللہ اور ڈنمارک میں بہت سے شہید اور غازی انتظار کرتے ہیں۔
توہین رسالت کے ذریعے مسلمانوں اور صداقت شعار انسانوں کی ایذا رسانی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود دینِ اسلام۔ اس کی ابتدا کفارِ مکہ نے کی، وہ بھی کوئی اور نہیں، آپ ﷺ کے چچا ابولہب اور ان کی بدطینت بیوی تھی، ان کو جواب دینے والا کون تھا؟ وہی جو ان کو پیدا کرنے والا اور تمام جہانوں کا اکیلا مالک ومختار ہے، اس پر سورۂ لہب رہتی دنیا تک گواہ رہے گی۔ وہ "حمالۃ الحطب" کہ اس کے گلے میں مونج کی بٹی ہوئی رسی ہے کہ گلہ گھونٹ کے ماری جائے مگر آسانی سے نہیں۔ کھردری رسی آہستہ آہستہ گلے کو دبانے والی ہے، "حمالۃ الحطب" کی اولادوں کے لیے بھی یہ قیامت تک کی وعید ہے۔
ہم یورپ کے بیدار مغز اور ہمدرد شہریوں کے احسان کو فراموش نہیں کرتے جو ہر ملک کے ہر شہر میں لاکھوں کی تعداد میں عراق اور لیبیا کے مسلمانوں کے خلاف جارحیت پر اپنے ہی حکمرانوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ان کی تعداد اور مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی، ہمدردی کا جوش و خروش ہر ذہن پر نقش ہوگیا، ہمارے دل ان کی ممنونیت سے بھرے ہوئے ہیں۔
نہ شام میں روا رکھی سفاکی اور غارت گری کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے جو ان کے اپنے حکمران اور حکمرانوں کو ہٹا کر خود حکمرانی کے دعویداروں اور ان کے حامی غیر ملکیوں نے لاکھوں شامی مرد، بچے، عورتیں فنا کے گھاٹ اتاردیئے، ان کی املاک جل گئیں، مکان تباہ ہوئے، روزگار جاتے رہے، مرد قتل اور بچے بھوک سے مر گئے، مائیں زندہ درگور ہوئیں تو ان لمحوں میں بچ جانے والے مظلوم شامیوں کے لیے ان کے برادر حکمرانوں نے اپنی سرحدیں بند کرلیں اور ان کو اپنی روٹی میں شریک کرنے سے انکار کردیا تب ان کی مدد کو ترک لپک کر آئے اور جرمنی کی انجیلا مرکل نے ان مظلوم اور لٹے پٹے مہاجرین کے لیے اپنی گود کھولی، کینیڈا کے جسٹن ٹروڈو آنکھوں میں آنسو لیے ہمدردانہ ان کی طرف لپک پڑے، انہیں پناہ دی، محبت اور شفقت کا برتاؤ کیا اور نیوزی لینڈ کی جسینڈا آرڈن نے نیوزی لینڈکے مسلمانوں کے ساتھ جس ہمدردی، محبت اور شفقت کا سلوک کیا وہ تاریخ کے باب میں سنہری حرفوں سے جگمگایا کرے گا۔ آسٹریلیا کے عوام کا غصے سے بھرا جارحانہ سلوک جس کا اظہار انہوں نے اپنے سینیٹر کے خلاف کیا جس نے عیسائیوں کا ہیرو بننے کی کوشش میں نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی، اسکے خلاف دکھایا اور اسے اپنے منصب سے دستبردار ہونے پر مجبور کرکے گمنامی میں دھکیل دیا۔ فرانس کے حالیہ واقعے پر مودی کی ذہنیت اور مجرمانہ پس منظر کے حکمران نے سب کے کیے کرائے پر پانی پھیرنے کی کوشش کی۔
فرانس میں مڈل سکول کا ایک استاد اپنے شاگردوں کے سامنے توہین آمیز خاکے بنا کر توہینِ رسالت کا ارتکاب کرتا رہا، بچوں کے والدین کے اعتراض اور احتجاج پر کچھ دن کے لیے رکا اور پھر نہ صرف اپنی مذموم سرگرمیوں کو دہرایا بلکہ وہ بچوں کو خاکے بنانے اور ان کی نامناسب تشریح وتعبیر پر مجبور کرتا رہا۔ یہ حرکت انجانے یا بھول پن میں سرزد نہیں ہوئی، تاریخ اور جغرافیے کا یہ استاد اپنے مسلمان شاگردوں سے کہا کرتا کہ میں جانتا ہوں آپ کو ان خاکوں سے تکلیف پہنچتی ہے، اس لیے آپ اپنی آنکھیں بند کرلیں یا منہ دوسری طرف پھیر لیا کریں۔ یعنی وہ اپنی ناروا حرکت سے خود آگاہ ہونے کے باوجود کئی سال سے اس کو دہراتا رہا جس کے نتیجے میں چیچنیا سے آئے نو عمر لڑکے نے ابتدائے جوانی کے جوش اور غیرت ایمانی سے مغلوب ہوکر چاقو کے وار کرکے ملعون استاد کو قتل اور اس کا سر تن سے جدا کردیا۔ مقتول استاد کا جرم انفرادی نہیں تھا بلکہ وہ معصوم اور ناسمجھ طالبعلموں کو بھی اس قبیح حرکت کے لیے مجبور کرتا رہا مگر قتل کرنے والے عبداللہ کا فعل یقینا انفرادی تھا۔ اس انفرادی اور جذباتی ردّ عمل پر جس طرح فرانس کے صدر نے اسے تہذیبوں کا تصادم اور مذاہب کو نا ختم ہونے والی جنگ کی طرف لے جانے کی دانستہ کوشش کرڈالی، اسے نظر انداز کرنا بجائے خود قوموں اور ان کے حکمرانوں کے لیے اضطراب اور تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔
عبداللہ نے جس بہادری سے قتل کیا اور قتل کے بعد بھاگا نہ چھپنے کی کوشش کی، نہ ہی کسی سے مدد چاہی اور نہ اپنے بچاؤ کے لیے پولیس والوں کو نقصان پہنچایا، جوانمردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے "اللہ اکبر" نعرہ بلند کیا اور جائے واردات پر پولیس کی گولیاں سینے پر لیے شہید ہوگیا۔ وہ شہید جو غازی بھی ہے اس لیے کہ شہید زندہ ہے، جو کبھی نہیں مرتے، یہ خالق نے فرمایا۔ جنت میں غازی علم الدین کے دوستوں میں ایک اور بہادر کا اضافہ ہوا۔ نوعمر بچوں کو تعلیم دینے والا بد فطرت استاد نے کروڑوں لوگوں کو اشتعال دلاکر پوری امت کو چیلنج کیا تب ایک نو عمر لڑکے نے اس چیلنج کا جواب دے کر ہمیشہ کے لیے دنیا کو زہریلے اور بدطینت انسان سے نجات دلائی۔ جس مسلمان بچے نے فرانس کا قانون توڑا اس نے اس ملک کے مروجہ قانون سے کہیں زیادہ سزا قبول کی۔ اب فرانس کے صدر کو قوم کے لیڈر اور ریاست کے سربراہ کی طرح نظر آنا چاہیے تھا، اسے اپنے ملک کے شہریوں اور دنیا بھر کے سوگواروں کو یقین دلانا چاہیے تھا کہ وہ اس طرح کی مذموم سرگرمیوں کا سدِّ باب کریں گے مگر انہوں نے جو کچھ کہا وہ کسی طرح بھی ایک سیاستدان اور کسی قوم کے لیڈر کے شایانِ شان نہیں۔
اس نے شرپسند استاد کی مذمت کرنے کی بجائے اس کی اشتعال انگیز اور قبیح حرکت کو زیادہ بڑے پیمانے پر حکومت کی سرپرستی میں دہرانے اور جاری رکھنے کا اعلان کر کے کسی طرح بھی مسلمان عوام اور ریاستوں کے خلاف اعلانِ جنگ سے کم نہیں کیا۔ اس اعلان کا پہلا اور فوری جواب ترکی کے صدر اور عالم اسلام کے ترجمان رجب طیب اردگان کو ہی زیبا تھا، چنانچہ رجب اردگان نے کہا: فرانس کاصدر امینول میکرون پاگل ہے اور اسے فوری طو رپر دماغی علاج کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی اپنی قوم سے خطاب میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی جس کا خاطر خواہ نتیجہ فرانس اور دوسرے مسلمان ملکوں میں ظاہر ہونے لگا ہے۔ انہوں نے عالمی رہنماؤوں سے فرانس میں بسنے والے مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی اپیل بھی کی ہے۔ (جاری)