قیام پاکستان کے وقت برطانوی ہندوستان میں صنعتی ترقی اور اقتصادی، معاشی، تجارتی محور کے علاقے بھارت کے حصے میں آئے، مسلمانوں کے اکثریت والے علاقے جو پاکستان کے حصے میں آئے وہ صنعت، تجارت، زراعت، ہنر کے اعتبار سے سو سالہ برطانوی اقتدار میں بہت پیچھے رہ گئے تھے، برطانیہ نے مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا، قدرتی طور پر وہ انہیں اپنا حریف خیال کرتا تھا اور مسلمان بھی ان سے خار کھاتے اور ان کے طور اطوار قبول کرنے کو تیار نہ تھے، مسلمانوں کے مقابلے میں ہندو اکثریت کی غیر مشروط حمایت انگریزوں کو حاصل تھی، چنانچہ ہندو اکثریت والے خطوں کی تعمیر وترقی، تعلیم وہنر میں انہوں نے زیادہ توجہ دی، ان کے لیے انگریزی تعلیم اور جدید صنعت کا خصوصی بندوبست کیا گیا۔ مغربی پاکستان جن علاقوں پر مشتمل ہے، یہ خطہ صدیوں سے بہترین جنگجو پیدا کررہا تھا، فوجی خدمت ان کی سرشت میں شامل تھی، انگریزوں کو بھی ان علاقوں سے جنگ عظیم کے لیے بہترین ہنرمند سپاہی دستیاب تھے، چنانچہ اس خطے میں انہوں نے فوجی خدمت کے علاوہ روزگار کے جدید اور غیر فوجی ذرائع کی حوصلہ شکنی کی تاکہ انہیں لڑاکا افرادی قوت مہیا رہے۔ ان علاقوں میں صنعت تو تھی ہی نہیں جو کچھ زراعت اور تجارت تھی وہ بھی زیادہ تر ہندو اور سکھوں کے ہاتھ میں تھی۔ جو کچھ دفاعی صنعت اور اسلحہ خانے بنائے وہ بھی بھارت کے زیر قبضہ رہے۔ حتی کہ مسلمانوں نے اپنے محدود ذاتی وسائل اور کوشش سے تعلیم وترقی کے لیے جو چند ادارے تشکیل دئیے وہ بھی بھارت کے حصے میں چلے گئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی حتّٰی کہ مذہبی تعلیم کے بڑے بڑے مدارس بریلی، دیوبند، اعظم گڑھ، پھر بھوپال اور حیدر آباد دکن کی مسلم ریاستوں کی تعلیم وتحقیق کی سب کاوشیں وہیں رہ گئیں۔ لاہور، کراچی، ڈھاکہ کے سوا، مغربی اور مشرقی پاکستان کے تمام صوبے اور اضلاع، پسماندہ، غیر ترقی یافتہ صنعت وحرفت اور تعلیم وتمدن سے محروم تھے، مسلمانان ہند کو جیسا بھی تھا بہرحال پاکستان مل گیا۔
حضورِ پاک حضرت محمد ﷺ کی حدیث مبارک کے مطابق ہر پیدا ہونے والے بچے کے ساتھ خاص اس کے لیے ایک شیطان پیدا ہوتا ہے جو عمر بھر اسے بہکانے اور گمراہ کرنے میں لگا رہتا ہے۔
پاکستان کے ساتھ پیدا ہونے والا شیطان (بھارت) آبادی، رقبے، جنگی ہتھیار، فوجون کی تعداد، صنعت وحرفت، طاقت وقوت میں سات گنا تھا، پاکستان کے پاس روپیہ پیسہ، نہ بینک کا نظام، صنعت، سول سروس، فوج نہ سیاسی ادارے، جو چند فوجی دستے حصے میں آئے وہ بھی نامکمل نہتے اور پورے برصغیر میں بکھرے ہوئے تھے۔ مزید ظلم یہ ہوا کہ پاکستان کے حصے میں آنے والا اسلحہ اور روپیہ (جو چند کروڑ سے زیادہ نہ تھا) وہ بھی ہندوستان نے دینے سے انکار کردیا۔ پاکستان کے پاس زراعت میں پیسہ کمانے کے لیے کپاس اور پٹ سن تھی مگر اسے فروخت کے قابل بنانے کے کارخانے ہندوستان کے قبضے میں آئے۔ ناکافی فوجی دستے جو پاکستان کو مل پائے وہ مسلمان عورتوں اور بچوں کی نقل مکانی میں مصروف رہے۔ ہندوستان نے اس دعوے کے ساتھ پاکستان قبول کیا تھا کہ دو برس میں اس نوزائیدہ مملکت کو بزورِ طاقت ہندوستان میں ختم کرلیا جائے۔ پاکستان کے علاوہ آزاد ہونے والی مسلم ریاستیں مثلاً بھوپال، حیدر آباد دکن، جوناگڑھ وغیرہ پر فوج کشی کرکے انہیں ہندوستان میں شامل کرلیا گیا۔ آزادی کے چند دن بعد ہی ہندوستان نے براستہ کشمیر پاکستان کے خلاف فوجی جارحیت کا بھی آغاز کردیا۔ اس فوج کشی کے وقت پاکستان کی جو کچھ دفاعی، معاشی اور انتظامی صورتِ حال تھی اس کا مختصر ذکر پہلے کیا جاچکا ہے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کے فیصلے کے مطابق مٹھی بھر نیم مسلح فوج نے ناگفتہ بہ حالات میں بھی ہندوستان کے دانت کھٹے کردئیے اور کشمیر کا تقریباً آدھا حصہ آزاد کروالیا، باقی ماندہ بھی فتح کے قریب تھا، جب حملہ آور ملک کا وزیراعظم متعدد وعدوں کے ساتھ جنگ بندی کی درخواست لے کر اقوامِ متحدہ میں جا پہنچا۔ اقوامِ متحدہ اور بھارتی قیادت کے وعدوں پر جنگ بندی کردی گئی، لیکن پاکستان ہروقت ہندوستانی جارحیت کے خطرے سے دوچار تھا اور ہے بھی۔
روس، چین اور ہندوستان، فوجی طاقت، آبادی اور رقبے کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور تین ریاستیں چھوٹے سے پاکستان کو تین اطراف سے گھرے ہوئے ہیں۔ پاکستان قائم ہوا تب پوری دنیا دو عالمی طاقتوں (سپر پاور) یعنی روس اور امریکہ کے درمیان دو بلاکوں میں تقسیم تھی۔ (1) امریکہ اور اس کے اتحادی، (2) روس اور اس کے بغل بچے۔ بہرصورت پاکستان کو ان دو میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا تاکہ نئی ریاست کی غذائی، اقتصادی اور دفاعی ضروریات کا بندوبست کرسکے۔ امریکہ کے اتحادیوں کا مقابل روسی بغل بچے اس لیے لکھا کہ روس نے اتحادی نہیں بنائے تھے بلکہ عین ان دنوں جب نو آبادیاتی نظام دم توڑ رہا تھا اور یورپ کے زیرِ قبضہ خطے اور اقوام ایک ایک کرکے آزاد ہورہے تھے۔ روس نے مشرقی یورپ کے عیسائی اور وسط ایشیا کے مسلم ممالک کو روس میں ضم کرلیا اور مزید ملکوں کی طرف جارحانہ پیش قدمی کے امکانات بھی واضح تھے۔ اس کے زیرِ اثر دور دراز ملکوں میں بھی روسی مداخلت اس حد تک تھی کہ وہ کوئی فیصلہ آزادانہ نہیں کرسکتے تھے نہ ہی کسی یورپی ملک کے ساتھ تجارت اور لین دین کی اجازت تھی۔ کمیونسٹ نظریات کو بزور نافذ کرنا، آزاد ملکوں کو زیرِ اثر لانے کے لیے فوج کے ذریعے نام نہاد انقلاب برپا کرنا۔ پاکستان، ایران اور افغانستان خاص طور پر اگلا ہدف ہوسکتے تھے۔ افغانستان میں وہ کافی حد تک پیش قدمی کرچکا تھا۔ پاکستان میں بھی اس کے ایجنٹ سرگرم عمل تھے۔ شاعر، ادیب، مزدور اور فوج پر خاص توجہ دیتے ہمارے ہاں بھی ایک خطرناک فوجی بغاوت ہوتے ہوتے رہ گئی۔ بروقت کارروائی نے اس خطرے کا سدِّ باب کیا۔ دلچسپ اور عجیب حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان مخالف اور کانگرس نواز جماعتیں، افراد، علیحدگی پسند قبائلی سردار، سیاسی لیڈر ہی روس کے خاص کارندے بھی تھے، بار بار افغانستان میں پناہ گزیں ہوکر بھارت سے روپیہ اور روس سے اسلحہ اور دیگر مراعات سے لطف اندوز ہوکر اپنے ہی وطن کے خلاف نقب زن رہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پاکستان جیسی نظریات اسلامی ریاست کے خلاف روس اور بھارت متحد تھے۔ اگر پاکستان امریکہ، یورپ اور مسلم بلاک کے سہاروں کو نظرانداز کرتا تو روس اور بھارت مشرقی پاکستان انڈیا کے حوالے کرنے کے بعد مغربی پاکستان کو دریائے سندھ کے دونوں کناروں کو آپس میں تقسیم پر راضی تھے، تین صدیوں سے روس کی پیش قدمی جاری تھی کہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بلوچستان کے رستے بحیرہ عرب میں داخل ہوجائے۔ گوادر اور چابہار اس کی دیرینہ آرزو رہی۔
پاکستان بنانے کا سوچنے والے ڈاکٹر سر محمد اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کی قیادت میں جدوجہد کرنے والے کند ذہن نہ تھے کہ روس کی پیش قدمی اور اس کے ارادے ان کی نظروں سے اوجھل رہے ہوں، چنانچہ اپنے وجود کی حفاظت، صحیح وقت کے انتظار اور فوری ضرورتوں کی تکمیل کے لیے انہیں ہر صورت ایک سپر پاور کا سہارا لینا اور اس بلاک کا حصہ بننا ہی تھا۔ چنانچہ بانیانِ پاکستان نے امریکہ کا اتحادی بننا قبول کرلیا۔ بعد کے ماہ وسال میں یہ فیصلہ بروقت اور درست ثابت ہوا۔