فیصل آباد سے شیخ الیاس کی پوسٹ دیکھنے کو ملی، لکھتے ہیں میری رات امریکہ کے صدر جوبائیڈن سے بات ہوئی، اس نے بھی یہی کہا ہے، عمران خاں نیازی نااہل ہے۔ اس کی وجہ سے پوری دنیا میں مہنگائی ہو گئی ہے، انگلینڈ کے وزیر اعظم بورس یلسن نے بھی دہائی دی ہے کہ مہنگائی کا جن عمران نیازی کی وجہ سے بے قابو ہو گیا ہے۔
نیو یارک ٹائمز میں "پال کرگمین" کا ایک کالم شائع ہوا ہے، جس میں شیخ الیاس صاحب کی پوسٹ کی تصدیق مزید ہو جاتی، مگر اس مضمون کے مترجم نے ترجمہ کرتے ہوئے کمال ہوشیاری سے نام اور مقام بدل کے عمران خاں نیازی سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ نیو یارک ٹائمز میں چھپنے والے مضمون کا ترجمہ حاضر ہے۔ باقی قارئین کرام خود بڑے سیانے ہیں، حقیقت تک پہنچ جائیں گے!
معاشی محاذ پر گزشتہ چند مہینوں سے کافی مشکلات چھپائی ہوئی ہیں، افراط زر پچھلے 28سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے، سپر مارکیٹ کے شیلف خالی ہیں، پٹرول پمپ بند ہو چکے ہیں، اگر آپ گھر پر صرف ہیٹنگ سسٹم کے مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں، تو آپ ایک خوش قسمت انسان ہیں۔ بوائلر عام طور پر 48گھنٹے میں تبدیل ہو جاتا ہے، مگر آج کل مگر دو سے تین مہینے لگ جاتے ہیں۔ صدر جوبائیڈن واقعی معاملات سنبھالنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں، مگر تھوڑا صبر کریں!افراط زر کا ریکارڈ امریکہ نہیں، جرمنی میں قائم ہوا ہے۔ خوراک اور پٹرول کی کمی کی خبریں برطانیہ سے آ رہی ہیں، بوائلر کی تبدیلی کا مسئلہ سب سے زیادہ فرانس کو متاثر کر رہا ہے۔
امریکہ اور دنیا بھر میں جاری حالیہ افراط زر کا بڑا محرک توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ عالمی منڈی میں قیمتوں میں جو اضافہ شروع ہو چکا ہے، ان پر امریکہ کا بھی کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ یہ دعویٰ کر رہے ہیں اگر وہ ہوتے توآج بھی امریکہ میں پٹرول 2ڈالر فی گیلن مل رہا ہوتا، پتہ نہیں انہوں نے یہ کیسے سوچ لیا کہ وہ سب کچھ کر سکتے ہیں، کیونکہ پٹرول کی عالمی سطح پر تجارت ہوتی ہے اور اس کی عالمی کھپت کا صرف پانچواں حصہ امریکہ میں استعمال ہوتا ہے۔ عالمی معیشت کی بحالی میں جو مسائل رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ پوری دنیا کو ان کا سامنا ہے، یہ مقامی نوعیت کے مسائل نہیں ہیں۔ یہ نہیں کہ حکومتی پالیسیز کام نہیں کر رہی ہیں، مثال کے طور پر برطانیہ کو جن مسائل کا سامنا ہے، اس کی بڑی وجہ ٹرک ڈرائیوروں کی قلت ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہر کوئی ایک جیسے مسائل کا سامنا کر رہا ہے، جس سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ پالیسیز توقع سے کم نتائج دے رہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ امریکہ کو کیا مختلف کرنا چاہیے؟ آخر پوری دنیا کو کیوں ہر چیز کی قلت کا سامنا ہے؟ بہت سے تجزیہ کار اس صورت حال کو 1970ء کے جمود سے مشابہ قرار دے رہے ہیں لیکن یہ ایسا ہرگز نہیں لگ رہا، زیادہ تر ممالک کی معیشت سکڑنے کی بجائے ترقی کر رہی ہے۔ بے روزگاری میں کمی آ رہی ہے، تاہم سپلائی میں کچھ رکاوٹیں حائل ہیں۔ کووڈ پھیلنے کی وجہ سے چین کی بندرگاہیں بند تھیں۔
دنیا بھر کی کاروں میں استعمال ہونے والے سیمی کنڈکٹر کی چپس جس جاپانی فیکٹری میں بنتی ہیں، اسے مارچ میں آگ لگ گئی تھی، جس کے نتیجے میں آٹو پروڈکشن بند ہیں۔ شاید اس افراط زر کی مشابہت 1974ء یا 1979ء کی کساد بازاری سے نہیں بلکہ کورین جنگوں سے ہے، جب افراط زر خطرناک حد تک بڑھ گیا تھا، اس میں 10فیصد اضافہ ہو رہا تھا کیونکہ بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنا مشکل ہو رہا تھا، کیا واقعی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو چکا ہے؟ امریکہ میں حقیقی سیل ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے، اب اس میں بھی کووڈ سے پہلے والا رجحان واپس آ رہا ہے، مگر اب ڈیمانڈ کی شکل بھی تبدیل ہو رہی ہے، جب کووڈ کی صورت حال بدترین سطح پر تھی، لوگ ریستوران میں جا کر کھانا کھانے کے قابل یا اس کے لئے تیار نہیں تھے، اس کے بدلے میں انہوں نے اپنا پیسہ کاروں اور الیکٹرانکس آلات خریدنے پر صرف کیا۔ اپنے عروج پر یہ خریداری کووڈ سے پہلے کے مقابلے میں 34فیصد زیادہ تھی۔ اب اس میں کس حد تک کمی ہو گئی ہے، مگر پھر بھی پہلے سے زیادہ ہے کئی مرتبہ دنیا بھر میں ایک جیسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔
دریں اثنا سپلائی میں کمی کی وجہ بندرگاہوں کا بند ہونا یا چپس کی قلت ہی نہیں بلکہ ملازمتوں پر واپس نہ جانے کا رجحان بھی ہے۔ لوگ اپنی سابقہ ملازمتوں پر واپس جانے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ افراط زر اور اشیائے صرف کی قلت کی طرح یہ بات بھی ایک عالمی مسئلہ بن چک یہے، برطانیہ سے موصول ہونے والی اطلاعات بھی امریکی صورت حال سے ملتی جلتی ہیں۔ ورکرز کی بڑی تعداد خصوصاً تجربہ کار ورکرز نے گھروں میں رکے رہنے یا وبا کے بعد ملازمتیں ختم ہونے کی وجہ سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جہاں یہ عالمی مسئلہ ہے، وہیں اس کے اثرات مقامی نوعیت کے بھی ہیں۔ اشیائے صرف کی قلت اور افراط زر سے یقینا صدر جوبائیڈن کی مقبولیت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، مگر امریکی پالیسی ساز اس سے مختلف کر بھی کیا سکتے ہیں؟ یا انہیں کرنا چاہیے تھا؟
انرجی کی قیمتوں پر امریکہ کا کوئی کنٹرول نہیں، چند مہینے پہلے بڑے بڑے دعوے ہو رہے تھے کہ بے روزگاری کے بڑے بڑے فوائد لوگوں کے ملازمتوں پر واپس جانے میں حائل ہو رہے ہیں۔ بہت سی امریکی ریاستوں نے یہ فوائد پہلے ہی ختم کر دیے، حالانکہ انہیں ستمبر تک جاری رہنا تھا، مگر اس کے باوجود ملازمتوں پر واپسی کے رجحان میں کوئی مثبت فرق نہیں پڑا۔ حالیہ قلت کی وجہ سے اخراجاتی منصوبوں بارے میں کوئی فکر مندی پیدا ہونی چاہیے؟ نہیں!اس مرحلے پر اگر "بلڈ بیک بیٹر" ایجنڈے پر کوئی عمل ہوتا بھی ہے، تو اس سے آگلے دس سال میں جی ڈی پی پر صرف 0.6فیصد فرق پڑے گا، اس کی ادائیگی بھی زیادہ تر ٹیکس میں اضافہ کر کے ہی کی جائے گی۔
مزید اگر کچھ مدد گار ہو سکتا ہے تو یہ کہ ہر امریکی شہری کے لئے ویکسین لگوانا لازمی قرار دیا جائے، تو وہ خود کو ہر لحاظ سے محفوظ تصور کرے گا۔ تب جا کر سپلائی چین کا رکا ہوا سلسلہ ازسر نو شروع ہو سکتا ہے، اگر افراط زر کا موجودہ معاشی بحران اسی طرح جاری رہتا ہے تو فیڈرل ریزرو کو شرح سود میں اضافہ کر کے اپنی پالیسی کو مزید سخت کرنا پڑے گا۔ تاہم اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ شرح سود میں فوری اضافہ سنگین غلطی ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اگر ڈیمانڈ میں کمی آگئی تو فیڈرل ریزرو کے پاس قیمتوں میں کمی کرنے کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہو گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حالیہ صورت حال پر ضرورت سے زیادہ ردعمل دینا بھی ضروری نہیں ہے۔
یہ بات کہ قلت اور افراط زر کا پوری دنیا کو سامنا ہے، اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان مسائل کی وجہ قومی پالیسی نہیں ہے۔ کووڈ کی وجہ سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں کو عبور کرنے کے بعد جب کبھی معیشت اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے گی توان عوامل کا سامنا کرنا ایک لازمی امر ہو گا۔ معاملات کو سمجھنے اور سلجھانے میں سب کی توقع سے کہیں زیادہ وقت لگے گان مگر افراط زر کے "سٹیٹس کو" کو بحال کرنے کی عاملانہ کوششوں سے فائدے سے زیادہ نقصان ہونے کا احتمال ہے۔ (بشکریہ نیو یارک ٹائمز)