روزنامہ 92میں پہلا کالم پاکستان کی سیاست میں پیدا شدہ خلا کے بارے میں لکھا تھا، فطرت کااصول ہے، کہیں بھی خلا باقی نہیں رہنے دیتی، اسے بہرصورت پر ہونا ہوتا ہے۔ حالیہ برسوں میں پیپلز پارٹی سیاست کے میدان میں بتدریج پسپا ہوتے ہوئے سندھ کے دیہی علاقوں میں سمٹ کر رہ گئی، اس خلا کو تحریک انصاف نے عمران خاں کی قیادت میں تیزی سے اور کامیابی کے ساتھ پر کر دیا، 2011ء کے بعد عوامی مقبولیت کے اعتبارسے تحریک انصاف سب سے مقبول اور پاکستان کی قومی سطح پر واحد سیاسی جماعت ہے، جو ملک کے ہر خطے اور ہر طبقے میں موثر وجود رکھتی ہے، ماضی کی بڑی سیاسی پارٹیاں بتدریج سکڑتے ہوئے چند اضلاع یا انتخابی حلقوں تک محدود رہ گئی ہیں، تحریک انصاف نہ صرف پیپلز پارٹی کو نگل گئی بلکہ اس نے علاقائی اور فرقہ وارانہ مذہبی جماعتوں کا بھی خاتمہ کر دیا، جماعت اسلامی کا ووٹ وقت کے ساتھ مسلم لیگ نواز شریف سے ہوتا ہوا عمران خان کے سایہ عاطفت میں آ گیا۔
2013ء میں تحریک انصاف کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں پہلی کامیابی نصیب ہوئی، اگرچہ وہ اکثریتی جماعت نہ تھی مگر اس نے دوسروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں، جماعت اسلامی اور شیر پائو کو ساتھ ملا کر حکومت سازی میں کامیاب ہو گئی۔ اگرچہ ان کے پاس اکثریت نہیں تھی مگر وہ اتحادیوں کے ناجائز مطالبات پر دبائو میں نہیں آئی، حتیٰ کہ ایک مرحلے پر اس نے اپنے بیس ارکان کو سینٹ الیکشن میں بے وفائی پر پارٹی سے خارج کر دیا، اس کے باوجود اس کی حکومت قائم رہی۔ پولیس اور ریونیو، صحت کے محکموں میں اصلاحات اور دلیرانہ سیاسی فیصلوں سے عمران خان کو اس صوبے میں اتنی پذیرائی ملی کہ 2018ء کے انتخاب میں یہاں پر دو تہائی اکثریت سے جیت گیا۔
2018ء کے الیکشن کے بعد تحریک انصاف کو مرکز اور پنجاب میں حکومتیں بنانے کا موقع ملا تو یہاں بھی 2013ء والے پختونخواہ کے ساتھ حیرت انگیز مماثلث دیکھنے میں آئی۔ پنجاب اور مرکز میں سب سے بڑی جماعت تو تھی لیکن واضح اکثریت نہ ملنے کے سبب اسے آزاد ممبران اسمبلی اور بعض چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانا پڑی، یہاں بھی انہیں چین نصیب نیں ہوانہ صرف اتحادیوں کی بلیک میلنگ بلکہ اپنی پارلیمانی پارٹی میں بھی ترین گروپ وجود میں آ گیا۔ اب بھی عمران خاں نے اپنی حکومت بچانے کے لئے کسی کمزوری اور غیر ضروری لچک کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس کی ثابت قدمی رنگ لارہی ہے۔ اس کی حکومت کا دائرہ بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔ شمالی علاقہ جات کے بعد کشمیر میں بھی تحریک انصاف کی حکومت بننے جا رہی ہے، اب سندھ بچ رہا ہے، جہاں ہنوز پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہرا رہا ہے، مگر بکرے کی ماں زیادہ دیر تک خیر منانے والی نہیں ہے۔ جیسا کہ شروع میں عرض کیا تھا کہ خلا باقی نہیں رہتا، پیپلز پارٹی کی پسپائی سے پیدا شدہ خلا عمران خاں کی قیادت نے پر کر دیا، مگر اب بتدریج پیچھے ہٹتی اور سکڑتی ہوئی، مسلم لیگ(ن) کی وجہ سے پھر خلا پیدا ہو رہا ہے، پاکستان میں یک جماعتی جمہوریت یا سیاسی نظام نہیں ہے، عمران خاں کے مقابلے میں متبادل قیادت تحریک انصاف کے مقابلے میں دوسری ملکی سطح کی قومی پارٹی کی ضرورت ہے، معروضی حالات میں یہ خلا کون پر کرے گا؟ اور کیسے؟
بھٹو کے دور حکومت میں مجیب الرحمن شامی صاحب کا ہفتہ روزہ زندگی بڑی اہمیت کا قومی پرچہ تھا، ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا اور کثیر تعداد اس کے قارئین کی تھی۔ ٹائٹل پر کسی لیڈر کی تصویر چھپنا بڑے اعزاز کی بات تھی، ایک ہفتے مولانا مودودی صاحب کی تصویر چھپی اور ان کاانٹرویو، اس کے بعد نوابزادہ نصراللہ صاحب اور آخر میں ایئر مارشل اصغر خان کی، اصغر خان بھٹو کے مقابلے کے لیڈر مانے جا رہے تھے اور بھٹو کو نکالنے کے بعد اس کے متبادل، نوابزادہ صاحب انہیں اپنا حریف سمجھتے تھے، شامی صاحب نواب صاحب سے ملنے گئے تو سامنے میز پر زندگی رکھا تھا جس میں اصغر خان مسکراتے دکھائی دیے۔ نوابزادہ صاحب نے تصویر کی طرف اشارہ کر کے شامی صاحب سے کہا:جتنا مرضی بانس پر چڑھائو لیڈر نہیں بنے گا، شامی صاحب ہنس کر بولے، ہمارے بانس میں یہی خرابی ہے، جس کو چڑھائو لیڈر نیچے بانس اوپر نکل جاتا ہے۔ بانس کی نوک اور لیڈر کی خرابی اب تک دور نہیں ہو سکی۔
یہ حقیقت تسلیم کئے بغیر کوئی چارا نہیں کہ عمران خاں وزیر اعظم ہیں، ان کی مقبولیت روز فزوں ہے، یہ بھی کہ چالیس برس کے بعد پاکستان کے پاس ایسا حکمران ہے، جس کی آواز عالمی ڈرامے میں پوری توانائی کے ساتھ گونجتی ہے۔ نوجوان اور پاکستان کا تعلیم یافتہ طبقہ اس کی قیادت مانتا ہے کئی عشروں کے بعد صنعت کار اور تاجر اطمینان محسوس کر رہے ہیں، پاکستان کے ہر چھوٹے اور بڑے حلقہ انتخاب میں اس کا پہلا نمبر ہے اور کہیں دوسرا، ہر قوم، برادری، قبیلہ، طبقے، فرقے میں اس کو پذیرائی ملی ہے۔ اس کا سب سے بڑا حریف اس کے خوف کے باعث ملک سے فرار ہو چکا ہے۔ نہ صرف وہ سیاست کے لئے نااہل ہے بلکہ اس کے سارے جانشین سزا یافتہ ہیں یا مقدمات میں ماخوذ یا مطلوب، مسلم لیگ (ن) جو اس کی حریف بنا کر پیش کی جا رہی ہے، وہ اپنی شیلف لائف گزار چکی، جلد ہی منظر سے غائب ہونے والی ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرح اس کی سیاست پنجاب کے تین ڈویژن تک محدود اپنی بقا کے لئے کسی آسمانی معجزے کی منتظر ہے۔ عمران خان کے اقتدار کو 2028ء تک تو دبے لفظوں تسلیم کیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ کے سنجیدہ رہنما اور ہمدردی رکھنے والے دانشوروں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ کشمیر میں حکومت کھو دینے اور سیالکوٹ میں صرف ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر شکست کے بعد انہیں مایوسی نے آن لیا ہے۔ ایسی مایوسی جو کسی مریض کو لاحق ہو جائے تو وہ جانبر نہیں ہوا کرتا۔
آج کی تسلیم شدہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان پورے قد سے میدان میں تنہا حریفوں کو دعوت مبارزت دے رہاہے اور حریف مولانا کے بھاری وجود کے پیچھے چھپنے کوشش کے بعد میدان سے فرار کی راہ پر ہیں۔ انہیں آئندہ برسوں میں اگر سیاست کی زندگی جینا ہے تو PNAیعنی پاکستان قومی اتحاد جیسے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے مگر اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کوئی نصراللہ خان ہے، مودودی، اصغر خاں نہ پیر پگاڑہ، لے دے کے چوہدری ظہور الٰہی کے وارث ہیں، شجاعت حسین، پرویز الٰہی جن کادسترخوان وسیع اور تعلقات سماجی و سیاسی ہر جگہ اور ہر طبقہ میں موجود ہیں، ان کی دعوت پر سب چلے آئیں گے، راہ میں ایک بڑی رکاوٹ نواز شریف کی انا کی ہے، انا بھی احتیاطاً اور احتراماً لکھ دیا، ورنہ انا نہیں حد سے بڑا ہوا احساس کمتری۔ یہ رکاوٹ دور ہونے والی تھی، جب جیل میں گرمی کی تپش نے اس کو پگھلا دیا تھا اور مولانا فضل الرحمن کے قدموں میں روندے جانے کے بعد اس کے دھرنے کے دوران تنہائی کی ملاقات میں پرویز الٰہی کے کانوں میں یا پرویز الٰہی کی زبان سے مولانا کے کانوں ڈالی جا چکی تھی۔ عدالتوں کی مہربانی اور مریض کی اداکاری اسے بیرون ملک لے گئی تو پھر سے لرزتی، لڑکھڑاتی انا اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی۔ کشمیر اور سیالکوٹ میں شکست، خاندان کے اندر ٹوٹ پھوٹ، پارٹی کے علاقائی اور مقامی رہنمائوں کی بے چینی اور کئی ایک کے کھنک جانے کے خوف کا سبب پھر سے انہیں چوہدریوں کی یاد ستانے لگے گی اور ادھر سے اشارے بھی مثبت ہیں، ایم پی اے چوہان کے پیچھے سے آنکھ کا اشارہ ترین صاحب کو!بس اک نگاہ غلط انداز، اوپر سے۔