دفاع کے لئے مطلوب جغرافیائی وسعت اور گہرائی، افغانستان کے حوالے سے سٹریٹجک ڈیتھ کی اصطلاح پہلے پہل 1980ء کی دہائی میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے استاد جنرل مرزا اسلم بیگ نے استعمال کی جو ضیاء الحق کی شہادت کے بعد پاکستان کی بری فوج کے سربراہ مقرر ہوئے۔ 1965ء کی جنگ کے دوران پاکستان کے مسافر بردار اور بعض جنگی طیارے بھی ایران کے مختلف ہوائی اڈوں پر منتقل کر دیے گئے تھے تاکہ نہ صرف یہ طیارے محفوظ رہیں بلکہ اپنے ہوائی اڈے بلا تردد دفاعی اور جنگی ضرورتوں کے لئے بآسانی دستیاب ہوں۔ ایران کی دوستی اور ہمسائیگی پاکستان کو دفاع کیلئے جغرافیائی یا گہرائی کا ذریعہ بنی۔
اب آئیے افغانستان میں امریکی ایڈونچر کی طرف دراصل یہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے لئے Strategic depthکی دوسری کہانی ہے۔ جب پاکستان کی مشرف حکومت، افغانستان پر حملہ کرنے والے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دینے پر مجبور ہوئی لیکن امریکی آج تک پاکستان پر دوغلی پالیسی کا الزام دھرتے ہیں۔ افغانستان پر امریکہ کی چڑھائی اور اس کے نتیجے میں طالبان حکومت کو ختم ہوئے زیادہ دن نہیں گزرے تھے، جب پاک لینڈ اور سعدی سیمنٹ کے مالک طارق محسن صدیقی، ان کے دیرینہ دوست میاں عبداللہ جو کمپنی کے ایگزیکٹو بھی تھے اور راقم السطور کا کسی کام کے لئے پشاور جانا ہوا، ہم لوگ پشاور کے پانچ ستارہ ہوٹل پرل کانٹی نینٹل میں مقیم تھے، ہمارے کمروں اور ریستورانوں میں تین نوعمر لڑکے خوبرو چست مودّب مگر بے تکلف پشاوری کم اور افغانی زیادہ دکھائی دیتے تھے۔ شام کی چائے لے کر دو نوجوان آئے تو طارق محسن نے انہیں روک لیا۔ بڑی رسان اور نرمی کے ساتھ گپ شپ شروع کر دی۔ وہ ہمارے پختون بھائیوں سے بھی زیادہ گلابی اردو بول رہے تھے کہا آپ لوگ شکل سے پشاوری نہیں لگتے، کہاں سے آئے ہو؟ ان دونوں میں جو بڑا دکھائی دیتا تھا، اس نے جواب دیا ہم افغانستان سے آئے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہمیں ہوٹل میں کام مل گیا ہے۔ کہا، کابل میں جنگ ہو رہی ہے، پورے افغانستان پر امریکہ قبضہ کرتا جا رہا ہے اور تم یہاں پشاور میں نوکری کر رہے ہو؟ اس پر نوجوان قدرے تلخی سے مگر مسکراتے ہوئے جواب دیا، ہم بے غیرت نہیں ہیں کہ مزہ کریں، ہمارے گھر والے بھی ادھر قبائل میں ہیں۔ ہم چھ چچا زاد بھائی ہیں۔ تین ہم جو اس ہوٹل میں ہیں اور باقی تین افغانستان میں جہاد کرتے ہیں۔ ہم تینوں اپنی چار ماہ کی جہادی ڈیوٹی کر کے واپس آئے ہیں، تو ہمارے بھائی جو نوکری پر تھے، وہ جہاد کے لئے چلے گئے۔ ہم اپنے گھر والوں کیلئے نوکری کرتا ہے اور وہ ادھر مسلمانوں کے لئے جہاد پر ہیں۔ اللہ ان کی حفاظت کرے جب چار ماہ کے بعد وہ یہاں واپس آئے گا، تو ہم اپنے طالبان رہنمائوں کے حکم کے مطابق ادھر چلا جائیگا۔ یہ اسی سٹریٹجک ڈیتھ کا نتیجہ ہے کہ مشرف حکومت کی طرف سے امریکہ کا ساتھ دینے کے باوجود مذکورہ جانبازوں کے خاندان پاکستان کے قبائلی علاقوں خیبر پختونخواہ کی خیمہ بستیوں، بعض رشتہ داروں کے حجروں اور کرایے کے مکانوں میں محفوظ تھے اور ان کے جواں جہاد کے ساتھ اپنے خاندانوں کی کفالت کی ذمہ داری بھی پوری کر رہے تھے۔ بھیک مانگنے، ہاتھ پھیلانے اور بے چارگی کی تصویر بننے کی بجائے وہ خوش دلی اور جوش و جذبے کے ساتھ دہری ذمہ داری نبھاتے رہے۔ اسی طرح بیس برس گزر گئے اور آج حملہ آور امریکہ انہی سے واپسی کیلئے محفوظ رستے کی بھیک مانگ رہا ہے۔ وہ بھی پاکستان کی سفارش پر۔
وہ جنگ جو جنہوں نے ابلتے ہوئے گرم اور جوان خون کے بدلے خوفناک دشمن کو زیر کرکے آزادی چھین لی ہے وہ اس پاکستان کی سفارش کیوں مانیں۔ جس کے سربراہ نے ان کے دشمن کا ساتھ دیا؟ اس سوال کا جواب بھی اس کہانی میں پوشیدہ ہے۔ آخر وہ کوئی تھا جس نے اس خاندان کو اپنی پناہ میں رکھا اور دوسرا وہ جس نے حساس علاقے کے حساس ترین ہوٹل میں ملازمت دلوائی، ایک دو نہیں نصف درجن بھائیوں کو، انہی میں کوئی وہ بھی تھا، جس نے افغانیوں کی سکیورٹی کلیرنس دی، یہ وہی لوگ ہیں جو آج امریکہ کی گلو خلاصی کے لئے سفارشی بنے۔ Strategic depth کی پہلی کہانی سوویت یونین کے افغانستان پر حملے سے شروع ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے دونوں کہانیاں راقم نے کانوں سنیں اور بڑی حد تک آنکھوں دیکھی بھی ہیں۔
27دسمبر 1979ء کو کمیونسٹ روس نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے لئے اپنی افواج کابل میں اتاریں تو افغانستان کے ساتھ ساتھ یہ ایران اور پاکستان کی مسلم ریاستوں کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی تھی۔ کیونکہ گزشتہ دہائیوں میں روس وسط ایشیا کی ساری مسلم ریاستوں پر قبضہ کر کے انہیں سوویت یونین میں ضم کر چکا تھا۔ روس کے افغانستان پر حملے کے ایک دن بعد ہم چار لوگ صدر پاکستان ضیاء الحق کے گھر (آرمی ہائوس)میں رات کے کھانے پر مدعو تھے، کھانے کی میز پر گفتگو کا آغاز ہی یٰسین بھائی کی طرف سے روس کی افغانستان میں مداخلت سے ہوا، تو جنرل ضیاء نے کہا ہم کافی دیر سے اس خطے میں روسی پیش قدمی کا خطرہ محسوس کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکہ کے صدر جمی کارٹر کا اس بارے میں پیغام موصول ہوا ہے۔ ہم نے بھی آج دن بھر اور رات گئے جی ایچ کیو میں طویل مشاورت کی ہے۔ امریکی صدر نے روسی حملے پر اپنی تشویش کا اظہار تو کیا ہے لیکن ساتھ ہی ہمیں محتاط رہنے اور خاموشی سے انتظار کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے، مگر ہم جانتے ہیں کہ روس افغانستان کے پتھروں سے سر پھوڑنے نہیں آیا، تین صدیوں سے اس کی منزل گرم پانیوں تک رسائی ہے وہ قدم بہ قدم اس کے قریب آ چکا۔ ہمیں کوئی شک نہیں اس کا اگلا ہدف پاکستان ہو گا، بلوچستان پر حملہ کر کے وہ گوادر پر قبضہ کرنا چاہے گا۔ مگر پاکستان پر حملہ آور ہونے کیلئے اسے افغانستان پر قبضہ مکمل کرنے کے بعد بھی کم از کم دس سال کی مہلت درکار ہو گی کیونکہ موجودہ افغانستان میں روس زیادہ سے زیادہ ایک سے دو لاکھ فوج رکھ سکتا ہے، اس سے زیادہ کیلئے رسل و رسائل (لاجسٹک) کے مسائل ہیں اور افواج کے لئے کھانے پینے رہنے سہنے کیلئے اور طیاروں کے لئے جدید ہوائی اڈوں کی ضرورت ہو گی۔ ان سب سہولتوں کو بنانے اور فراہم کرنے کیلئے کم از کم دس برس درکار ہونگے۔ تب وہ اس علاقے میں دس لاکھ فوجیں اکٹھی کر کے پاکستان اور پھر ایران پر حملہ آور ہو گا۔ اس پر ڈاکٹر بشارت الٰہی کا سوال مختصر تھا۔ تو پھر آپ نے کیا سوچا؟ ضیاء الحق بولے، جیسا پہلے عرض کیا روس کو افغانستان پر قبضہ مکمل کرنے، پرامن بنانے اور افواج کیلئے اسلحہ چھائونیاں خوراک، تعمیرات کیلئے بہت سا روپیہ اور کم از کم دس سے پندرہ برس درکار ہونگے۔ چنانچہ ہم اسے یہ وقت نہیں دیں گے کہ وہ افغانستان میں آرام سے بیٹھ جائے، ہم دس سال بعد روس کی ایک ملین فوج کے خلاف پاکستان میں لڑنے کی بجائے، اسکی لاکھ دو لاکھ فوج کے مقابل افغانستان میں لڑیں گے۔
یہی سٹرٹیجک ڈیبٹھ ہے کہ افغانستان کی سرزمین ہمارے لئے نعمت ثابت ہوئی۔ افغان مجاہدین نے نہ صرف وہاں پر اپنی جنگ لڑی بلکہ اس جنگ کی گرم بازاری کو پاکستان میں داخل نہیں ہونے دیا۔ مگر یہ جغرافیائی وسعت و گہرائی یک طرفہ نہیں تھی۔ افغانستان کے مجاہدین نے اپنے خاندانوں بچوں عورتوں کو زیادہ تر پاکستان اور کچھ کو ایران بھجوایا۔ دونوں ملکوں نے انہیں پناہ دی، ان کا ضروری خیال رکھا، مجاہدین کو اسلحہ دیگر ضروریات اور سستانے کے لئے پرامن ماحول فراہم کیا۔ افغان مجاہدین کے لئے پاکستان سٹریٹجک ڈیتھ تھا۔
جنرل حمید گل کی اس بات کو پھر سے یاد کیجیے کہ اس دور کی جب تاریخ لکھی جائے گی تو مورخ لکھے گا، پاکستان نے امریکہ کی مدد سے افغانستان میں روس کو شکست دی اور اس کے ساتھ ہی اس کا دوسرا فقرہ ہو گا کہ پھر پاکستان نے افغانستان میں امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکست دی۔
ہمسائے ہمارے دوست ہوں، جن کے ساتھ دفاعی، سیاسی، سفارتی، اقتصادی ہم آہنگی ہو تو وہ آپس میں تمام خطرات کے خلاف دفاعی حکمت عملی کا حصہ بن جاتے ہیں۔