یقینا پرویز الٰہی قومی سطح پر بڑے کردار کی تیاری کررہے ہیں، یہ سوتے میں آیا خواب ہے، نہ اچانک ابھرنے والا خیال، بھان متی کا کنبہ جو نواب زادہ نصراللہ خان ہر حکومت کے خلاف جمع کیا کرتے تھے، اب اس کا قرعہ چوہدری برادارن کے نام نکلاہے۔
الیکشن 2018ء سے چند دن پہلے ہارون رشید کے ہمراہ پرویز الٰہی شجاعت حسین کے گھر ہم چاروں کھانے پر تھے، تب ان سے عرض کیا کہ آپ کی قومی سیاست میں بڑے کردار کا آغاز ہونے والا ہے، یہ سن کر وہ تھوڑا جھجکے، شرمائے اور کہا، نہیں، ہم عمران خان کے ساتھ مل کر انتخاب میں جارہے ہیں، آخر تک ان کی حمایت جاری رکھیں گے، عرض کیا، جلد ہی عمران خان اقتدار میں ہوں گے، نواز شریف تا حیات نااہل ہوچکے، کرپشن کے الزامات میں پورے خاندان کی دھنائی ہوگی، آصف زرداری اپنی کیے کو بھگتیں گے اور مولوی صاحبان در بدر، اس وقت سب کو پناہ درکار ہوگی اور وہ پناہ گاہ آپ انہیں فراہم کریں گے، سوال آیا، کہ ہم انہیں سہارا کیوں دیں گے؟ اس لیے کہ آپ سیاست میں زیادہ عرصہ چھوٹے حصہ دار (جونیئر پارٹنر ) رہ نہیں سکتے، علاوہ ازیں پیپلز پارٹی قومی سیاست سے نکل چکی، نواز شریف کی دائمی نااہلی اور بدعنوانی کے بڑے الزامات کے بعد قومی سیاست میں خلاء پیدا ہونے کو ہے، اس خلاء کو ہر صورت پُر ہونا ہے، اسے کوئی حقیقی قیادت پُر کرے گی یا کوئی قیادت مصنوعی طور پر پیدا کی جائے گی۔ عمران خان اس وقت ہمارے سیاست کے بڑے اور واحد کھلاڑی کے طور پر موجود ہے، مقابلہ کی دوسری ٹیم کے بغیر کھیل جاری نہیں رہ سکتا۔ کوئی فوج سرحدوں کی حفاظت کے لیے صرف اگلے مورچوں پر اکتفا نہیں کرتی، ناگزیر حالات میں پیچھے ہٹنے کے لیے عقب میں بھی مضبوط مورچوں کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے، خلاء کو پُر اور ضرورت کو پورا کرنے کی نوبت آیا چاہتی ہے۔ حکومت عمران خان کے پاس ہے، ممکن ہے وہ برسوں اس پر قابض رہے، پھر بھی ایک مضبوط اور بڑی پارٹی اور قیادت کی ضرورت ہے، جو منتظر حکومت کا کردار ادا کرے، یہی ریاست کا تقاضا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت بھی۔
سوال یہ ہے کہ جب ماضی کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا دمِ واپسیں ہے، کوئی پُرکشش یا شعلہ فشاں بھی موجود نہیں، تو آج کے موجود لوگوں میں کون بروئے کار آسکتا ہے؟ جن حالات کا سیاسی جماعتوں کو سامنا ہے، یہ حال ہی میں پیدا نہیں ہوئے، بلکہ دس سال پہلے نمایاں ہونے لگے تھے، پیپلز پارٹی کی موت 1997ء میں ہوچکی تھی، مگر اسے مصنوعی سانسوں پر زندہ رکھا گیا، نواز شریف کازوال پرویز مشرف کی برطرفی پر فوج کے ردّ عمل میں نمایاں ہوگیا تھا، مگر اس کا انجام بھی 2018ء میں ہوا، عمران خان وزیراعظم ہے، دو بڑے صوبوں میں ان کی حکومت، تیسرا صوبہ اتحادی، صرف سندھ ہے جس کی دیہی حصے میں پیپلزپارٹی بچ رہی مگر" بکرے کی ماں تب تک خیر منائے گی"۔
حکومت کو کسی مقبول سیاسی شخصیت یا جماعت کا سامنا نہیں مگر محرومینِ سیاست واقتدار تا دیر سب کے ساتھ انتظار نہیں کرسکتے، جو محروم ہیں وہ اسے پانے کے لیے، اور جنہیں اقتدار میں تھوڑا ملا وہ زیادہ کے لیے بے چین ہوئے جاتے ہیں۔ تین چیزیں سیاسی اتحاد بناتی ہے، مجبوری، ضرورت اور حسد۔ اب یہ تینوں جمع ہوکر عنقریب عمران خان کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں گی۔ عمران خان کے خلاف بغض کا یہ عالم ہے کہ 2008ء میں وہ ابھی معمولی درجے کا لیڈر تھا، تب ہی ساری سیاسی جماعتیں اس سے بدکنے لگی تھی، 2013ء کے بعد پارلیمانی اپوزیشن میں چھوٹی پارٹی تھا مگر پوری حکومت اور ملک بھر کی سیاسی جماعتیں اور گروہ اس کے خلاف متحد ہوگئے، یہ صدیوں کی سیاسی تاریخ میں منفرد واقعہ ہے، جلد ہی حکومت کے اتحادی، مخالف اور تحریک انصاف ہار جانے اور ٹکٹس سے محروم رہنے والے سیاستدان متحد ہوکر آئندہ انتخاب میں اس کے خلاف صف آرا ہوں گے، وہ سارے لیڈر جنہوں نے ماضی میں اتحاد بنائے اور ان کی قیادت کرتے ہوئے بڑی بڑی جابر حکومتوں کو دھول چٹائی، ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے، آخر میں قاضی حسین احمد، نصراللہ خان اور پیر پگارا بھی پر لوگ سدھارے۔ بعد کی نسل میں جاوید ہاشمی تھے جو مختلف النوع قیادتوں کو اکٹھا کرتے مگر ان کی بھینس تالاب میں ہے، فخر امام، عابدہ حسین تھک ہار لئے، بلخ شیر اور شیر باز مزاری کو بڑھاپے نے آن لیا، لے دے کے چوہدری برادران بچ رہے سیاست میں وضع داری کی آخری نشانی ہے، وہ مقبول اور متحرک عمران خان کے مقابلے میں ہُنر مند سیاستدان کے طور پر سامنے آئیں گے۔
چوہدری برادران اور ان کے خاندان کو سیاست کا وسیع تجربہ ہے، سیاست میں ان کا طرزِ عمل ہمیشہ متوازن رہا، کسی بھی سیاسی جماعت یا حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اپنی انفرادیت کو قائم رکھا، نواز شریف کی قیادت میں ان کے ساتھ رہے اور پارٹی میں رہتے ہوئے اور چھوڑنے کے بعد بھی ان کی جارحانہ مخالفت کا سامنا کیا مگر خود مخالفت میں حد سے نہیں گزرے، پیپلز پارٹی والے جو انہیں بھٹو اور بے نظیر کا قاتل کہتے رہے انہی کی حکومت میں پرویز الٰہی نائب وزیراعظم بنے مگر زیادہ قربت اور خوش آمد سے احتراز کیا، نواز شریف ان سے شدید نفرت کا اظہار کیا کرتے مگر انہوں نے نواز شریف کو پاکستان سے باہر بھجوانے میں اعلانیہ حمایت کی اور درپردہ مدد بھی۔ چوہدری برادران ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے فوجی ادوار میں شریک اقتدار رہے، انہوں نے اقتدار کے دوران یا بعد میں کبھی اداروں کے خلاف زبان درازی نہ کی، نہ ہی اپنی سیاست کے لیے سرکاری یا ریاستی رازوں کو چھیڑا، اس خوبی نے انہیں اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد بخشا ہے۔ آج بھی ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ شریکِ سفر سیاستدانوں اور کارکنوں کو ریاست کی نگاہِ گرم اور حکومت کی مشینری سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ مختلف سیاسی گروہوں، جماعتوں اور نظریات کو اکٹھا کرنے کے لیے وسیع دسترخوان، جگہ اور وسائل فراہم ہیں، حلیفوں کے ساتھ حریفوں کی دلداری کا گُر جانتے ہیں، روٹھوں کو جلد منالیتے اور سیاسی کارکنوں کی ضرورتوں کا ہمیشہ خیال رکھتے، نوکر شاہی کا احترام کرتے اور ان سے کام نکلوانے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں، وہ چرب زبان ہیں نہ باتوں میں طاق، پھر بھی میڈیا کے ساتھ ان کے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے، مسلم لیگیوں کی خوبی ہے کہ جب یہ محرومِ اقتدار ہوں تو سب لیگیں اکٹھی ہونے کو بے قرار ہونے لگتی ہے، اب ان کی بے قراری عروج پر ہے۔ شہباز شریف شروع دن سے چوہدریوں سے مل بیٹھنے کے حامی تھے مگر نواز شریف کی ہٹ دھرمی کے نذر ہوگئے، اب نواز شریف زمین بوس ہے اور شہباز شریف بے تابِ تمنّا اور ان کی جی ٹی روڈ کی قیادت بشمول لاہور پنڈی کے ممبرانِ اسمبلی وہ چوہدری نثار ہوں یا شاہد خاقان، انہیں چوہدریوں کے ساتھ مل بیٹھنے میں کوئی تأمل نہیں۔
عمران خان کی طاقتور، متحرک اور شعلہ فشاں شخصیت کے مقابلے میں چوہدریوں کی دھیمی مگر تجربہ کار قیادت انتخابی حلقوں کے ماہرین کی فوج کے ساتھ میدان میں اترے گی، نواز شریف کے سارے ڈھولچی لمحوں میں ان کے گرد جمع ہوجائیں گے جس طرح وہ مشرف کے دور میں تھے۔ ان کی خوبیوں کے ساتھ دو بڑی کمزوریاں ہیں، یہ کہ اپنا ما فی الضمیر پوری فصاحت سے بیان نہیں کرسکتے اور جلسہ عام منعقد کرنے کے لیے عمران خان کی طرح پُرکشش ہیں نہ بھٹو کی طرح چرب زبان۔ اور صحت کے مسائل ان کی دوسری بڑی کمزوری ہے، تیسری نسل تک یہ اپنی سیاست اسی صورت قائم رکھ سکیں گے جب انہیں جلد ہی ایک بڑا سیاسی کردار ادا کرنے کا موقع مل جائے تو۔