بچپن تیزی سے گزرا، سکول، کالج، یونیورسٹی سے ہوتے ہوئے پارلیمنٹ میں آپہنچے، نئے لوگوں سے ملاقاتیں، تعلقات، دوستیاں۔ فخر امام قومی اسمبلی کے اسپیکر بنے، ان کی طرف سے برطانوی پارلیمانی روایات کی پیروی اور قانون پر عملداری پر اصرار، جونیجو حکومت کو زیادہ پسند نہ آیا اور انہیں اسپیکر کے عہدہ سے ہٹانے کے لیے تحریکِ عدم اعتماد پیش کردی گئی۔ اس تحریک کو ناکام بنانے کی ناکام کوشش کے لیے ممبران اسمبلی کے گھروں میں جانے کا قصد ہوا۔ بیگم عابدہ حسین، جاوید ہاشمی اور دیگر ممبران پارلیمنٹ کے ہمراہ دو گاڑیوں میں سوار گجرات کے گاؤں میں پہنچے۔ کھیتوں کے بیچوں وبیچ بلند ٹیلے پر بڑی سی حویلی اور اس سے ملحقہ ایکڑوں پر پھیلا ہوا ڈیرہ جس کے گرد بلند دیواریں اٹھائی گئی تھیں۔ عابدہ حسین گاڑی سے اتریں اور مسکراکے ڈیرے کے پرانے مالک کا نام لیا تو بچپن کی یادیں تازہ ہوگئی، یہ وہی نام تھا جو عشروں پہلے ہمیں پراسرار اور افسانوی سا لگتا۔ ہمارے علاقوں اور دیہاتوں کے ڈھور، ڈنگروں کی آخری آرام گاہ۔ وہ دور گذر چکا تھا، مذکورہ افسانوی کردار کا دبلا پتلا پستہ قد مگر جی دار، خوش گفتار اور مہمان نواز بیٹا اب پارلیمنٹ میں ہمارا ساتھی تھاجو بعد میں قربت بڑھنے سے دوست بنا خوشگوار اور بے تکلف۔
ساٹھ سال پہلے مغربی پنجاب کے پانچ دریا ؤں کے کنارے بسنے والے قدیم خاندانوں میں چوری پیشہ تھا، مشغلہ اور جوانمردی کی علامت بھی۔ یہ لوگ عموماً گاؤں سے کچھ فاصلے پر سرکنڈوں سے بنائے جھونپڑوں یا چراگاہوں میں بنے کچے کوٹھوں میں رہتے، خاندان کے سارے کام کاج، لین دین، شادی بیاہ، خوشی غمی اور دیگر اہم فیصلے عورتوں کے ہاتھوں انجام پاتے۔ عورتیں ہی گھر بار کی ناظم اور فیصلہ ساز تھیں، جوان مرد دن بھر درختوں کی چھاؤں میں بچھی چارپایوں پر لیٹے اینٹھتے رہتے، بڑے بوڑھے مال مویشی کو چرانے کے لیے چراگاہوں میں چھوڑ دیتے اور شام کو ڈیرے پر واپس لے آتے، طرح دارگھٹے ہوئے جسموں کے چنے ہوئے بہادر نوجوانوں کا کام رات کے دوسرے پہر شروع ہوتا۔ بیل، بھینس اور گھوڑیوں کی چوری کے لیے دو دو، تین تین ٹولیوں کی صورت میں مطلوبہ گاؤں کے گھر یا ڈیرے کی طرف روانہ ہوجاتے، ان کے پاس آتشیں اسلحہ یا جان سے ماردینے والے اوزار نہیں ہوتے تھے، ایک لاٹھی یا زیادہ سے زیادہ برچھی ان کا ہتھیار تھا، یہ نوجوان دنگا فساد اور شورشرابے کے بغیر اپنا کام بڑی خاموشی اور چابک دستی سے انجام دیتے، کوئی آہٹ پیدا کیے بغیر ان کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ چوری ہونے والا مال مویشی بھی ان کی موجودگی میں "گربہ پا"ہوجاتا کہ رکھوالی کے لیے باڑے میں سوئے ہوئے مالک کو کانوں کان خبر نہ ہوتی، وہ صبح کی اذان تک بے خبر سویا رہتا، اور ان کی آنکھ کھلنے تک ان کے مویشی میلوں کا سفر طے کرکے محفوظ مقام تک پہنچ چکے ہوتے۔
مویشیوں کو ہانک لے جانے والے نوجوانوں کے ڈیرے اتنے بڑے اور محفوظ نہیں تھے کہ ان میں بڑے جانوروں کو چھپانے، رکھنے اور ٹھکانہ لگانے کا کام ہو سکتا، علاقے کا کوئی بڑا مگر جرائم پیشہ جاگیردار یا زمیندار یہ کام کیا کرتا تھا، جسے ہم "رسہ گیر" کے نام سے جانتے ہیں۔ چوری کرنے والے جوان گویا اس "رسہ گیر" کے کارندے تھے جو نہ صرف ان کے چوری شدہ مویشیوں کا خیال رکھتا بلکہ ان نوجوانوں کی ضروریات پوری کرتا، انہیں پناہ دیتا، پولیس حکومتی اہلکاروں اور ماہر کھوجیوں سے بچائے رکھتا۔ اگر کوئی پکڑا جاتاتو اس کی ضمانت کا بندوبست کرتا، مقدمے کی پیروی وغیرہ جاگیردار کا کام تھا، ان جاگیرداروں کے لیے یہ پیشہ نہیں محض شغل تھا وہ اس طرح اپنا اثر ورسوخ بڑھانے، علاقے میں اپنی دھاک بٹھانے اور اپنے حریفوں کو نیچا دکھانے یا انتقام لینے کے لیے بھی یہ کام کرواتے تھے، جو چوری کرتے پکڑا جائے اسے اناڑی خیال کیا جاتا اور اگر پولیس پکڑ لیتی تو کسی صورت جرم کا اقرار کرتا نہ ہی پولیس کے تشدد پر خواہ یہ کتنا ہی خوفناک، بھیانک ہی کیوں نہ ہو اپنے ساتھیوں کی نشاندہی کرتا اور نہ ہی واردات کا اعتراف، اور نہ ہی مال چھپائے جانے جگہ کی نشاندہی کرتا۔ کسی حالت میں بھی اپنے آقا کا نام اس کی زبان پر نہیں آتا۔ کتنے ظلم اور تشدد سہہ کر جان سے گذر جائے مگر اعتراف جرم ہرگز نہیں۔ یہی ان کا سب سے قابل فخر کارنامہ خیال کیا جاتا۔ ایسے ڈھیٹ کو بہادر، جانباز خیال کیا جاتا اور دور نزدیک اس کی شہرت پھیل جاتی اور ہم چشموں میں اس کی بڑی قدر ومنزلت اور عزت افزائی ہوا کرتی۔
ہمارے والدین مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے سرگودھا کے گاؤں "چک 42ج ب" میں آن بسے تھے، گاؤں کے مشرق میں ایک چھوٹی سی نہر تھی، بچپن میں گرمیوں کی کتنی ہی دوپہریں اس نہر میں نہاتے اور غوطہ لگاتے بسر ہوئیں۔ نہر کے مغربی کنارے ہمارے کھیت تھے جنہیں یہ نہر سیراب کرتی اور مشرقی کنارہ ضلع جھنگ میں تھا، جھنگ میں ہمارے قریبی ہمسایہ مشہور خاندان کے بڑے بزرگ پنجاب بھر کے مشہور رسہ گیر تھے، علاقے میں بااثر خیال کیے جاتے، حکومت کے بڑے بڑے افسران ان کے مہمان ہوتے، انتخاب میں حصہ لینے والے سیاستدان ان کے ڈیرے پر حاضریاں بھرتے۔ مذکورہ جاگیردار اور ان کے کارندے ضلع جھنگ کے مکین تھے مگر ان کی ترک تازیوں کا نشانہ ضلع سرگودھا کے گاؤں ہوا کرتے تھے۔ ان کے چوری شدہ ڈھور ڈنگر کا کھرا ختم کرنے کے لیے دریائے چناب میں سے گذر کے چینوٹ کی طرف لے جایا جاتا پھر وہاں سے ان جانوروں کا نیا سفر شروع ہوتا اور طویل فاصلہ طے کرکے مغرب کی سمت دریائے جہلم کو عبور کرتے اور گجرات میں دوسرے رسہ گیر کے علاقے میں پہنچادیئے جاتے۔ گجرات اور جھنگ کے ان جاگیرداروں کے درمیان" ساجھہ" تھا۔ جھنگ والوں کا چرایا گیا مال مویشی گجرات اور گجرات والوں کا جھنگ میں پہنچ کر اپنا کھرا نشان سب گنوا دیتا۔ جھنگ والے کے قریبی ہمسایہ ہونے کی وجہ سے اس کا پتہ ٹھکانہ ہم جانتے تھے۔ دریائے چناب، جہلم، گجرات مویشیوں کی نقل مکانی، پولیس کی کوششیں، چوروں کی وارداتیں، بعد از گرفتاری تشدد، قید وبند، ثابت قدمی سب کچھ بڑا افسانوی سا لگتا تھا۔
وہ افسانوی کردار جس کا ذکر بچپن سے لڑکپن اور جوانی تک قدرے خوف مگر دلچسپی سے سنتے آئے تھے اب قصۂ پارینہ ہوگئی مگر پارلیمنٹ کا ممبر بننے کے بعد ان اداروں کا پس منظر، افادیت سب جاننے کا موقع ملا، بطور خاص غلام محمد مانیکا کے ساتھ دوستی اور سلطان احمد چانڈیو کی ہمسائیگی میں ان کی زبانی اس گورکھ دھندے کی کچھ گتھیاں سلجھیں، پس منظر جانا، تاریخ معلوم ہوئی۔ چانڈیو صاحب اور مانیکا کی داستان آئندہ کبھی بیان ہوگی، فی الوقت یہ ادھوری داستان اپنے سامنے پیش آنے والے اپنے ہی گاؤں کی واردات ہے۔
لالو گجر(لعل دین)نے اپنی گزر اوقات کے لیے بکریاں پال رکھی تھی، دن بھر میں نہر کے کنارے لیے پھرتا، کیکر کی پھلیاں، کہیں بیری کے پتے، کھیت کے منڈیروں پر اُگی گھاس سارا دن بکریوں کا پیٹ بھرنے کے لیے محنت میں گزرتا تاکہ وہ اس ریوڑ کی آمدنی سے اپنے بچوں اور بوڑھی ماں کا پیٹ پال سکے۔ لالو گجر گھبرو جوان تھا، مضبوط جسم، دلیر فطرت۔ اس کا دن اور راتیں بکریوں کے ساتھ تھیں۔ وہ سارا دن کھیتوں کھلیانوں میں لیے پھرتا اور رات کو باڑے میں ان کے قریب چارپائی ڈالے سورہتا۔ گاؤں کی آخری گلی کے نکّر پر اس کا گھر تھا، گھر کے باہر تالاب کے کنارے لکڑیوں کو جوڑ کے باڑہ بنایا گیا تھا، اس باڑے میں رات کو بکریاں بند کردی جاتیں اور ان کے قریب چارپائی ڈالے لالو سویا کرتا تھا کہ آوارہ کتوں اور نہرپار سے آنے والے چوروں سے ان کی حفاظت کرسکے۔ (جاری)