مقابلہ آدمی کی سرشت میں داخل ہے۔ پیدائش کے وقت بچے کا رونا مقابلے کا اعلان ہوتاہے۔ رونا اُس کے وجود کی پہچان ہوتاہے کیونکہ ابھی قوت بیان سے عاری ہوتاہے۔ زندگی نام ہی مقابلے کا ہے۔ یہ مقابلہ گود سے لحد تک جاری رہتاہے۔ اس مقابلے میں اُس کے ساتھی او رمخالف ہر وقت اُس کے اردگرد رہتے ہیں۔ مقابلہ انسانی وجود کی ضرورت ہے جس کی صلاحیت اُسے پیدائش کے وقت سے ودیعت ہوتی ہے۔ مقابلے کی ابتدا رزق کے حصول کے لئے ماں کی چھاتیوں کی طرف لپکنے سے شروع ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنے طریقے اور انداز بدلتی رہتی ہے۔ حصول رزق کے لئے زندگی بھر آدمی کی جدوجہد جاری رہتی ہے اور یہی جدوجہد اُسے طرح طرح کے مقابلوں کے لئے تیارکرتی ہے۔ کیوں؟ اِس لئے کہ مقابلے کا ماخذ حصول رزق کے لئے تگ ودو ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مقابلہ ہمیشہ دو یا دو سے زیادہ افراد یا فریقوں میں ہوتا ہے۔ اس لئے کہ مقابلہ صرف ہم ذات سے ہی ہوسکتاہے۔ آدمی کا مقابلہ آد می سے ہی ہوگا کسی پہاڑ سے نہیں۔ ملک او رقوم بھی جنگ کسی دوسرے ملک یا قوم سے ہی کرتے ہیں۔ جانوروں اور پرندوں سے نہیں۔ قدرتی آفات سے جنگ او رمشکلات پر قابو پانے کے لئے جدوجہد مقابلے کی جنگ نہیں ہوتی کیونکہ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے دونوں ایک دوسرے سے اپنی ذات او ر سرشت کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ موت وحیات کی کشمکش بھی مقابلہ نہیں ہوتا کیونکہ موت نے ہرحال میں وارد ہونا ہوتاہے۔ اِس لئے کہ مقابلے میں ایک فریق نے جیتنا اور ایک نے ہارنا ہو تاہے۔ جہاں جیت اور ہار کا قضیہ بیچ سے نکل جائے مقابلہ اپنے معنی کھودیتاہے۔ مقابلے کا مطلب ہی دوسرے فریق کو گرادینا، پیچھے چھوڑدینا اور مٹا دینا ہوتا ہے۔ ہر مقابلے کا انجام یا ہار ہوتی ہے یا جیت۔ موقع محل کے مطابق ہار اور جیت کے تسلسل کا نام ہی زندگی ہے۔
کونسی زندگی؟ صرف اور صرف انسان کی زندگی کیوں؟ اِس لئے کہ جانوروں میں مقابلہ نہیں ہوتا۔ حیوانات ونباتات اور جمادات میں کوئی مقابلہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح فرشتوں اور جنات میں کوئی مقابلہ نہیں ہوتا۔ مقابلہ صرف عقل وشعور کے حامل انسانوں کے درمیان ہوتاہے عشق میں بھی کوئی مقابلہ نہیں ہوتا کیونکہ ہر انسان میں عشق نہیں ہوتا اِس سلسلے کا ایک شعر ملاحظہ ہو ؎
گر بازی عشق کی بازی ہے، جو چاہو ہولگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
مقابلہ کے لئے حسد بغض عناد، ضد اور ہٹ دھرمی کے ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس ایندھن کو مزید ہوا دینے کے لئے منافقت ریاکاری، دھونس دھاندلی، غلط بیانی اور جھوٹ فریب لازمی امر کا کردار ادا کرتے ہیں مقابلے کا تیسرا فریق تماشائی ہوتے ہیں۔ تماشائیوں کے لئے ہی مقابلے برپا ہوتے ہیں۔ اگر آدمی کی ہاراُسے ذلیل اور جیت اُس کی وا ہ واہ نہ کرائے تو مقابلے کا سار ا مزہ ہی کرکرا ہوجاتاہے۔ کیا مقابلے کامطلب صرف تذلیل اور واہ واہ ہی ہوتاہے یا حصول رزق کے ساتھ ساتھ کسی اور اعلیٰ اور ارفع مقصد کے لئے بھی مقابلے ہوتے ہیں؟ یہ بات ذہین نشین رہے کہ اپنی ذات اور مفاد کے لئے ہر مقابلہ دنیاوی اغراض ومقاصد کے حصول کے دائرے میں ہی آتاہے۔ ایسا کوئی بھی مقابلہ اس دنیاوی حد ود سے باہر نہیں نکل سکتا۔ مسلمان ہوتے ہوئے ہماری سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ ہم اس جہان رنگ و بو کی بے مایہ کے لئے عمر بھر لمحہ لمحہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے مقابلوں کا شکاررہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہوش و حواس اور تاب و تواں گنوا دینے کے بعد محسوس کرتے ہیں کہ ؎
خواب تھا جو کچھ کے دیکھا جو سنا افسانہ تھا
ہم اچھے خوبصورت اور آرام دہ مکان بنا کر اُس وقت بڑے اہتمام سے ڈرائنگ رومز سجاتے ہیں جب اپنوں اور پرائیوں سمیت کوئی ملنے نہیں آتا۔ بڑے بڑے بھوت بنگلوں میں پوتوں، نواسوں کے لئے ترسنے والے بوڑھے جوڑوں کو دیکھ کر ہول اٹھتاہے جسے دیکھنے کے بعد زندگی بھر کی مقابلہ بازی بے معنی ہوجاتی ہے، یہ برائی کے لئے برائی کے ذریعے مقابلے کا منطقی نیتجہ ہے۔
پھر اچھا مقابلہ کیا ہوتاہے؟ اچھائی کے مقابلے کا ایندھن کیا ہوتاہے؟ کیا اِس ایندھن کو ہوادینے کے لئے منافقت، ریاکاری دھونس دھاندلی، غلط بیانی اور جھوٹ فریب کی ضرورت نہیں ہوتی؟ یہیں تو آکے سمجھ کا میاب ہوتی ہے سمجھ کا نکھار واضح ہوجاتاہے یہی تو وہ مقام ہے جہاں دل سوچنے اور دماغ دھڑکنے لگتاہے جب بیماری صحت کا روپ دھارنے لگتی ہے۔ بادل چھٹ جاتے ہیں اور دُھند اور کہر سے مطلع صاف ہوجاتاہے۔ یہاں تک کہ بڑی آسانی سے تجھ تک رسائی کرسکوں اُس میدان میں جہاں ہرکوئی تجھ تک پہنچنے میں سبقت لے جانے کے لئے کوشاں ہے۔ اچھائی کے لئے سبقت لے جانے والوں کے درمیان تگ ودو مقابلہ نہیں ہوتا۔ کیوں؟ اِس لئے کہ قرب خداوندی کے لئے دوڑ لگانے والوں کے درمیان جدوجہد دوڑ میں شامل کسی کو نیچا دکھا نے یا اپنی بڑائی ثابت کرنے لئے نہیں ہوتی۔ کیونکہ قرب خدا کے لئے مقابلہ اپنے ہی نفس کے خلاف ہوتاہے کسی دوسرے مدمقابل فریق کے ساتھ نہیں۔ اسی بنا پر کھلی چھٹی مل جانے کے بعد ابلیس خدا کے بالمقابل فریق کی حیثیت سے نہیں۔ صُور پھونکے جانے پر دنیا کی ہر چیز کے ساتھ ابلیس کی چھٹی بھی ختم ہوجائے گی۔ ایک اور بات یہ ہے کہ اچھائی کے مقابلے میں کوئی تیسرا فریق نہیں ہوتا یہاں تو آدمی نے کائنات کے واحد اور لاشریک مالک کو اُس کے حبیبؐ پاک کی اطاعت میں اُسکے احکامات کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہوتا ہے کیونکہ اطاعت کا ایک سجدہ جسے ہم گراں سمجھتے ہیں مقابلے کے ہزاروں سجدوں سے ہمیں نجات عطا کردیتاہے بھلا برائی اوراچھائی کا کیا مقابلہ؟
آئیے اِس موقع پر ایک بچے کی طرح دعاکریں
زندگی ہو میری پروانے کی صورت یارب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب
شمع کسی کے ساتھ مقابلے میں نہیں جلتی آ، خری لو تک اندھیروں میں روشنی پھیلانے کے لئے جلتی رہتی ہے۔