چین کے عظیم رہنما چیئرمین مائوزے تنگ نے بتایا تھا کہ صحیح خیالات کہاں سے آتے ہیں؟ اُن کے مطابق صحیح خیالات صرف او رصرف معاشرتی عمل سے جنم لیتے ہیں۔ معاشرتی عمل میں آدمی ایک مسلسل جدوجہد میں رہتاہے۔ اِس جدو جہد کے نیتجے میں کبھی وہ کامیاب ہوتاہے اور کبھی ناکام۔ دونوں صورتوں میں اُس کی جدوجہد اس کے لئے معنی خیز بن جاتی ہے۔ یہی جدوجہد جو اپنی کیفیت میں معروضی ہوتی ہے اُسے اپنی موضوعی حیثیت کا شعور عطا کرتی ہے۔ تبھی تو چیئرمین مائو نے اپنی بات کا آغاز اِس سوال سے کیا تھا کہ "صحیح خیالات کہاں سے آتے ہیں؟ کیا صحیح خیالات آسمان سے ٹپکتے ہیں؟ نہیں ! کیا یہ ذہین کے اندر راسخ ہوتے ہیں؟ نہیں!" صحیح خیالات صرف اور صرف معاشرتی تخلیقی عمل کا نیتجہ ہوتے ہیں۔ حواس خمسہ کے ذریعے چیزوں کا ادراک اورشعور آدمی کو اپنے وجود سے آگاہی عطا کرتاہے۔ یہاں صحیح خیالات کی آمد کا پہلا حصہ مکمل ہوجاتاہے۔ دوسرے حصے کی تکمیل کے لئے ان خیالات کو جو پہلے مرحلے کی عملی جدوجہد سے حاصل ہوئے دوبارہ مادی جدوجہد کی چکی میں پسنے کے لئے ڈالنے سے اُن کی افادیت یا بے مائیگی کا پتہ چل جاتاہے۔ یعنی مادی عمل سے خیالات کا دوبارہ مادی عمل میں ڈھلنا صحیح خیالات کی آمد یا ان تک رسائی کا دائرہ مکمل کرتاہے۔ اِس نظرئیے کی بنیاد پر عظیم ملک چین کے عظیم قائد نے چھ ہزار کلومیٹر پر محیط دنیا کی سب سے لمبی مارچ کی قیادت کرتے ہوئے ثقافتی انقلاب برپا کیا اور بالآخ چین کو عوامی جمہوریہ بنا دیا۔ اُس چین آزاد کیا جس چین نے چینیوں کو ایک اافیونی قوم بنادیا تھا۔ آج کے اِ س عظیم چین میں تبدیل کیا جس نے امریکہ کی سپر پاور کو اپنی اوقات دکھادی ہے۔ لیکن مسلمان کے صحیح خیالات وہاں سے ہر گز نہیں آتے جہاں سے مائو زے تنگ کو صحیح خیالات آتے تھے۔ مسلمان کیلئے صحیح خیالات حواس خمسہ کے ہوتے ہوئے وحی کے ذریعے آتے ہیں جس کا سلسلہ زمین پر آدم کے اُترنے کے ساتھ ہی شروع ہوگیاتھا۔ اس لئے ہمارے نزدیک صحیح خیالات کسی معاشرتی تخلیقی عمل کی بھٹی میں تیار ہونے کی بجائے ان برگزیدہ شخصیتوں کے وجود سے ملتے ہیں جنہیں عرف عام میں پیغمبر کیا جاتاہے۔ اپنی ترتیب اورہیئت کے لحاظ سے ان الہامی کتابوں میں صحیح خیالات ملتے ہیں جو نہایت پاک اور پاکیزہ وجودوں پر نازل ہوئیں۔ ایسی پاکیزہ شخصیتیں جنکی پاکی اور طہارت کے دشمن بھی قصیدے گاتے ہیں۔ وہ مقدس وجود جوہر قسم کی آلائیشوں اور گندگی سے پاک اور منزہ رکھے گئے۔
ہمارا موضوع صحیح خیالات کے منبع کے بارے میں جاننا ہرگز نہیں ہے۔ ہمارا آج کا موضوع ہے دلائل کی پیدائش کہاں ہوتی ہے؟ یعنی اگر اسے صیغہ واحد متکلم میں کہا جائے تو یوں کہا جائے گا "میری دلیل کہاں سے آتی ہے؟ " کیوں؟ اِس لئے کہ کوئی بھی شخص جب کوئی بات کرتاہے اور اپنے خیالات کا اظہار کرتاہے تو اس احساس کے ساتھ کرتاہے کہ جو کچھ بھی وہ کہہ رہا ہے یاکررہاہے بالکل ٹھیک کہہ بھی رہا ہے اور کربھی رہاہے۔ اُس کی یہ سوچ کہ وہ ٹھیک کہہ رہاہے کہاں سے آتی ہے؟ ظاہر ہے وہ جو کچھ بھی کہہ رہاہے کسی دلیل کی بنیاد پر کہہ رہا ہے وہ دلیل جو اُسے صحیح ہونے کا اعتماد اور یقین فراہم کرتی ہے۔ کہاں سے جنم لیتی ہے؟ کہاں سے آتی ہے؟ ہم کسی خیال کی بات نہیں کررہے۔ ہم خیال کی دلیل کی بات کررہے ہیں۔ ہمیں کیوں لگتاہے کہ ہم جو بات بھی کرتے ہیں صحیح کرتے ہیں۔ جو کچھ بھی کرتے ہیں صحیح کرتے ہیں۔ یعنی دوسروں کے مقابلے میں ہم عام طور پر صحیح بولتے بھی ہیں اور صحیح کرتے بھی ہیں۔ ہم ایسا کیوں سوچتے ہیں؟ ہمارے نزدیک ہماری دلیل دوسری دلیلوں کے مقابلے میں اتنی طاقتور کیسے ہوتی ہے؟ ہماری دلیل کو کونسی قوت مستحکم کرتی ہے؟ کیا چیز ہماری دلیل کو حاوی کرتی ہے؟ کیا شئے ہماری دلیل کو ناقابل شکست بنادیتی ہے؟ تو جناب آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہمارے دلائل کی بنیا د اکثراوقات انتہائی کمزور اور ناپائیدار ہو تی ہے کیونکہ وہ ہمارے ذہنی اختلافات پر استوار ہوتی ہے۔ ا ہم جو بات یا کام بھی کرتے ہیں خود کوبالکل صحیح اور دوسروں کو غلط سمجھ کر کرتے ہیں اور دوسروں کو غلط ہم جن بنیادوں پر سمجھتے ہیں اس کا تعلق ہمارے یا ان کے علاقائی، سیاسی، مذہبی، نسلی، لسانی، ، ملکی، صوبائی، مسلکی، رنگ، قد کاٹھ، رہن سہن، رسم ورواج میل جول او رپیشہ ورانہ اختلافات ہوتے ہیں۔ یہی اختلافات ہمارے دلائل کی بنیاد بن جاتے ہیں۔ اس لئے کہ ہم کسی کی بات سننے سے پہلے ہی اُسے غلط سمجھ بیٹھتے ہیں او ر بات سے پیشتر کی ہماری یہ سمجھ ہمارے دلائل کو اس لئے لایعنی بنادیتی ہے کیونکہ ہمارے ایسے تمام دلائل انفرادی طور پر کسی باقاعدہ سمجھ بوجھ کا نیتجہ ہرگز نہیں ہوتے بلکہ ہماری دانست میں ہماری علاقائی، سیاسی، مذہبی، نسلی، ملکی، صوبائی، مسلکی، رنگ قدکا ٹھ، رہن سہن، رسم ورواج، میل جول اور پیشہ ورانہ طو رطریقوں کے احساس برتری سے جنم لیتے ہیں۔
جس طرح ایک افسر ہمیشہ اس زعم میں مبتلا رہتاہے کہ اُس کا ماتحت عقل میں بھی اُس کا ماتحت ہے، اخلاق کردار، تہذیب وتمدن حتیٰ کہ خیالات عقائد اور نظریات میں بھی اُس کا ماتحت ہے۔ اُسے یہ ناقص احساس برتری کیوں حاصل ہوتاہے؟ اس لئے کہ اسکے اچھا لکھنے پر ماتحت اگلے درجے میں ترقی پاسکتاہے اور اسکے بُرا لکھنے پر پیچھے رہ جاتاہے یہی وجہ ہے اکثر جس افسر کی اپنی کوئی کل بھی سیدھی نہ رہی ہو اُسکے اچھا لکھنے پر اُس سے زیادہ ناکارہ او ر نکمّے ماتحت پیشہ ورانہ زندگی میں اُس سے بھی آگے نکل جاتے ہیں یہ مضحکہ خیز احساس برتری جس قسم کی دلیل کو جنم دیگا اُس کا نیتجہ وہی ہوگا جو اِس وقت پوری قوم بھگت رہی ہے۔ کیا ہم دیکھ نہیں رہے کہ جو لوگ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بڑے بڑے جلسے جلوس کررہے ہیں وہ ایکدوسرے کو کن کن القابات اور ناموں سے پکاررہے ہیں۔ کس طر ح ایک دوسرے کو سرعام شرمندہ کرکے خود بھی بے نقاب ہورہے ہیں۔ پوری قوم انہی حضرات وخواتین کی رہنمائیوں میں بٹی ہوئی ہے انہی کے دم سے ووٹ، نوٹ یا بُوٹ کی عزت قائم ہے۔ اس بدنصیب قوم کا ماضی، حال اور شاید مستقبل بھی انہی کی دلیلوں کا دم بھرتارہاہے اور رہے گا۔ کیوں؟ اسلئے کہ ہمارے لوگ انہی کے آگے پیچھے نعرے لگاتے ہیں شور مچاتے ہیں، ناچتے کودتے ہیں اور دھڑا دھڑ قیمے والے نان او ر بریانی کھاتے ہیں۔
کس قدر افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ جس مسلمان کی دلیل ہی اختلافات کو مٹانے پر رکھی گئی ہو۔ اتحاد اور بھائی چارے پر رکھی گئی ہو۔ جس کے واحدہُ لاشریک مالک نے ایک دوسرے پر فضیلت کی دلیل صرف تقویٰ رکھی ہو۔ اُس دین کے ماننے والے اور پیروکار اپنے اپنے مضحکہ خیز اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے کو سرعام شرمندہ کرنے میں مصروف ہوں۔ اگر ہمارے دلائل اختلافات کی بجائے اتفاقات سے جنم لینا شروع کردیں تو پتہ نہیں ہم کہاں سے کہاں پہنچ سکتے ہیں۔