میرے قارئین اِس با ت سے بخوبی واقف ہیں کہ میں سیاسی کالم نہیں لکھتا۔ کیوں؟ اِس لئے کہ کوئی بھی سیاسی کالم واضح اور کھلی جانبداری کے بغیر نہیں لکھا جاسکتا۔ وہ جو کہتے ہیں سیاست میں صحیح اور غلط کی تقسیم نہیں ہوتی۔ سیاست میں ہار اور جیت کی تقسیم ہوتی ہے سیاسی کالم میں جانبداری کا مطلب یہ ہوگا کہ یا تو آپ جیتنے والے کے ساتھ ہیں یا ہارے ہوئے کے ساتھ۔ جیتا ہوا غلط بھی ہوسکتاہے اور ہارا ہوا صحیح بھی۔ پھر آدمی کیوں خود کو کسی دوسرے صحیح یا غلط کے ساتھ منسوب کردے کیا اِس سے بہتر نہ ہوگا کہ آدمی بذات خود صحیح ہونے کی کوشش کرے تاکہ غلط کہلانے سے بچا جاسکے۔ آدمی صحیح کب ہوتا ہے اور غلط کب؟ اِس با ت کا فیصلہ دوطرح سے ہوسکتا ہے ایک طرح کا فیصلہ آدمی خوداپنے عقائد، نظریات اور افکار کے لحاظ سے کرسکتاہے کہ آیا وہ صحیح ہے یا غلط۔ جب کسی امر پر اُس کا دل گواہی دے کہ وہ اپنے عقائد، نظریا ت یا افکار کے مطابق عمل کررہا ہے تو اُسکا خود کو صحیح سمجھنا ایک بالکل جائزبات ہوگی۔ آدمی مطعون ہو تو اپنی بات پر اور بُر اٹھہرے تو اپنے عمل پر کسی دوسرے کی بات یا عمل پر وہ کیوں اچھا یا برا بنے۔ پھر میں نے آج سیاسی کالم لکھنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ کیونکہ اس کا تعلق ہماری سیاست سے جڑا ہواہے۔ آدمی لکھتاکیوں ہے؟ کیا آدمی اپنے لئے لکھتا ہے یا دوسروں کے لئے؟ اپنے لئے لکھتا ہے تو کیوں لکھتا ہے اور اگر دوسروں کیلئے لکھتا تو بھی کیوں لکھتاہے؟ اس کے سا تھ ہی متعلقہ سوال یہ بھی ہے کہ آدمی کیا لکھتاہے؟ اس کیا لکھنے کے لئے بھی آدمی کو پہلے اپنے اندر اور پھر دوسروں کے اندر جھانکنا پڑتاہے۔ یہاں جو بڑا مسئلہ ہے وہ یہ کہ دوسرے کے اندر جھانکنے کے لئے آدمی کے پاس اپنی مثال کے علاوہ کوئی اورمثال نہیں ہوتی۔ اسکی بنیادی وجہ تویہ ہے کہ آدمی ساری زندگی خود کو ہمیشہ دوسروں کی نظروں سے دیکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ مرتے دم تک خود سے بیگانہ رہتاہے اپنے آپ کو پہچان ہی نہیں پاتا۔ جب کسی حادثے، سانحے یا واقعے کے باعث اچانک خود کواپنی نظروں سے دیکھنے لگتاہے تو پاگل ہو جاتاہے یا پھر ولی اللہ۔ یعنی صاحب نظر۔
اب ان باتوں کا جنازوں سے کیا تعلق؟ جنازہ تو لغت میں لاش یا تابوت یا ارتھی کو کہتے ہیں وہ چارپائی جسے میت کو دفنانے کے لئے لیجایا جاتاہے جنازہ کہلاتی ہے۔ ہرمرنے والے کے ساتھ سلوک کسی ناکسی کتابی یا غیر کتابی مذہب کے مطابق ہی کیا جاتاہے یعنی یا تو اُسے دفنایا جاتاہے یا پھر جلایا جاتاہے کیوں؟ دہریے کے نز دیک آدمی کی موت اور جانور کی موت میں کوئی فر ق نہیں ہو تا۔ دہریا جب مو ت کے بعد والی زندگی کو مانتاہی نہیں تو اُسکی فکر کیوں کریگا؟ ایک مسلمان اگر توحید اور رسالت کومان بھی لے اور آخرت کا انکاری ہو تو مسلمان نہیں کہلا سکتا۔ مسلمان کی زندگی کا سار ا دارومدار آخرت پریقین رکھنے پر منحصر ہوتاہے اُس کے آج کی ساری حرکات وسکنات کی توجیح اُس کیآخرت پریقین کے درجات سے تشریح پاتی ہے۔ جنازہ اس کے لئے اِس لئے اہم ترین بات ہوتی ہے کیونکہ وہ اُسی ذریعے سے اِس دنیا سے اگلے جہاں سدھاررہاہو تا ہے۔ چونکہ اللہ بار بار قرآن میں فرما تاہے کہ " تم نے لوٹ کر میرے پاس اکیلے ہی آنا ہے" اِسلئے اسکی جانب جاتے ہوئے اُسکے سارے رشتے اور ہر طر ح کے ناطے کٹ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ چونکہ اُسے اپنا اس دنیا میں اکیلے آنا یاد نہیں ہوتا اِس لئے اکیلے جانے سے گھبرایا رہتاہے اُسکی گھبراہٹ اسلئے حد سے بڑ جاتی ہے کیونکہ آخرت پر بظاہر ایمان رکھنے کے باوجود کسی قسم کی واضح گواہی اُس کی سوچ اورعمل سے آشکار نہیں ہوپاتی۔
اس ساری تمہید کے بعد اب میں بتانا چاہتاہو ں کہ چونکہ مینار پاکستان گذشتہ چند ہفتوں سے موضوع بحث رہا ہے جس کی پہلی وجہ تو مولانا خادم حسین رضوی مرحوم کاجنازہ تھا۔ مرحوم کی شناخت ایک عاشق رسول کی شناخت تھی چونکہ مرحوم نے اقبال کے الفاظ میں محمد ؐ سے اپنی وفا ثابت کردی تھی۔ اسلئے اللہ نے اپنے حبیب کے صدقے میں اُس کے جسد خاکی کو وہ عزت بخشی کہ مینار پاکستان کاصرف تیس فیصد نہیں بلکہ پورا پنڈال اور اس کے علاوہ گردونواح کے علاقے او رسڑکیں حد نگاہ تک اُس وفادار ِپیغمبرؐ کے جنازے کو کندھا دینے والوں سے کھچا کھچ بھرگئے تھے۔ نا سابقہ منٹوپارک نے اور ناہی حالیہ مینار پاکستان کے احاطے نے اپنی پوری تاریخ میں کسی مردے کی اِس قدر پذیرائی نہیں دیکھی تھی۔ دوسری وجہ یہ کہ حکومت مخالف گیارہ جماعتی اتحاد نے اِس جنازے کو کسوٹی بنا کر تیرہ دسمبر کو لاہور میں اپنا آریا پار والا جلسہ اُسی جگہ پر رکھا تھا۔ گیارہ جماعتوں کے تزک واحتشام اور جاہ وجلال والے حضرات وخواتین، جبہ اور دستار کی عزت وقار کے محافظین اورصوبائی، لسانی اور علاقائی رہنمائو ں نے اپنے تئیں وہ سارے حربے استعمال کرلئے تاکہ ایک جنازے کا مقابلہ کرسکیں۔ جنازہ پیچھے رہ جائے او روہ آگے نکل جائیں ۔ روایتی سیاست اور موقع پر ست صحافت کے گٹھ جوڑ کی وہ کون سی چال تھی جسے نہیں آزمایا گیا۔ اتنے ڈھیر سارے زندوں کا ایک مردے سے مقابلہ دیدنی تھا وہ مقابلہ جو مرنے والاجیت گیا۔
جب زندوں کا جتھا کسی جنازے کے ساتھ مقابلے پر اُتر آئے تو اپنا جنازہ نکال لیتاہے۔ جب بچے بڑے ہوجائیں تو بڑے سکھی ہوجاتے ہیں لیکن جب بڑے بچوں کو بڑا سمجھ بیٹھیں تو بڑائی مرجاتی ہے تیرہ دسمبر کا جلسہ بچوں کے ہاتھوں بڑوں کی موت تھی بچوں نے نہایت کامیابی سے بڑوں کا جنازہ نکال دیا۔ ظاہر ہے جب بڑے بچو ں کے ذریعے جنازوں کا مقابلہ کریں گے تو ان کا اپنا جنازہ ہی نکلے گا۔ جنرل ضیا الحق کی موت کے بعد ایک منچلے کو کہتے سنا گیا کہ مجھے آج اس مصرعے کی سمجھ آئی ہے کہ " شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے" منچلا کچھ اتنا غلط بھی نہ تھا کہ کیونکہ اب پاکستان کے افق پر اور بہت سارے لوگ بھی مندرجہ ذیل قسم کا شہر دوراتے ہیں ۔ یہ سب تمہار کرم ہے "ضیاء "?کہ آگ اب تک لگی ہوئی ہےتیرہ دسمبر کے جنازے نے جو بات ثابت کردی ہے وہ یہ ہے کہ اُس شخص کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا جو آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر جھوٹ بولے۔