غلامی اس وقت دنیا میں کہیں بھی قانوناً جائز نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام میں چونکہ بیک جبنش قلم غلامی کو ختم نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے دیگر ملکوں کی طرح بعض مسلمان ملکوں کے اندر بھی بیسویں صدی کے شروع تک غلامی کسی ناکسی صورت میں برقرار رہی۔ صدیوں پر محیط یہ غیر انسانی اور ظلم و جبر پر مبنی بہیمانہ معاشرتی سوچ اور فکر کو اس طرح جاری رکھا گیا کہ امریکہ اور یورپ کے سفیدفام باشندے، باراک اوما کو آٹھ سال تک امریکہ کا صدر رکھنے کے باوجود آج بھی کالوں کو ذہنی اور عملی طور پر انسان سمجھنے سے ہچکچاتے ہیں۔
غلام کون ہوتاہے؟ غلا م انسان ہوتے ہوئے بھی اپنے جیسے کسی دوسرے انسان کی ملکیت بن جاتاہے، تاریخ گواہ ہے کہ منڈ یوں میں غلام اور کنیزیں بیچے اور خریدے جاتے تھے۔ غلام کو کسی قسم انسانی حقوق نہیں دیے جاتے۔ غلام کا کوئی انسانی رشتہ نہیں ہو تاجو اُس کے لئے بو ل سکے ا سلئے کہ غلام معاشرتی طور پر ایک مردہ انسان ہوتا ہے۔ اسلام نے البتہ غلام اور کنیزوں کے وہ بنیادی حقوق برقرار رکھے۔
حضرت خدیجہؓ نے اپنے ایک غلام میسرہ کے ذریعے سرکار دوعالم ؐ کی دیانت اور امانت کے بارے میں مشہورواقعات کی تصدیق فرمائی جس کے نیتجے میں انھوں نے عقد کا پیغام بجھوایا۔ مسجد نبوی کا پہلا اور نہایت بلند مرتبے والا موذن ایک غلام کو چناگیا جو حبش کا رہنے والے سیاہ فام بلالؓ تھے۔ یروشلم کے سفر کیلئے خلیفہ دوئم حضرت عمر ؓنے صرف ایک غلام کو ہمسفر بنایا جس کے انسان ہونے کا اس قدر خیال رکھا گیا کہ جب خلیفہ وقت یروشلم میں داخل ہوئے تواپنی طے شدہ باری کے حساب سے غلام اُونٹ پر سوار تھا اور خلیفہ نے مہار اپنے ہاتھ میں تھام رکھی تھی۔
امام جعفر صادق ؑاپنی کنیزکو وضو کیلئے پانی لانے کو کہا۔ پانی کا برتن کنیز کے ہاتھ سے گرگیا تو وہ امام کی بے ادبی کے ڈر سے کاپننے لگی۔ امام ؑ نے جب اُس کی یہ حالت دیکھی تو اُسے فوراً آزاد کردیا تاکہ اُسے پتہ چل سکے کہ اللہ کا خوف بندوں کے خوف پر مقدم ہوتاہے۔ برصغیر پر تو خاندان ِ غلاماں نے باقاعدہ سو سالوں تک حکومت بھی کی ہے لہذا اسلام میں غلامی کا تصور باقی دنیا کے تصورِ غلامی سے بالکل جُدا اور منفرد ہے۔
پہلے زمانے میں ملکوں، قوموں اور قبیلوں کے درمیان جنگوں کے نتیجے میں قیدی بنائے جانے والے مرد اور عورتیں مال غنیمت کی شکل میں قیدی کی بجائے غلام اور کنیز کے طور پر سزا یافتہ ہوجاتے تھے غلاموں اور کنیزوں کیلئے باقاعدہ ڈاکے ڈالے جاتے تھے۔ بحری قذاق اس سلسلے میں خاصے مشہور تھے کئی دفعہ قرضوں کی ادائیگی کے عوض لوگ اپنے عزیز واقارب اولاد حتیٰ کہ شوہروں اور بیویوں تک کو غلامی میں دے دیتے تھے افریقی ممالک سے بحری جہازوں کے ذریعے غلامی کیلئے اغوا کئے گئے لوگوں کو امریکہ پہچا یا جاتا تھا جہاں انھیں باقاعدہ غلام بناکر وسیع وعریض جاگیرو ں کی کاشتکاری کے لئے استعمال کیا جاتاتھا یہ کوئی بہت زیادہ پرانی بات نہیں ہے کیونکہ اس کا سلسلہ بیسیویں صدی کے اوئل تک جاری رہا۔
غلامی کی بعض دیگر اور جدید شکلیں اب بھی قائم ہیں جن کی جھلک بلوچستان کے سرداروں، سندھ کے وڈیروں کے پی کے کے خانوں اور پنجاب کے چودہریوں کے ہاں آج بھی نظر آجاتی ہیں۔ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے خاندانوں کے خاندان برصغیر پاک وہند کے علاقوں میں جدید غلامی کی ایک بدترین صورت میں نظر آتے ہیں۔
عالمی ڈرگ مافیا کے واسطے اور ان کے ذریعے بین الالقوامی سطح پر انسانی سمگلنگ اور جنسی تجارت نے جدیدغلامی کو ایک تسلیم شدہ حقیقت بنادیا ہے۔ اس نے جرم اورجنس کے ملاپ پر بننے والی پوشیدہ فلموں کوارب ہا ڈالر کی انڈسٹری بنادیا۔ ان باتوں کے نہایت منفی اثرات پڑے ہیں جن کے نیتجے کے طور پر تین تین چار چار سال کے بچوں اور بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیاتیوں کو فلمایا گیا کر کیا گیا۔ غلامی برپا کرنے والے ان ڈان لوگوں کی پہنچ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ دنیا کی کوئی بھی حکومت اور کوئی نظام ان پر ہا تھ ڈالنے سے بالکل قاصر ہے۔ گذشتہ صدی کی ستر اور اسی کی دہائیوں میں جب "سرخ ہے سُرخ ہے۔ ایشیا سرخ ہے" کے نعرے دن رات لگا کرتے تھے اس وقت بھی شوشلسٹ دانش ور عورت کو مظلوم ترین مخلوق گردانتے تھے اس لئے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں مزدور طبقاتی جبر کا شکا ر ہونے کے باوجود بذات خود بھی اپنی عورت پر اسی طرح کے جبر وظلم کو روارکھتاتھاجس طرح کے جبر وستم کا کارخانے کے اندر خود شکار ہوتاتھا۔
اس کے باوجود یہ ایک واشگاف حقیقت رہتی ہے کہ غلام اس مظلوم ترین عورت سے بھی زیادہ استحصال کا شکار ہوتاہے اس فارمولے کے تحت بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ کسی کنیزکی کسمپرسی اور بے بسی کی کیا حالت ہوگی۔ خلاصہ اس کلام کا یہ ہوا کہ غلام یا کنیز ہونا انسانیت کی توہین ہوتاہے ایک ایسی ذلت آمیز توہین جس سے پست تر اور حقیر تر توہین ایک زندہ انسان کیلئے ممکن نہیں ہوسکتی۔ ظاہر ہے کوئی بھی ذی شعور اور ذی عقل بہ قائم ہوش وحو اس اپنی مرضی اور منشا سے اپنے ہی جیسے کسی انسان کا غلام یاکنیز بننے کیلئے کسی صور ت تیار نہیں ہوسکتا۔
پاکستان کا وجود میں آنا کسی معجزے سے کم نہ تھا پھر جس ملک کو ستر سالوں سے ہر سطح اور ہر مقام پر نوچ نوچ کر کھایا جاتارہا ہو جس ملک کے کرتا دھرتا ہی اسے روزانہ کی بنیاد پر نیلام کرتے رہے ہوں جس ملک میں سرکاری دفتر صرف ایک دکان بن چکا ہو جس ملک میں عدالتوں کے احاطے میں لوگ انصاف ایک دوسرے کے منہ پر مار رہے ہوں، جس ملک میں افسر استاد سے بڑا ہو کیونکہ اگر استاد بڑا ہوتا تو افسر ہوتا جس ملک کے اندر "لچا سب توں اُوچا" ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہو۔ اس سب کے باوجود بھی اگر وہ ملک اور قو م دھڑلے سے قائم رہے اور دنیا اس سے خوف زدہ بھی رہے کیونکہ اس نے ایک مسلمان قوم اور ملک ہوتے ہوئے بھی بم بنالیا ہو۔۔۔۔ ایک معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟
اس سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بڑی بڑی ڈگریوں والے حضرات وخواتین، جوقانونی علمی اور مذہبی زبان درازیوں پر مکمل عبور رکھتے ہیں، طرح طرح کی موجودہ اور سابقہ شانو ں اور مرتبوں کے سا تھ چلا چلا کر ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اپنے غلام اور کنیز ہونے کا اعلان کرتے تھکتے نہیں۔
کیوں؟ تاکہ شک و شبے کی کوئی گنجائش نا رہے کہ وہ اپنی مرضی اور منشا سے اپنے غلام اور کنیز ہونے پر نا صر ف شاداں اور نازاں ہیں بلکہ اسے ملک اور قوم کے مسائل کا واحدحل بھی سمجھتے ہیں۔ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ ایسے عبرت نا ک زوا ل سے دشمن کو بھی محفوظ رکھے۔