فیروزاللغات اُردو جدید کے مطابق صنف کے اعتبار سے لفظ مسخرہ مذکر ہے جس کے معنی "ظریف اور دل لگی باز" درج ہوا ہے جبکہ لفظ مسخری صنف کے لحاظ سے مونث ہے اور جس کے معنی مسخرہ پن مذاق " اور "ظریف عورت" کئے گئے ہیں۔ عام سمجھ کے لئے اسے ایک لفظ میں ہنسی مذاق کہا جاسکتاہے ہنسی مذاق سبھی لوگ کرتے ہیں ہروقت نہیں کرتے بلکہ موقع محل کے مطابق کرتے ہیں جو لوگ بے موقع محل ہنسی مذاق کرتے ہیں انھیں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتاہنسی مذاق کو صحت وتندورستی کے لئے بعض ڈاکٹر حضرات ضروری بھی سمجھتے ہیں کیونکہ زندگی صرف پژمردگی کا نام نہیں ہے آدمی کو زندگی میں قسم قسم کی مہمات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مسائل جھیلنا پڑتے ہیں ذلیتیں اور رسوائیاں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ طیش اور غضب میں بھی آنا پڑجاتاہے عاجزی او ر انکساری او رعشق ومحبت کے تجربات بھی ہوتے ہیں دوستوں کی بے وفائی اور اپنوں کی بے مروتی بھی سہنی پڑتی ہے طبقاتی چپقلش بھی دن رات بے چین کئے رہتی ہیں
عشق کے روگ مار دیتے ہیں دل کے سوگ مار دیتے ہیں
آپ تو خود کوئی نہیں مرتا دوسرے لوگ ماردیتے ہیں
جس طرح ہر لفظ بہت سارے محاوروں کو جنم دیتاہے اِسی طرح لفظ مذاق جو کسی مسخرے کی بنیاد پہچان ہوتی ہے نے بھی بہت سارے محاروں کو جنم دے رکھا جیسے مذاق اڑانا۔ اب جہاز اڑانے اور مذاق اڑانے میں زمین آسمان کا فرق ہے دونوں لوگ ہی اڑاتے ہیں ایک کو پائلٹ کہا جاتاہے اور دوسرے کو مسخرہ غم اڑانا کوئی محاورہ نہیں بن سکا۔ کیوں؟ اسلئے کہ غم بانٹا جاسکتاہے اڑایا نہیں۔ اسی طرح خوشی اڑانا کوئی محاورہ نہیں بن سکتا کیونکہ خوشی لٹائی جاسکتی۔ پھیلائی جاسکتی ہے۔ مذاق کی یہ قسم اعتراف شکست کی علامت ہوتی ہے جب دلیل ختم ہوجائے تومذاق اڑاکر اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ بے سود ہی ثابت ہوئی ہے۔ مذاق کا یہ انداز شروع دن سے حق کے خلاف ہی رہا ہے باطل نے ہمیشہ اپنی دلیل کے شکست کا بدلہ مذاق اور تمسخر اڑانے سے لیا ہے بڑے بڑے پیغمبر وں کی دعوت حق کو استہزا کے ذریعے پہلے پھیلنے سے روکنے کی کوشش کی گئی اور اس میں ناکامی کے بعد اُن کے خلاف آگ میں ڈالنے سے لے کر بظاہر سولی چڑھا جانے تک کی بدترین ظالمانہ کاروئیاں روا رکھی گئیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پیغمبروں سے ہٹ کر بھی بڑے بڑے لوگوں بزرگوں اور عظیم رہنمائو کے ساتھ یہی طرز عمل دھرایا جاتارہاہے۔ سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا تھا۔
اچھائی کو پھیلنے سے روکنے کے لئے مذاق ہمیشہ سے ایک ہتھیار کے طور پر استعما ل ہوتارہاہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ جب ایک کافر نے سرکار دوعالمؐ کو تنہا پاکر اِس موقعے کو اپنے زعم میں مذاق سمجھتے ہوئے کہا "اب تم کو میرے ہاتھ سے کون بچا سکتاہے؟ " تو آپ ؐ نے فرمایا "میرا اللہ " یہ جواب سنتے ہی کافر کے ہاتھ سے تلوار گرگئی۔ حضورؐ نے وہی تلوار اٹھا کر اُس سے فرمایا "میرے اللہ نے تو مجھے بچالیا۔ اب تم بتائو تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتاہے؟ " پس ثابت ہوا کہ ایمان سب سے بڑا ہتھیار ہے ایمان کے بغیر کوئی علم کوئی خوشی خلقی اور کوئی تلوار ہتھیار کاکام نہیں کرسکتی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جہاں ایمان اوریقین کی طاقت مفقود ہو وہاں مذاق اڑانا شیطان کا سب سے زیادہ کارگر ہتھیار بن جاتاہے۔
مذاق کون اڑاتاہے؟ فیروزاللغات کے مطابق مذاق اڑانے والا مسخرہ ہوتاہے۔ مذاق کس طرح اڑایا جاتا ہے؟ مذاق اڑانے کے انگنت طریقوں پر بات کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ مذاق کن کا اڑایا جاتاہے؟ کیا مذاق دوست کا اڑایا جاتاہے یا دشمن کا؟ صرف عورت کا یا مرد کا؟ خالی غریب کا یا امیر کا؟ محض لمبے کا یا بونے کا؟ کالے کا یا گورے کا؟ استاد کا یا شاگرد کا؟ عالم کا یا جاہل کا؟ بزرگ کا یا بدمعاش کا؟ شخصیات سے ہٹ کر بھی مذاق اڑایا جاتاہے۔ زمین کے مختلف خطوں کا مذاق اڑایا جاتاہے۔ مختلف قوموں کا مذاق اڑایا جاتاہے۔ زبانوں اور طورطریقوں اور رسوم ورواج کا مذاق اڑایا جاتاہے۔ نظریات اور عقائد کا مذاق اڑایا جاتاہے حتیٰ کہ دنیا اور آخرت کا کوئی ایسا موضوع نہیں جس کا مذاق نااڑایاجاتاہو۔ اب باری آتی ہے یہ جاننے کی کہ یہ مذاق کون اڑاتاہے؟ اور کیوں اڑاتاہے؟ مذاق چاہے دوست اڑائے یا دشمن، دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اڑایا جاتاہے جس کا مذاق اڑایا جاتاہے اُسے حقیر اور ذلیل کرنے کے لئے اڑایا جاتاہے۔
ایسا نہیں ہے کہ مذاق صرف دوسرے کا ہی اڑایا جاتاہے مذاق اپنا بھی اڑایا جاتاہے اپنی غلطیوں، گناہوں، جرائم اور نظریات کا بھی اڑایا جاتاہے۔ اس قسم کا مذاق لوگ اپنی شرمندگی مٹانے کیلئے اڑاتے ہیں اپنی غلطیوں گناہوں اورجرائم کے اعتراف کے طور پر اڑاتے ہیں معافی مانگنے کیلئے اڑاتے ہیں اورندامت کے تحت اڑاتے ہیں۔ اس سے یہ نیتجہ نکالنا کچھ غلط نا ہوگا اگر کہا جائے کہ دنیا غریبوں کی طرح مسخروں سے بھری ہوئی ہے۔
ساری دنیا کے لوگ ایک دوسرے کا مذاق اڑانے میں مصروف ہیں۔ جن بظاہر مہذب اور عزت دار قوموں اور ملکوں کے کرتا دھرتا لوگوں سے ایسے مذاقوں کی توقع بھی نہیں کی جاتی وہ بھی مسخرپن کا سہار لیکراپنی نئی پہچان کرارہے ہیں۔ مہذب دنیا کے طاقتور ترین لوگ اپنے ہی ملک آئین اور نظام کا مذاق اڑانے پر مصر ہیں۔ فرانس کا صدر توہین رسالت کا مرتکب ہوتاہے، بھارت میں حکمران جنتا پوری مسلم آبادی کو بہمانہ ظلم وزیادتیوں کا برملا نشانہ بناکر پوری انسانیت کا مذاق اڑارہی ہے۔ عرب ممالک اسرائیل کی محبت میں مسلم امہّ کا مذاق اڑارہے ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین کی طاقت ہندوستان کی کمزوری اور بے بسی کا مذاق اڑارہی ہے۔ مجرم اور بدمعاش عدالتوں کا مذاق اڑارہے ہیں کئی دہائیوں سے قوام متحدہ کی قراردادوں کا مذاق اڑارہے ہیں اسرائیل اپنے گھمنڈ میں فلسطین اور مسلمانوں کا گذشتہ ستر سالوں سے دن رات مذاق اڑارہاہے۔
حد یہ ہے کہ ملکوں کے اندر وہ ادارے اور شخصیات جنہیں پیشے کے اعتبار سے معتبر اور معززین میں شمار کیا جاتاہے مسخرہ پن پر اتر آئیں تو باجماعت ایک مسلمہ مجرم اور اشتہاری کی قانون اور انصاف کے عین مطابق دی گئی سزا ختم کرانے کیلئے عدالت پہنچ جاتی ہیں۔ اِس سے بڑا جان لیوا مذاق اور کیا ہوسکتاہے کہِ اس قسم کا مذاق اڑانے والے اُس دین کے پیروکار بھی ہوں جن کا واحدہ لاشریک اللہ مشرکوں کے بتوں کا مذاق اڑانے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ اِس کے باوجود اگر مسلمان دنیا میں مسخروں کی طرح ہی جینا چاہتے ہیں اور فرشتوں کے خدشات سچ کردکھانے پر تلے ہوئے ہیں تو کیا کیا جاسکتاہے؟ کیا یہ دنیا مسخروں کی دنیا بننا چاہتی ہے؟