آدمی کبھی خوش ہوتاہے کبھی غمگین، کبھی غصے میں ہوتاہے اور کبھی مائل بہ کرم، کبھی ظالم او رکبھی رحمدل۔ کبھی خیالی پلائو پکانے میں مگن اور کبھی عملی جدوجہد میں مصروف۔ کبھی منافقت میں محِو اور کبھی خلوص کا مجسمہ۔ مختصر یہ کہ آدمی کبھی اچھا ہوتاہے اور کبھی بُرا۔ آدمی جو کچھ بھی ہوتاہے اُس کی کوئی وجہ ہوتی ہے۔ اِس بات کا اندازہ اِس واقعے سے لگایا جاسکتاہے کہ کسی پاگل خانے میں ایک نئے ڈاکٹر صاحب کی انچارج کی حیثیت سے تعیناتی ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب رائونڈ پر نکلے تو ایک ایسے مریض سے ملاقات ہوئی جو مسلسل اپنا ماتھا پیٹ رہا تھا۔ پوچھنے پر ڈاکٹر صاحب کو بتایا گیا کہ موصوف ایک خاتون سے محبت میں مبتلا تھے۔ اُس سے شادی نہ ہونے کے صدمے کے باعث دماغی توازن کھوبیٹھاہے۔ ذرا اور آگے گئے تو ایک مریض اپنے آپ کو ٹھونگے مار رہاتھا۔ پوچھا ان صاحب کی یہ حالت کیسے بنی؟ ڈیوٹی پر مامور عملے نے بتایا کہ اِس کی شادی اُس خاتون سے ہوئی جس کے ساتھ شادی نہ ہونے کے باعث پہلے والا مریض پاگل ہوا تھا۔ دونوں پاگل ہوئے تھے لیکن دونوں کے پاگل ہونے کی وجوہات مختلف تھیں جبکہ دونوں کوپاگل کرنے والی خاتون ایک ہی تھی۔ جسے نہ ملی وہ بھی پاگلاور جسے مل گئی وہ بھی پاگل۔ اس مثال سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ایک ہی قسم کی کیفیت میں مبتلا ہونے کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں۔
آدمی اگر خوش ہے تو اُس کی کئی وجوہا ت ہوسکتی ہیں۔ ممکن ہے وہ کسی امتحان میں پاس ہواہو، اُسے پسند کا روزگار مل گیا ہو، لڑکی نے ہاں کردی ہو، گمشدہ بٹوہ واپس مل گیا ہو، بیٹی بخیریت گھر واپس آگئی ہو، بیگم نے میکے جانے کا پروگرام بنالیا ہو وغیرہ وغیرہ اس طرح دیگرکیفیتوں کی وجوہات بھی کئی کئی ہوسکتی ہیں، لمحہ بہ لمحہ کامیابیوں اورناکامیوں کی وجوہات ایک سے زیادہ ہوسکتی ہیں۔
آدمی کی ہر طرح کی کیفیات کی وجوہات دو طرح کی ہوتی ہیں۔ معروضی وجوہات اور اندرونی وجوہات۔ یہ بات سمجھانے کے لئے عرض ہے کہ والدہ کے کامیاب آپریشن کے بعد گھر واپسی کی خوشی کی وجہ معروضی کہلائے گی اور کسی دعا کے قبول ہوجانے سے ملنے والی خوشی کی وجہ اندرونی یا موضوعی کہلائے گی۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ طرح طرح کی اوربعض اوقات متضاد کیفیتیں ایک ہی شخص پر واردہوتی ہیں آدمی پر جو کیفیت بھی وارد ہوتی ہے اپنا اثر چھوڑ تی ہیں۔ ناصر کاظمی کاایک بہت ہی خوبصورت شعر اس صورت حال کو واضح کرتاہے۔
دل تومیرا اُداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتاہے
دل کا اُداس ہونا ایک اندرونی کیفیت ہوتی ہے لیکن اس کے باعث پوری معروضی دنیا ویران لگتی ہے، اِسی طرح جب دل باغ باغ ہوتولگتاہے ارد گرد کا سارا ماحول محورقص ہے اور جشن منارہاہے اس کا مطلب ہے پاگل ہونے کے لئے متعد د وجوہات کارفرماہوسکتی ہیں۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ پاگل کون ہوتاہے؟ ہم پاگل اُسے کہتے ہیں جو کپڑے نہیں پہنتا اور سڑکو ں پر ننگا پھر تا ہے۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ ہماری مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں سمندروں کے کنارے کنارے بہت سے ایسے مقامات مخصوص ہیں۔ جہاں کپڑے پہن کے جانے والا پاگل سمجھا جاتاہے۔ ویسے بھی ایک عام مشاہدہ ہے کہ بہت سے زرق برق اور بہترین لباس پہننے والے حضرات ننگ دھڑنگ گھومنے پھرنے والے کی نسبت زیادہ پاگل ہوتے ہیں۔ جو شخص ننگا پھر رہاہے وہ پیچارہ تو اپنے آپ سے ہی بے خبر ہے اپنے آپ سے بے بہرہ پاگل نقص امن عامہ کا باعث نہیں بنتے۔ اُن سے کسی کوکوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ ایسے پاگل تو بے ضرر پاگل ہوتے ہیں۔ پاگل پن کی ایک قسم وہ ہوتی ہے جو دوسروں کے وجود کیلئے خطرناک بن جاتی ہے جن سے فساد برپا ہوتاہے ایسے ہی پاگلوں کو پاگل خانوں میں بندکردیا جاتاہے۔
کیا پاگل اور مجرم میں فرق ہوتاہے۔ مجرم کسی جرم کی پاداش میں کسی عدالت کا سزا یافتہ ہوتاہے۔ اُس نے آئین اور کسی قانون کی خلاف ورزی کی ہوتی ہے۔ دالائل، قرائین اور ثبوتوں کی روشنی میں اُس پر فرد جرم عائد ہوچکی ہوتی ہے جس کے نیتجے میں سزا کے طور پر اُسے لوگوں سے الگ تھلگ بندکردیا جاتا ہے۔ پاگل کو سزا کے لئے پاگل خانے میں بند نہیں کیا جاتا بلکہ اُس کے علاج کیلئے اُسے پاگل خانے میں رکھا جاتاہے۔ مجرم سے نفرت کی جاتی ہے جبکہ پاگل سے ہمدردی جتائی جاتی ہے۔
پس ثابت ہوا کہ پاگل بیمار ہوتا ہے، مجرم نہیں۔ اب مرحلہ ہے پاگل اور بیمار میں فرق کے جاننے کا اِس لئے کہ پاگل عام بیماروں سے ہٹ کر بیمار ہو تاہے۔ کیسے؟ کیا پاگل پن اچھو ت کی بیماری ہے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ کیا یہ لاعلاج بیماری ہے؟ نہیں ہر گز نہیں، اس بیماری کا علاج ممکن ہے۔ یہ ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جو گنا ہ اور ثواب کے دائرے سے باہر ہے۔ پاگل کاکوئی بھی حامی یا مخالف ان دوبنیادی نشانیوں کے انکار کا اگر چاہے بھی تو متحمل نہیں ہوسکتا۔ وہ دونشانیاں کیا ہیں؟ ایک یہ کہ اپنی ذہنی حالت یا کیفیت کے باعث پاگل کبھی شرمندہ نہیں ہوتاکسی بھی پاگل کو شرم نہیں آتی۔ پاگل کے اندر شرم کا مادہ آہی نہیں سکتا وہ کتنا ہی ننگا کیوں نا ہوجائے شرمندہ نہیں ہوتا کیوں؟ اسلئے کہ پاگل شرمندگی محسوس کرنے کی بنیادی صلاحیت سے ہی عاری ہوتاہے۔ شرمندہ ہونا اُسکے بس کی بات ہی نہیں۔ تبھی تو سیانے کہتے ہیں کہ کوئی پاگل ہی ہوگا جو شرمندہ بھی ہوجائے۔
پاگل کی دوسری ناقابل انکار نشانی یہ ہے کہ وہ کبھی مہذب نہیں ہوسکتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ اُسے اپنے علاوہ کسی بھی دوسرے کے وجود کا احساس تک نہیں ہوتا۔ دوسرے کے وجود سے انکار کسی بھی پاگل کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے اِس لئے کوئی پاگل اتنا پاگل نہیں ہوتاکہ وہ اپنے علاوہ کسی اور کے وجود کو تسلیم کرے دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا بقائم ہوش وحواس ہونے کی نشانی ہوتی ہے اورکوئی پاگل اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
آدمیت اب اس حد تک زوال پذیر ہوگی ہے کہ پاگلوں کا یہ طرز عمل دنیا کے کرتا دھرتا معززین نے بھی اپنا لیا ہے جن کے صرف ایک اشارے سے کیسے کیسے ایسے ویسے اور ایسے ویسے کیسے کیسے ہوجاتے ہیں اب انھوں نے بھی پاگلوں کی انہی دوخصلتوں کو بڑی ڈھٹائی سے اپنالیا ہے کیوں وہ اپنی شان وشوکت اور کروّفر کو مہذب اور شرمندہ ہوکر دائو پر لگائیں؟ کیا وہ پاگل ہیں کہ اپنے فائدے کو نقصان میں بد ل دیں؟