بظاہر کتنا عجیب موضوع ہے۔ ناقابل یقین موضوع ہے اِس لئے کہ پستی پستی ہوتی ہے اور بلندی بلندی۔ یا رات ہوتی ہے یا دن ہوتاہے۔ رات سے دن نکلنے کے باوجود رات دن نہیں ہوجاتی۔ جس طرح جھوٹ کے اندر سے سچ نہیں نکل سکتا کیونکہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جس طرح حق حق ہو تاہے اور باطل باطل ہوتاہے۔ خو شبو خوشبوہوتی ہے اور بدبو بدبو، پھر پستیاں کیسے بلند ہوسکتی ہیں؟ ۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ جان لینا چاہئے کہ پستی ہوتی کیا ہے؟ پستی اُس قابل نفرت اور حقارت، مقام یا کیفیت کو کہا جاتاہے جو کسی بھی لحاظ سے انسانیت اور آدمیت کے تصور سے میل نہ کھاتاہو۔ یعنی پست مقام یا کیفیت بہ قائم ہوش حواس کسی بھی شخص کے لئے قابل قبول نہیں ہوتی۔
کیا جھوٹ، دھوکہ احسان فراموشی، جسم فروشی، وطن فروشی اور دین فروشی پستی، وعدہ خلافی، دغا بازی پستی نہیں۔ کیا ریاکار، منافق، غیر مخلص، چور، ڈاکو، قاتل، بھتہ خور، ظالم، راشی اور بدمعاش پست نہیں ہوتے؟ اس قماش کے لوگ چاہے کسی بھی پیشے، ادارے، ملک اور قوم سے تعلق رکھتے ہوں پست ہی سمجھے اور کہلائے جاتے ہیں۔
مزید آگے بڑھنے سے پہلے اگر ہم اپنے ملک اور اپنی قوم کے گذشتہ سات سے زیادہ دہائیوں کے عروج وزوال کو سامنے رکھیں تو آج کا موضوع اور اس کی اہمیت سمجھ میں آجائے گی گذشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی تک پاکستان کی انتظامیہ دنیا کی بہترین انتظامیہ کے طور پر سامنے آئی جس نے ناصرف ایک نوزائیدہ ملک کو اپنی قابل رشک، قابلیت، کردار اور خلوص نیت کے ساتھ ملک اور قوم کو نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا کیا بلکہ بین الاقوامی سطح اپنے اداروں کے لئے ترقی کی رفتار اور خوشحالی کی تیزی اور طّراری کو منوایا۔ جب آج کی کسی بس سروس سے بھی بدتر پی آئی اے دنیا کی بہترین ائیر لائین بنی۔ جس نے دیگر تیس سے زائدائیر لائینوں کو جنم دیا اور پروان چڑھا یا۔ وہ ائیرلائن جس میں امریکہ کے صدر نے پاکستان کا سفر طے کیا۔ جب کراچی کا حبیب بینک پلازہ اس پورے خطے کی سب سے اونچی عمارت تھی۔ جب ہندوستان سے پہلے اس ملک میں بین الالقوا می ہوٹل چِین نے کراچی میں ہو ٹل بنایا۔ جب کراچی ائیرپورٹ دنیا کے معروف ترین ہوائی آڈوں میں شمار ہو تاتھا۔
وہ انتظامیہ جس کی کارکردگی کو وزیر اعظم چین چُواین لائی تک نے سراہا۔ وہ انتظامیہ جو آلائشوں سے پاک صاف تھی کیونکہ آجکل بدترین اور غلیظ ترین سیاسی غلامی سے آزاد تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کی سیاست بھی صاف ستھری اور پاک صاف تھی۔ جب وزیر اعظم لیاقت علی خان ریڈیو پاکستان کے اسٹوڈیوز کے اندر منہ میں سگار رکھے جانے لگے تو ڈیوٹی پر موجود ریڈیوپاکستان کے سب سے چھوٹے اہلکار نے انھیں ادب سے بتایا کہ اسٹوڈیوز کے اندر تمباکو نوشی منع ہے تو وزیراعظم پاکستان نے شکریہ کہتے ہوئے سگار بجھاکر باہر ہی پڑے کوڑے دن میں ڈالدیا اور آگے بڑھ گئے۔ جب ایک تھانیدار اپنے سپاہیوں کے ساتھ ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک بڑے درخت کے سائے تلے ننگ دھڑنگ کھیلتے بچوں سے پوچھ رہا تھا کہ یہاں انھوں نے کسی کو دیکھا تو نہیں تھا؟ بچوں نے اُسے بتایا کہ ایک کالے رنگ کی بڑی گاڑی آئی تھی۔ یہاں رکی تھی جس کے اندر سے ایک صاحب اچکن اور شلوار قمیض میں نکلا تھا۔ ڈرائیور نے ڈگی کے اندر سے جائے نمازنکال کر بچھائی تھی جس پر اُس نے نماز پڑھی تھی۔
پھر ڈرائیور نے ایک چٹائی بچھائی جس پر دونوں نے ملکر ساتھ لایا ہوا کھانا کھایا۔ چائے پی، سامان لپٹا اور چلے گئے۔ اِس پر تھایندار صاحب نے سرپیٹ لیا اور کہا "وزیراعظم میرے علاقے سے ہو کرچلے بھی گئے اور ہمیں پتہ تک نہ چلا" یہ اُس وقت کے وزیر اعظم چوہدری محمدعلی تھے جو کراچی سے لاہور بذریعہ جی ٹی روڈجارہے تھے۔
یہ وہ دُور تھا جب پاکستان کا وزیراعظم مہینے بھر میں صرف چھہتر گیلن پٹرول اپنی سرکاری گاڑی میں استعمال کرسکتا تھا اِس سے زیادہ کے پیسے اُسے اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتے تھے جب پنجاب کے گورنر عبدالرب نشتر نے اپنے بچوں کیلئے بارش کے باعث گاڑی پورچ میں لگانے پر اپنے اے ڈی سی کو یہ کہہ کر ڈانٹ پلادی تھی " کیا میں نے انھیں سائیکلیں لے کر نہیں دی ہوئیں؟ کیا یہ گورنر کی گاڑی میں اسکول جائیں گے؟ یہ خلفائے راشدین کے دور کے واقعات نہیں ہیں اِسی پاکستان کے واقعات ہیں۔
جب مشرقی پاکستان کے گورنر لیفٹنٹ جنرل اعظم خان کے لئے اُن کے تبادلے پر اُن کی محبت میں سرشار بنگالی ریل کی پٹری کے آگے ہزاروں کی تعداد میں لیٹ گئے تھے کہ ہم اسے مغربی پاکستان واپس جانے نہیں دیں گے ہماری بدبختی یہ ہے کہ ہم برے نہیں تھے ہم اچھے سے بُرے بنے ہیں اور پھر اتنے بُرے بن گئے کہ بڑے بڑے بُروں کو بھی یقین نہیں آتا کہ کوئی اتنا بُرا بھی بن سکتاہے۔
ملکوں اورقوموں کاعروج وزوال اُن کا کردار، اخلاق طور طریقے اور رکھ رکھائو متعین کرتے ہیں اُن کی اعلیٰ اقدار اور نیک مقاصد متعین کرتے ہیں۔ ان کی بلندیوں سے محبت او ر پستیوں سے حقارت کے درجے متعین کرتے ہیں جس معاشرے یا قوم میں جھوٹا معزز ہوجائے، چور رہنما ہوجائے، دھوکے باز کا میاب گردانا جائے ریاکار اور فسادی، بزرگ بن جائے۔ ڈاکٹر اور وکیل پیسہ کمانے کی مشین بن جائیں، تعلیم ایک منافع بخش کاروبار ہوجائے اور انصاف کی قیمت لگ جائے جہاں بدعنوانیوں کا راج ہو جہاں معصوم بچے دھڑا دھڑ ظلم وبربریت اور بدترین زیادتیوں کانشانہ بننے کے بعد قتل ہوتے ہوں اور مجرم نہ پکڑے جاسکیں۔ ہر قسم کا تقدس پامال ہوجائے بڑے بڑے لوگ ایک دوسرے کی مخالفت میں اِس حد تک اندھے ہو جائیں کہ ملک او رقوم کے مفادات کوہی دائو پر لگادیں جس سے دشمن شادیانے بجانے لگ جائیں تو اِس کا مطلب کیا ہے؟
اس کا صرف او رصرف مطلب یہ ہے کہ ہم نے پستیوں کو بلند کردیاہے۔ ہم پستیوں کے پجاری بن گئے ہیں ہم نے پستیوں کے آگے ہتھیار ڈال دئیے ہیں کیا کوئی قوم پستیوں کی بلندی کے سائے تلے زندہ رہ سکتی ہے؟ ۔ نہیں ہر گز نہیں۔