Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Munni Badnam Hui Darling Tere Lye

Munni Badnam Hui Darling Tere Lye

اگر کوئی مجھ سے فرمائش کرے کہ آپ پاکستانیوں کی مجموعی نفسیات، رہنسہن کے رویوں اور روزمرہ کی گفتار کے بارے میں کوئی تحقیقی کتاب لکھیں تو مجھے چنداں دشواری نہ ہوگی بلکہ ماشاء اللہ ایسا زرخیز ذہن پایا ہے کہ اس میں تخلیق کے جتنے بیج بوتا ہوں، ان میں سے کم ہی پھوٹتے ہیں اور جو پھوٹ کر بوٹے بن جاتے ہیں ان میں سے بیشتر کھلنے سے پیشتر مر جھا جاتے ہیں، یعنی حسرت ہی حسرت ہے ان غنچوں پہ وغیرہ… تو ماشاء اللہ ایسا زرخیز ذہن پایا ہے کہ پاکستان کے لوگوں کے بارے میں کتاب کا عنوان ابھی سے سوجھ گیا ہے۔ جیسے انگریزوں کو "اے نیشن آف شاپ کیپرز" کہتے ہیں۔ ہسپانویوں کو "اے نیشن آف بل فائٹرز" کہتے ہیں، اطالویوں کو "ایک نیشن آف لورز" یعنی عاشقوں کی قوم کہتے ہیں۔ اسرائیلیوں کو کم از کم میں خون کے پیاسے وہ کتے کہتا ہوں جو روزانہ درجنوں فلسطینیوں کا خون پی جاتے ہیں اور وہ نہتے غریب الوطن نہ ان کے ہاتھوں میں کوئی ہتھیار اور نہ ترکی کے علاوہ ان کا کوئی غم گسار۔ وہی ترکی جس کے بارے میں ہمارے چہیتے سعودی عرب کے کرائون پرنس امریکہ میں بیان دیتے ہیں کہ یہ تو فلسطینیوں کا قصور ہے کہ وہ اسرائیل سے صلح نہیں کرتے اور ایران کے علاوہ یہ ترکی ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے، اس کا قلع قمع کردیا جائے۔ ہم ان سے گزارش کرسکتے ہیں کہ یور رائل ہائی نیس آپ خود ترکی کا قلع قمع کیوں نہیں کردیتے تو وہ کہتے ہیں کہ لو ہم نے ترکی سے پھینٹی کھانی ہے۔ یوں بھی ہم فی الحال مکہ معظمہ میں عورتوں کی میراتھون ریس کے انتظامات میں مشغول ہیں۔ اپنی خواتین کو پردہ داری سے آزاد کر رہے ہیں۔ اپنی ایک شہزادی کو یہ شرعی ذمہ داری سونپ دی ہے وہ فوری طورپر فرانس اور یورپ کی بہترین ماڈل اور بہت حیا دار خواتین کو سلطنت سعودیہ کے شہروں میں فیشن شوز کے لیے ایک زرکثیر پیش کر کے مدعو کرے اور ان غیر ملکی فیشن ماڈلز کے ہمراہ ہماری اپنی خواتین بھی شرعی پیراہنوں میں ملبوس تماشائیوں کے درمیان "کیٹ واک" کریں۔ امید ہے آپ کیٹ واک کی صوفیانہ توجیہہ سے واقف ہوں گے۔ آپ اتنے گھامڑ تو نہیں ہوسکتے کہ آپ کے خیال میں "کیٹ واک" کا مطلب یہ ہے کہ "بلیاں سیر کرتی ہیں " چونکہ میں ایکزرخیز ذہن کا مالک ہوں، اس لیے آپ کے ذہن کو بھی زرخیز کرنے کے لیے عرض کرتا ہوں کہ فیشن شوز میں بہت امیر کبیر خواتین اور حضرات تماشائیوں کے درمیان ایک پلیٹ فارم ہوتا ہے جس پر ماڈل خواتین بلیوں کی مانند نخریلی ہوتی، اٹھلاتی، مٹکتی، اپنے باطن کو ظاہر کرتی، کبھی ڈھکتی اور کبھی دکھلاتی، تازہ ترین ملبوسات میں شرماتی، خرخراتی چلتی ہیں کہ اصل میں وہ ہوتی ہی بلیاں ہیں جو چھیچڑوں کے خواب دیکھتی ہیں تو اللہ کے فضل سے ان غیر ملکی ماڈلز کے ہمراہ سعودی خواتین بھی شرماتی لجاتی، کم کم مٹکتی اور یقینا باحجاب کیٹ واک کریں گی اور تماشائی واہ واہ یا صدقے جائوں تو نہ کہیں گے، سبحان اللہ، ماشاء اللہ اور جزاک اللہ کے نعرہ ہائے تحسین بلند کریں گے۔ میرا مسئلہ ہی یہی ہے۔ بڑھاپے نے غالب کو نہ صرف نکما کردیا بلکہ مخبوط الحواس بھی کردیا۔ قصہ غزہ کے قتل عام کا چھیڑا تو شرعی بلیوں کی جانب بھٹک گیا۔ البتہ ایک آخری بات ان دنوں غزہ کے بچوں کا جو روزانہ قتل عام ہورہا ہے۔ صرف ایک دن میں، لعنت ہے ان سب پر جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، ایک عظیم الشان اسلامی فوج بنائے بیٹھے ہیں جس کے سربراہ ہمارے ہی شریف ہیں تو کیا سب شریف ایسے ہی ہوتے ہیں۔ تاجر پیشہ اور حمیت کے بغیر ہوتے ہیں کہ صرف ایک دن میں ساٹھ فلسطینی پیشہ ور اسرائیلی نشانچیوں کے ہاتھوں مرغیابیوں کی طرح ہلاک کردیئے جاتے ہیں اور وہ اپنی لاکھوں ڈالر کی تنخواہوں کی بھنگ پی کر سورہے ہیں۔ غزہ کا ایک انجینئر روزانہ اسرائیل کی تعمیر کردہ دیوار کے سائے میں احتجاج کرنے کے لیے چلا جاتا ہے۔ بیت المقدس میں یہودی جشن منا رہے ہیں کہ امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کردیا گیا ہے اور اس تقریب کے مہمان خصوصی ٹرمپ کے داماد ہیں جنہیں خبر ملتی ہے کہ آج اسرائیلیوں نے ساٹھ فلسطینیوں کو لاشیں کردیا ہے اوران میں دس بچے بھی ہیں تو وہ سعودیوں کا لاڈلا کہتا ہے، اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے۔ تو جب غزہ کے اس انجینئر سے سوال کیا جاتا ہے کہ آخر تم کیوں اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہو، وہ نشانے باندھ کر نہ صرف نوجوانوں بلکہ آٹھ برس کی بچیوں کو بھی ہلاک کر رہے ہیں تو کیوں موت کے منہ میں جاتے ہو؟ تو اس نے کہا تھا، غزہ میں کوئی ایک ایسا خاندان نہیں ہے جس کا کوئی نہ کوئی فرد یا بچہ اسرائیلیوں نے ہلاک نہ کیا ہو۔ مجھے فخر ہے کہ میرا نصف خاندان اپنے وطن کے لیے نثار ہو چکا ہے تومیں کیوں احتجاج کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالتا ہوں؟ اس لیے کہ جس روزکوئی بھی فلسطینی احتجاج کے لیے اپنے گھر سے نہ نکلے گا یہ وہ دن ہو گا جب اسرائیل غالب آ جائے گا۔ مجھے اس سرزمین پر دعوے کے لیے احتجاج کرنا ہوگا ورنہ ہم نابود ہو جائیں گے۔ بات نکلی ہے تو دور تلک پہنچی ہے۔ میں تو اپنی ذہانت کی دھاک آپ پر بٹھا رہا تھا کہ پاکستانی قوم کے رویوں اورنفسیاتی بکھیڑوں کے حوالے سے اگر میں ایک تحقیقی کتاب لکھتا ہوں تو اس کا عنوان سوجھ گیا ہے اور وہ ہے "ایک واویلا کرنے والی قوم" اگر آپ کے ذہن میں جو یقینا مجھ سے زرخیز تو نہ ہوگا کوئی اور عنوان ہے تو مجھے اطلاع کردیجئے۔ بے شک آپ کے ذہن میں نہایت ہی روح پرور اور محب الوطنی میں بھیگے ہوئے عنوان آئے ہوں گے۔ یعنی "سیسہ پلائی ہوئی قوم، اسلام پر قربان قوم، موٹروے کو سلام قوم، مجھے کیوں نکالا قوم، ووٹ شیر کا قوم" وغیرہ۔ لیکن کتاب چونکہ مجھے ہی لکھنی ہے تو میرا حق ہے کہ میں اسے "ایک واویلا کرنے والی قوم" کا عنوان دوں۔ ہم دن رات شکایت کرتے رہے، واویلا کرتے رہے کہ ہم پر جو گزرتی ہے یہ سب یہود و ہنود کی سازش ہے۔ ہم تو وہ مومن ہیں جو بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے ہیں۔ ہم اتنے بھولے بھالے ہیں، میاں صاحب کے چہرے کی مانند اتنے بھولے بھالے ہیں کہ اغیار ہمارے بھولپن سے فائدہ اٹھا کر ہمیں بدنام کرتے ہیں۔ ہم وہ منی ہو چکے ہیں جو ڈارلنگ امریکہ اور سعودی عرب کے لیے بدنام ہو چکی ہے۔ یہ ایک عجب سی منی ہے کہ سارے جہاں کا درد اسی کے جگر میں ہے۔ بے چاری منی کا البتہ ایک مسئلہ ہے۔ بے شک سارے جہاں کا درد اس کے جگر میں ہے لیکن یہ درد بہت عارضی نوعیت کا ہوتا ہے اور پھر بھول بھال جاتی ہے۔ مثلاً روہنگیا کے مسلمانوں کی حالت زار اورنسل کشی پر منی نے چند روز بہت آنسو بہائے اور پھر بھول گئی کہ یہ روہنگیا وغیرہ جانے کون ہیں جبکہ آج بھی روہنگیا کے مسلمان دنیا بھر میں سب سے مظلوم قوم ہیں۔ برما کی فوج جس طور اب بھی ان کی عورتوں کی آبرو ریزی کر رہی ہے ان کی نسل ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے پوری دنیا اس کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے لیکن منی چپ ہے، بھول گئی ہے۔ یہ فلسطین تو کیا کشمیر کو بھی بھولتی جاتی ہے۔ دراصل منی ایک صدمے میں ہے وہ جس ماہی کے لیے بدنام ہوئی تھی وہ سعودی ماہی اسے نہر والے پل پہ بلا کے کہیں رفو چکر ہو گیا ہے بلکہ لبرل ہونے کے چکروں میں گھن چکر ہوگیا ہے۔ منی کو چکمہ دے گیا ہے۔"ایک واویلا کرنے والی قوم" کے ابتدائی باب اگلے کالم میں پیش کئے جائیں گے، ہوسکتا ہے آپ انہیں پڑھ کر میرے خلاف واویلا کرنے لگیں۔

About Mustansar Hussain Tarar

Mustansar Hussain Tarar

Mustansar Hussain Tarar is a Pakistani author, actor, former radio show host, and compere.

He was born at Lahore in 1939. As a young boy he witnessed the independence of Pakistan in 1947 and the events that took place at Lahore. His father, Rehmat Khan Tarar, operated a small seed store by the name of "Kisan & co" that developed to become a major business in that sphere.

Tarar was educated at Rang Mehal Mission High School and Muslim Model High School, both in Lahore. He did further studies at the Government College, Lahore and in London.