مولانا فضل الرحمٰن کاا ٓزادی مارچ کیسا ہوگا۔ مولانا کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ٹرک پر سوار ہونے پر مجبور ہو گئی ہیں۔
مولانا کے مطابق وقت آنے پر ان کے پاس اس آزادی مارچ میں ہر اول دستے کے طور پر شرکت کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ مولانا کہتے ہیں جو ان کے ساتھ نہیں آئے گا وہ اپنی سیاسی موت خود مر جائے گا اور دوست کہتے ہیں جو جائے گا وہ بھی سیاسی موت مر جائے گا۔ اس طرح مولانا کے مارچ نے پاکستان کی سیاست کو ایسے دوراہے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ جس میں حزب اختلا ف کی جماعتوں کے لیے دونوں طرف موت ہے۔
اب آزادی مارچ کیا ہوگا۔ یہ سوال بہت اہم ہے۔ ابھی تک مولانا کی جانب سے اسلام آباد دھرنے کا پروگرام جاری نہیں کیا گیا لیکن قیاس یہی ہے کہ اب مولانا اسلام آباد پہنچ کر ایک جلسہ کر کے گھر تو نہیں چلے جائینگے۔ دھرنا تو دینا ہوگا۔ یہ سارا کھیل صرف ایک جلسہ کے لیے تو نہیں سجایا جا سکتا۔ بہر حال حزب اختلاف کیا سوچ رہی ہے۔
ان کو اس سے کیا امید ہے یہ جاننے کے لیے میں نے اس آزادی مارچ کے حامیوں سے ملاقات کی ہے۔ ان میں نوازشریف کے قریبی لوگ بھی شامل ہیں۔ مولانا کے قریبی لوگ بھی شامل ہیں۔ ان سے کی گئی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ شاید اسلام آباد پہنچنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے اور کام راستے میں ہی ہوجائے۔ ان کے خیال میں ناکام مارچوں کو اسلام آباد پہنچ کر دھرنے دینے کی ضرورت پیش آتی ہے، کامیاب مارچ راستے میں ہی منزل حاصل کر لیتے ہیں۔ ماضی اس کا گواہ ہے کہ نواز شریف کو گوجرانوالہ ہی منزل مل گئی تھی۔ اس لیے اگر لوگ آگئے تو اس بار بھی منزل راستے میں ہی مل جائے گی۔
ایک سب جاننے والے اہم شخص سے پوچھا کہ روڈ میپ کیا ہے؟ اس نے کہا، یہ سول بالا دستی کا آخری معرکہ ہو گا۔ میں حیران ہوا۔ میں نے پوچھا کیسے؟ اس نے کہا مولانا نے کہا ہے کہ وہ 27اکتوبر کو چلیں گے اور31اکتوبر کو اسلام آباد پہنچیں گے۔ اس طرح جغرافیائی طور پر یہ مارچ ایسی جگہ سے ہی شروع ہوگا جہاں سے اسلام آباد پہنچنے میں چار دن لگیں گے۔ یہ کوئی لاہور سے شروع ہو کر اسلام آباد نہیں پہنچ جائے گا۔
اس طرح یہ کراچی سے شروع ہوسکتا ہے۔ جہاں پہلے بلوچستان سے قافلے پہنچیں اور پھر وہاں سے ایک بڑے قافلے کی صورت میں یہ اسلام آباد کی طرف روانہ ہو جائے۔ بلوچستا ن سے بھی شروع ہو سکتاہے اورپھر سندھ میں کشمور کے مقام پر سندھ بلوچستان اور پنجاب کا سنگم ہے۔ اس طرح تینوں صوبوں کے قافلے وہاں جمع ہو کر پنجاب میں داخل ہو سکتے ہیں۔ آپ یہ دیکھیں کہ سندھ کی حکومت اس مارچ کو نہیں روکے گی۔ ب
لوچستان کے معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے وہ حکومت بھی اس کو روکنے کی سکت نہیں رکھتی۔ ویسے بھی بلوچستان سے اچکزئی بزنجو بھی ساتھ آئینگے اور خود مولانا کی جماعت وہاں کی ایک بڑی جماعت ہے۔ سب جاننے والا شخص رکا اور اس نے مجھ سے سوال کیا کہ تمہارا کیا اندازہ ہے کہ جب یہ آزادی مارچ سندھ اور بلوچستان سے پنجاب میں د اخل ہوگا تو اس میں کتنے لوگ ہونگے۔ میں نے کہا کوئی اندازہ نہیں۔ اس نے کہا یہی سوال ہے جس میں سارے سوالوں کے جواب موجود ہیں۔ اگر مولانا اور ساری جماعتیں مل کر اتنے لوگ اکٹھے کر لیتی ہیں کہ پنجاب داخل ہونے کے بعد اس کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے تو گیم بدل جائے گی۔
یہ تعداد ہی گیم کا فیصلہ کر دیگی۔ مولانا کے خیال میں یہ تعداد لاکھوں میں ہو گی۔ اب اگر یہ تعداد س بیس ہزار ہے تو کھیل کا فیصلہ خلاف ہو جائے گا۔ اور اگر یہ تعداد ایک لاکھ سے ز یادہ ہے۔ اس طرح جتنی بڑی یہ تعداد ہو گی اتنا ہی اس کو روکنا مشکل ہوتا جائے گا اور پھر یہ مارچ فاتحانہ انداز میں اسلام آباد کی طرف بڑھے گا۔ اور جیسے اسلام آباد کی طرف بڑھے گا، منظر نامہ بدلتا جائے گا۔ کھیل بدلتا جائے۔ اگر لاہور پہنچنے تک تعداد بہت بڑھ گئی تو نواز شریف اور باقی سب کی رہائیاں بھی ممکن ہو جائیں گی۔
میں نے کہا کے پی کا کیا سین ہے۔ اس نے کہا کے پی میں ایک بڑا اتحاد بن گیا ہے۔ اے این پی مولانا کے ساتھ آگئی ہے، وہاں سے بھی ایک بڑی تعداد اسلام آباد آئے گی۔ لیکن کوشش یہی ہوگی کہ انھیں آنے میں بھی تین دن لگیں۔ قبائلی علاقوں سے بڑی تعداد میں قافلے آئیں گے۔ اے این پی کی سرخ ٹوپیاں بھی ہونگی۔ اس لیے کے پی میں روکنا عملا ممکن نہیں ہوگا۔ کوئی حکومت بھی ان پر طاقت آزمانے کی کوشش نہیں کرے گی۔ ہاں اگر تعداد دس بیس ہزار ہوگی تو روکا جا سکے گا۔ لیکن کے پی والے پہلے اسلام آباد پہنچ سکتے ہیں۔ تا ہم کوشش ہو گی کہ انھیں بھی راستے میں وقت لگے۔ اس لیے آپ یہ مت سمجھیں کہ مارچ پشاور سے شروع ہو کر چند گھنٹوں میں اسلام آباد پہنچ جائے گا۔
میں نے کہا جب آپ کہہ رہے ہیں کہ اتنی تعداد میں لوگ ساتھ ہونگے تو پھر کھانے پینے کا کیا انتظام ہوگا؟ رات کہاں رکیں گے؟ جب لوگوں کی تعداد اتنی بڑی ہوگی تو راستے میں ان کے لیے انتظامات کیسے ہونگے؟ یہ سب کیسے ممکن ہے۔ تو وہ مسکرایا۔ اس نے کہا تم نے کبھی تبلیغی اجتماع دیکھا ہے۔ میں نے کہا، گیاہوں۔ اس نے کہا کتنے لوگ ہوتے ہیں۔
میں نے کہا، لاکھوں لوگ ہوتے ہیں۔ اس نے کہا کیا کوئی دیگ پکتی ہے۔ کوئی کھانا تقسیم ہوتا ہے۔ میں نے کہا نہیں۔ لوگ اپنا انتظام خود کرتے ہیں۔ اپنا راشن بستراور اپنا لوٹا ساتھ لاتے ہیں۔ اس نے کہا اب بھی یہ سب اپنا بستر اپنا لوٹا اور اپنا راشن ساتھ لائینگے۔ ان کے لیے سب کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ کوئی تحریک انصاف کے ممی ڈیڈی لوگوں کا اجتما ع نہیں ہوگا جنھیں باقاعدہ باتھ روم اور تین وقت کھانا چاہیے۔ اس لیے انتظام ضروری ہے۔ یہ مختلف لوگ ہیں۔
اس لیے اگر مولانا اپنی بتائی ہوئی تعداد کے مطابق لوگ لانے میں کامیاب ہو گئے تو فیصلہ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہو جائے گا اسی لیے ابھی تک دھرنے اور بیٹھنے کی کال نہیں دی جارہی کیونکہ اندازہ یہی ہے کہ اس کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔ دھرنے تب ہوتے ہیں جب لوگوں کی تعداد کم ہو۔ عمران خان کو 126دن دھرنا اس لیے دینا پڑاکہ جب وہ اسلام آباد پہنچے تو ان کے ساتھ لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔
وہ اکثر خالی کرسیوں سے خطاب کرتے تھے۔ ایسے میں کیا تبدیلی آنی تھی۔ سب بے بس تھے کہ عمران خان مطلوبہ تعداد میں لوگ نہیں لا سکے۔ میں نے کہا، طاہر القادری تو لائے تھے، اس نے کہا یہ حقیقت ہے کہ بیٹھنے والے لوگوں میں طاہر القادری کی تعداد زیادہ تھی لیکن دس ہزار بھی نہیں تھی۔ دس ہزار تبدیلی نہیں لا سکتے۔ اور وہ بھی حلوہ کھانے والے۔ اس کام کے لیے جم غفیر چاہیے۔ اسی لیے مولانا کہہ رہے ہیں کہ لاکھوں میں لائیں گے۔ اگر پنجاب داخلے وقت لاکھوں نہ ہوئے تو کھیل مولانا کے خلاف ہو جائے گا۔
میں نے کہا اگر پہلے گرفتاریاں ہو گئیں۔ اس نے کہا کتنی۔ ایک ہزار پانچ ہزار۔ یہ کوئی وائٹ کالر سیاسی جماعت کی کال ہے کہ چند گرفتاریوں سے ماحول بدل جائے گا۔ لوگ ڈر جائینگے۔ گھر سے نہیں نکلیں گے۔ یہ مدارس کے لوگ ہونگے۔ یہ دینی جماعت کے لوگ ہیں۔ ان کو گرفتاریوں سے نہیں روکا جا سکتا۔ نہ اتنی جیلیں ہیں اور نہ ہی اتنی گرفتاریاں ممکن ہیں۔ گرفتاریاں ماحول بنائیں گی۔
میں نے کہا، لبیک کا حال دیکھیں۔ اس نے کہا، ان کے کسی دھرنے میں لوگوں کی تعداد چند ہزار سے بھی زیادہ نہیں تھی۔ میں نے پہلے بھی کہا کھیل تعداد کا ہے۔ تمھیں سمجھ نہیں آرہی۔ اس کا اشارہ تشویش ناک تھا۔ اس لیے میں نے گفتگو ختم کر دی۔