میں اس بات پر کا مل یقین رکھتا ہوں کہ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست ہونا چاہیے۔ تمام وسائل عوام پر خرچ ہونے چاہیے۔ حکومت کو عوام کی فلاح اور ان کی بہتری کے منصوبوں پر دل کھول کر پیسے خرچ کرنے چاہییں۔ لیکن میں پاکستان کو ایک بھکاری قوم بنانے کے حق میں بھی نہیں ہوں۔
اس تناظر میں میں بے نظیر انکم سپورٹ جیسے پروگراموں کے حق میں نہیں ہوں۔ میری رائے میں حکومت ایک دفعہ ایسی مدد کرے کہ شہری اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے۔ مستقل بھکاری اور بھیک قوم کے لیے زہر قاتل ہے۔ یہ درست ہے کہ اگر کوئی شہری کام کرنے کے قابل ہی نہ رہ جائے تو اس کی تو مدد کرنا حکومت کا فرض ہے۔
لیکن صحت مند لوگوں کی مستقل مدد کوئی اچھی روایت نہیں ہے۔ میں پہلے دن سے ماہانہ دو ہزار روپے دینے کی بجائے ایک دفعہ پچاس ہزار یا لاکھ روپے دینے کے حق میں تھا۔ آپ اس کو قرضہ حسنہ بھی کہہ سکتے تھے۔ ویسے بھی ماہانہ دو ہزار دیکر ہم چار سال میں ایک لاکھ کے قریب دے ہی دیتے ہیں۔ تو اکٹھے دینے میں کیا برائی ہے۔
ایک دن میں اخوت کے روح رواں ڈاکٹر امجد ثاقب کے پاس بیٹھا تھا، وہ لوگوں کو بلا سود قرضہ دینے کی ایک این جی او چلا رہے ہیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ انھوں نے پچاس سے زائد ایسے کاروبار تلاش کیے ہوئے ہیں جو پچاس ہزار سے دو لاکھ میں شروع ہو جاتے ہیں۔ اور لوگ قرضہ واپس کرنے کی پوزیشن میں بھی آجاتے ہیں۔ صرف کام کرنے کی امنگ ہونی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں حکومت کو ایک دفعہ قرض دینا چاہیے اور پھر واپس نہیں مانگنا چاہیے تا کہ غریب مستقل اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم کی مشیر ڈاکٹر ثانیہ نشترجو آجکل بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو دیکھ رہی ہیں۔ انھوں نے آٹھ لاکھ سے زائد لوگوں کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کی جانب سے کی جانے والی تحقیق نہ صرف حیران کن بلکہ پریشان کن بھی تھی۔ میں ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو اس تحقیق اور ان آٹھ لاکھ لوگوں کو نکالنے پر زبردست خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ آپ دیکھیں کیسے کیسے لوگ دو ہزار ماہانہ بھیک لے رہے تھے اور حق داروں کا حق کھا رہے تھے۔
حکومتی تحقیق میں ان میں ایک لاکھ53ہزار 302ایسے لوگ ہیں جنہوں نے گزشتہ ایک سال میں بیرون ملک سفر کیا ہے۔ آپ خود اندازہ لگائیں کیا بیرون ملک سفر کی مالی حیثیت رکھنے والا شہری حکومت سے دو ہزار ماہانہ کی امداد لینے کا مستحق ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ان میں ایک لاکھ 95ہزار 364لوگ ایسے ہیں جن کی بیوی یا خاوند نے گزشتہ ایک سال میں بیرون ملک سفر کیا ہے۔
مطلب اگر بیوی انکم سپورٹ پروگرام سے پیسے لے رہی ہے تو خاوند نے بیرون ملک سفر کیا ہے۔ اور اگر خاوند بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے رقم لے رہا ہے تو بیوی نے بیرون ملک سفر کیا ہے۔ صاف ظاہر کے خاندان مالی طور مستحکم ہو چکا ہے۔ اور اسے اب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مدد کی ضرورت ہے۔ ان میں 10476ایسے لوگ بھی ہیں جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ایک زکوۃ بھی لے رہے ہیں اور دوسری طرف انھوں نے سال میں ایک مرتبہ سے زائد بیرون ملک سفر کیا ہے۔ کیسے کیسے بے حس لوگ ہم میں موجود ہیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ سے رقم لینے والوں میں 692 ایسے خوش نصیب بھی شامل ہیں جن کے ملکیت میں ایک سے زائد گاڑیاں موجود ہیں۔ حکو متی ریکارڈ میں وہ ایک سے زائد گاڑیو ں کے مالک ہیں۔ 43746 ایسے خوش نصیب ہیں جن کی بیگم یا خاو ند کے نام پر ایک سے زائد گاڑیاں موجود ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ بیگم زکو ۃ لے رہی ہے اور خاوند دو یا اس سے بھی زائد گاڑیوں کا مالک ہے۔ یا پھر خاوند زکوۃ لے رہا ہے اور بیگم دو یا اس سے بھی زائد گاڑیوں کی مالک ہے۔ یقینا یہ غریب لوگ نہیں ہیں۔ یہ بے حس لوگ ہیں۔
24546ایسے لوگوں کی نشاندہی ہوئی ہے جو ایک طرف بے نظیر انکم سپورٹ سے ماہانہ وظیفہ بھی لے رہے ہیں اور دوسری طرف ان کے موبائل یا پی ٹی سی ایل کا ماہانہ بل ایک ہزار ماہوار سے زائد ہے۔ یہ کیسے غریب ہیں جو ایک طرف دو ہزار مہینہ مدد لے رہے ہیں اور دوسری طرف دو ہزار روپے مہینہ موبائل بل دے رہے ہیں۔ ایک لاکھ 15ہزار 767ایسے لوگ ہیں جن کے خاوند یا بیگم کا موبائل یا ٹیلی فون ایک ہزار روپے ماہوار سے زیادہ ہے۔ یہ کسی ایک ماہ کی بات نہیں ہو رہی۔ پورے ایک سال ان کا بل ماہوار ایک ہزار سے زائد رہا ہے۔ یہ موبائل پر واٹس ایپ اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگ ہیں۔ یقینا ان کے پاس ہزاروں روپے مالیت کے اسمارٹ فون بھی موجود ہیں۔
666ایسے لوگ ہیں جنہوں نے حکومت پاکستان کی ایگز یکٹو سروس سے پاسپورٹ بنوایا ہے۔ یہ سروس امیر لوگوں کو وی آئی پی پروٹوکول دینے کے لیے شروع کی گئی ہے۔ اب آپ زکو ۃ لے کر امیروں والی سروس کیسے انجوائے کر سکتے ہیں۔ 580افراد کی بیگم یا خاوند نے یہ سروس حاصل کی ہے۔ 36970ایسے لوگ ہیں جن کے خاندان کے تین یا اس سے زائد افراد نے گزشتہ ایک سال میں نادار کو ایگز یکٹو فیس دیکر شناختی کارڈ اپلائی کیا ہے۔ خدا کی قدرت دیکھیں 14730سرکاری ملازم بھی اپنے نام پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے پیسے لے رہے ہیں۔
ایک طرف سرکار سے تنخواہ لے رہے ہیں دوسری طرف بے نظیر انکم سپورٹ سے ماہانہ وظیفہ بھی لے رہے ہیں۔ ان میں ایک لاکھ 27ہزار 826ایسے لوگ بھی تھے جن کے خاوند یا بیگم سرکاری ملازم ہیں اور وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے پیسے لے رہے ہیں۔ اس طرح ڈ اکٹر ثانیہ نشتر نے اس تحقیق اور ڈیٹا کی روشنی میں آٹھ لاکھ 20ہزار 165لوگوں کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ خوش آئند اقدام ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس کو گڈ گورننس اور قوم کی خدمت کہتے ہیں۔