ملک میں کورونا اور بجٹ کا شور ہے۔ عوام کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ بجٹ سے زیادہ خوف کھائیں یا کورونا سے۔ موت تو بجٹ میں بھی ہے اور کورونا میں بھی ہے۔ ادھر یہ طے کرنا بھی مشکل ہے کہ کورونا پالیسی حکومت کو زیادہ نقصان پہنچا ئے گی یا موجودہ بجٹ زیادہ نقصان دہ ہوگا۔ بظاہر دیکھا جائے تو دونوں ہی حکومت کے لیے زہر قاتل بن رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود موجودہ صورتحال میں حکومت کو کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا۔
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو کورونا سے پہلے ہی پاکستان کی سیاست ایک جمود کا شکار ہو گئی تھی۔ کہیں کوئی حرکت نہیں تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے سب اپنی اپنی جگہ ساکت ہو گئے ہیں۔ نہ کوئی ایک قدم آگے اور نہ ہی کوئی ایک قدم پیچھے ہٹنے کے لیے تیار تھے۔ یہ صورتحال حکومت کے لیے بہترین تھی۔ حکومت کے مضبوط ہونے کا تاثر مضبوط سے مضبوط ہو تا گیا۔ مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کی ناکامی اور نواز شریف کی لندن روانگی کے بعد سب ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ کورونا سے پہلے ہی ایک ماحول بن گیا تھا کہ عمران خان کو اب اپوزیشن کی کسی جماعت سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
کورونا نے سیاست کے جمود کو مزید مستحکم کر دیا ہے۔ ہلکی پھلکی سیاسی سرگرمیاں بھی بند ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ کورونا بھی عجیب ہے اب تک صرف اپوزیشن کے رہنما ہی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ جب کہ حکومتی عہدیدار اس سے محفوظ نظر آتے ہیں۔ ایک دوست کے مطابق ابھی تک تو کورونا بھی نیب ہی بن گیا ہے، صرف اپوزیشن کے رہنمائوں کو پکڑ رہا ہے۔ جب کہ حکومت کو اس سے عام معافی نظر آرہی ہے۔ یہ درست ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی اس کا شکار ہو ئے ہیں۔ لیکن وہ باقاعدہ حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ کورونا نے حکومت کو زندگی دی ہے۔ اگر کورونا نہ آتا تو حکومت کا بستر گول کرنے کے انتظامات مکمل تھے۔ اسٹبلشمنٹ اور اپوزیشن کے درمیان معاملات اور اگلا روڈ میپ طے ہو گیا تھا۔ عمران خان سے جان چھڑانے پر اتفاق رائے ہو گیا تھا۔ بجٹ کے بعد ملک کا سیاسی منظر نامہ بدل جانا تھا۔ تمام خاموشی اور جمود اسی طوفان کا پیش خیمہ تھا۔ گیم بن گئی تھی۔ لیکن پھر فروری میں کورونا آگیا۔ کورونا کے دوران حکومت کی تبدیلی ممکن نہیں۔ بجٹ تک انتظار اس لیے تھا کیونکہ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات میں بجٹ سے قبل حکومت کی تبدیلی ممکن نہیں تھی۔ اس لیے طے یہی تھا کہ بجٹ یہی حکومت پیش کرے گی۔ اس کے بعد کھیل بدل دیا جائے گا۔ لیکن پھر کورونا آگیا۔
دوست احباب کا خیال ہے کہ کورونا نے عمران خان کو سیاسی زندگی دی ہے۔ لیکن اب سوال ہے کب تک۔ سیاست میں جمود زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا۔ کب تک اپوزیشن کو اس طرح چپ بٹھایا جا سکتا ہے۔ کھیل کو کب بدلا جائے گا۔ کیا کھیل اس طرح لمبے عرصے تک چلا یا جاسکتاہے۔ اگر کھیل کو لمبے عرصہ تک یونہی چلانا ہے تو بار بار کھیل بدلنے کے اشارے کیوں دیے جاتے ہیں؟ عمران خان کو مائنس کرنے کی نئی نئی تھیوریاں مارکیٹ میں کیوں آتی ہیں؟ ایک بحران کے بعد نیا بحران کیوں آجاتا ہے؟ کیوں حکومت دن بدن اندر سے کمزور ہوتی جا رہی ہے؟ ایسا کیوں نظر آرہا ہے کہ اس حکومت کو گرانے کے لیے اپوزیشن کی کوئی ضرورت نہیں، یہ اندر سے ہی گر جائے گی۔
بہر حال اب کیا کھیل ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ کورونا کی اموات اور بجٹ کے اثرات ملکر اس حکومت کو گرا سکتے ہیں۔ جولائی اگست میں جب اموات خطرناک حد تک بڑھ جائیں گی۔ اگر لندن کے امپیریل کالج کا سروے درست ثابت ہو گیا اور روزانہ اسی ہزار اموات ہونے لگیں تو عمران خان کے لیے اپنی حکومت بچانا مشکل ہو جائے گا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب اموات کی تعداد اتنی بڑھ جائیں گی تو سب عمران خان کو مورد الزام ٹھہرائیں گے کہ انھوں نے بر وقت لاک ڈائون نہیں کیا۔ آپ یقین کریں جب اموات بڑھیں گی تو کوئی یہ منطق نہیں مانے گا کہ اگر لاک ڈائون کرتے تو لوگ بھوک سے مر جاتے۔ سب یہی کہیں گے کہ پاکستان میں آج تک کوئی بھوک سے نہیں مرا ہے۔ اس لیے اب یہی خیال ہے کہ لاک ڈائون کی مخالفت کر کے عمران خان نے اپنے لیے خود ہی کنواں کھود لیا ہے۔ اب جیسے جیسے اموات بڑھیں گے وہ اور ان کی حکومت اس کنویں میں گرتے جائیں گے۔
کھیل کھیلنے والوں کا ابتدائی خیال تو یہی تھا کہ مالی بحران اس حکومت کو لے بیٹھے گا۔ عوام پر مالی مظالم کی وجہ سے یہ حکومت عوامی حمایت اس حد تک کھو دے گی کہ اس کا برقرار رہنا مشکل ہو جائے گا۔ لوگ اس حکومت کو ایک نا اہل اور نالائق حکومت مان کر اس سے جان چھڑائیں گے۔ اس لیے پہلے اسکرپٹ یہی تھا کہ نالائقی اوراور مالی پالیسیاں اس حکومت کے جانے کا سبب بنیں گی۔ اسی لیے بجٹ کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ تاہم اب اس میں کورونا نے خوب تڑ کا لگا دیا ہے۔ اس لیے کام آسان ہوجائے گا۔
آپ یہ بھی دیکھیں اس حکومت کے خلاف چارج شیٹ بھی تیار ہو رہی تھی۔ حکومت کے نیک پروین ہونے کا تاثر بھی ختم کیا جارہا تھا۔ چینی سکینڈل، آٹا سکینڈل، ادویات کا سکینڈل اور دیگر سکینڈل حکومت کی ساکھ کو خراب کر رہے ہیں۔ اس لیے جس طرح جب بھی کسی حکومت کی چھٹی کرائی جاتی ہے تو ایک چارج شیٹ پہلے سے موجود ہوتی ہے تا کہ عام آدمی یہ مان لے کہ حکومت جانے کی وجوہات یہ چارج شیٹ ہے۔ اسی لیے اس حکومت کے خلاف بھی چارج شیٹ بننی شروع تھی۔ اس کی میڈیا میں بھی دھوم نظر آرہی تھی۔ میڈیا کا رویہ بھی حکومت کی جانب بدلا ہوا صاف نظر آرہا ہے۔ کل تک جو حکومت کے حمایتی تھے وہ بھی اب بدلے نظر آرہے ہیں۔
اس لیے اس منظرنامہ کے تحت کیا یہ ممکن ہے کہ ستمبر کے بعد ملک میں ایک سیاسی کھیل شروع ہو سکتا ہے۔ جو حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرے گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا عمران خان کو مائنس کیا جائے گا۔ آج سے ایک سال قبل تو یہی سوچ تھی کہ حکومت تبدیل کرنے کے لیے عمران خان کو مائنس کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اب شاید سوچ بدل گئی ہے۔ اب یہ رائے بھی بن رہی ہے کہ حکومت بدلنے کے لیے عمران خان کو مائنس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ اگر انھیں بدلا گیا تو وہ سیاسی شہید بن جائیں گے۔ اور ایک بڑا خطرہ بن جائیں گے۔ اس لیے اگر عمران خان کو حکومت سے نکالنا ہے تو سیاست سے بھی نکالنا ہے۔
یہ بھی رائے تھی کہ عمران خان کی کوئی سیاسی وراثت نہیں ہے۔ اس لیے مائنس کرنے کی صورت میں ان کی پارٹی ٹوٹ جائے گی۔ تا ہم اب شاید انھیں مائنس کرنے کا فیصلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ سوچا جا رہا ہے کہ ان کی خراب کارکردگی اور کورونا کی اموات ہی انھیں نکالنے کے لیے کافی ہیں۔ وہ اس طرح پھنس جائیں گے کہ ان کے پاس مزاحمت کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ بڑی تعداد میں اموات اور بری مالیاتی کارکردگی انھیں گھر جا کر آرام سے بیٹھنے پر مجبور کر دے گی۔ جہانگیر ترین کھیل کا حصہ ہیں۔ وہ اس حکومت کے جانے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ وہ لندن میں آرام سے نہیں بیٹھیے ہیں۔ اس لیے ایک کھیل کی تیاری ہو رہی ہے۔ سب کھلاڑی اس کی تیاری میں ہیں۔ کوئی بھی غافل نہیں ہے۔ اسی لیے سب کے مزاج بدلے بدلے نظر آرہے ہیں۔