پاکستان میں کورونا سے نبٹنے کے لیے تمام صوبائی حکومتیں اقدامات کر رہی ہیں۔ آیندہ حکومتوں کی کارکردگی کورونا سے نبٹنے کی کارکردگی سے مشروط ہوتی نظر آرہی ہیں۔ جہاں کارکردگی اچھی ہوگی، اقدمات بروقت ہوں گے، نقصان کم ہوگا، اس حکومت کی کارکردگی اچھی مانی جائے گی۔ یوں کورونا بھی کارکردگی جانچنے کا ایک پیمانہ بن جائے گا۔
پاکستان میں بھی صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومتوں کی کارکردگی اور ان کے اقدمات کی ٹائمنگ کی حوالے سے بحث شروع ہو گئی ہے۔ جب کہ عثمان بزدار کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ویسے اگر سندھ اور پنجاب کی کورونا کے حوالے سے اب تک کارکردگی کا موازنہ بنتا ہے تو یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کہاں مریض زیادہ ہیں، کہاں اموات زیادہ ہیں۔
اگر دونوں باتوں کو سامنے رکھا جائے تو عثمان بزدار کی اب تک کارکردگی مراد علی شاہ سے کہیں بہتر ہے۔ پنجاب کی آبادی سندھ سے زیادہ ہے لیکن پنجاب میں کورونا کے مریضوں کی تعداد کم ہے۔ یہاں اموات کم ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پنجاب میں سندھ کی نسبت صورتحال بہتر ہے۔ ہمارا میڈیا جس وزیر اعلیٰ کو کورونا کا ماہر ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہاں صورتحال دن بدن خراب ہو رہی ہے جب کہ جس وزیر اعلیٰ کے بارے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ انھیں کورونا کا کچھ علم نہیں وہاں صورتحال بہتر ہے۔ بلوچستان تو تفتان میں ایک اچھا قرنطینہ سینٹر نہیں بنا سکا ہے۔ کے پی کے کارکردگی بھی کوئی متاثر کن نظر نہیں آرہی ہے۔
میں مسلسل یہ بات لکھ رہا ہوں کہ عثمان بزدار کے نادان دشمن ان پر وار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ وہ دشمنی میں اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ انھیں وقت کا اور موقع کا احساس نہیں رہتا۔ انھوں نے کورونا کو بھی عثمان بزدار کے خلاف استعمال کیا ہے۔ عثمان بزدار کے یہ مخالفین گزشتہ بیس ماہ سے عثمان بززدار کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں اور مسلسل ناکام ہو رہے ہیں۔ نادان دشمن ہر بار سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں اور منہ کے بل گرتے ہیں۔ اس بار بھی وہ ناکام ہوتے نظر آرہے ہیں۔ پنجاب میں کورونا سے نبٹنے کے لیے اقدمات کا اگر جائزہ لیا جائے تو سندھ سے بہتر نظرا ٓئیں گے۔ لیکن شاید عثمان بزدار کے نادان دوست اس حقیقت کو منظر پر آنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ پنجاب کی عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔
پنجاب میں کورونا کے خلاف بڑی لڑائی ڈیرہ غازی خان اور ملتان میں لڑی جا رہی ہے۔ عثمان بزدار نے ایسی حکمت عملی بنائی ہے کہ کورونا کو پورے پنجاب میں پھیلنے سے روکا جائے۔ اسی لیے ایران سے آنے والے زائرین کی بڑی تعداد کو ان دونوں شہروں میں بنائے گئے خصوصی قرنطینہ سینٹرز میں رکھا گیا ہے۔ ان دونوں شہروں میں بنائے گئے بروقت اور بہترین قرنطینہ سینٹرز کی وجہ سے ہی کورونا پورے پنجاب میں پھیلنے سے رکا ہے اور پنجاب میں سندھ سے صورتحال بہتر ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پنجاب میں کورونا کے خلاف بڑی جنگ ان دونوں شہروں کے قرنطینہ سینٹرز میں ہی لڑی جا رہی ہے۔
لاہور کے پی کے ایل آئی سینٹر میں لندن اور یورپ سے آنے والے لوگ رکھے گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے لاہور کی صورتحال کراچی سے بھی بہتر ہے۔ آیندہ چند د دنوں میں ایران سے دس ہزار زائرین نے پنجاب پہنچنا ہے۔ حکومت پنجاب نے ان دس ہزار زائرین کو خصوصی قرنطینہ سینٹرز میں رکھنے کے لیے ابھی سے انتظامات کر لیے ہیں۔ فیصل آباد سمیت دیگر شہروں میں قرنطینہ سینٹرز بنائے گئے ہیں۔ حکومت پنجاب کے تمام انتظامات مکمل ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ان زائرین کے آنے کے بعد شور مچا دیا جائے۔ عثمان بزدار کی کوشش ہے کورونا کو ان قرنطینہ سینٹرز تک ہی محدود رکھا جائے اور شہروں میں پھیلنے سے روکا جائے۔ سندھ کے قرنطینہ سینٹرز میں مریضوں کا احتجاج اور پنجاب کے قرنطینہ سینٹرز میں بہتر سہولیات عثمان بزدار کے نادان دوستوں کو نظر نہیں آرہی ہیں۔ سب نے تفتان پر قائم قرنطینہ سینٹر کی ناقص سہولیات پر احتجاج کیا ہے۔ لیکن عثمان بزدار نے پریس کانفرنس میں احتجاج کرنے کے بجائے اس سینٹر کا جائزہ لینے کے لیے پنجاب کی ایک وزارتی کمیٹی تشکیل دی تا کہ اس سینٹر کو بہتر بنانے کے لیے بلوچستان حکومت کی مدد کی جا سکے۔
نادان دوستوں کو عثمان بزدار کی جانب سے قائم کیا جانے والا فنڈ نظر نہیں آرہا۔ اس فنڈ میں آٹھ ارب روپے ڈال دیے گئے ہیں۔ مزید فنڈنگ اکٹھی کی جا رہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ابھی تک پنجاب کی صورتحال سندھ سے بہتر ہے۔ فنڈ اکٹھا کرنے میں بھی پنجاب کی کارکردگی سندھ اور دوسرے صوبوں سے بہتر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمام صوبائی حکومتوں کو ایسا فنڈ قائم کرنا چاہیے۔ صوبہ بھر کے مخیر حضرات کو اس فنڈ میں حصہ ڈالنا چاہیے۔
تا کہ لاک ڈاؤن کی صورت میں عوام کی مدد کی جا سکے۔ ہمارے ملک میں یہ رواج رہا ہے کہ کار خیر کے کاموں میں بھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کی کوشش کی جا تی ہے۔ لیکن میری مخیر حضرات سے گزارش ہے کہ وہ اس بار ایک متحد کوشش کریں۔ سب کو ملکر صوبائی حکومتوں کے قائم فنڈ میں ہی اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ پنجاب کے فنڈ میں آٹھ ارب روپے جمع ہونا خوش آیند ہے۔
پنجاب حکومت کے تمام ڈیلی ویجز ملازمین کو نوکری سے نہ نکالنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے اور موازنہ کے اصول طے کیے جائیں تو شاید عثمان بزدار کی کارکردگی کا مقابلہ مشکل ہو جائے۔ لیکن اگر نادان دشمنوں کی عینک سے دیکھ جائے تو ان تمام اقدامات کے باوجود یہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ کورونا کے بارے میں عثمان بزدار کو "کچھ علم" نہیں ہے۔ بغیر علم کے ہی انھوں نے کورونا کے آغاز میں ہی اس سے نبٹنے کے لیے ورکنگ گروپ قائم کر دئے تھے۔ جنھوں نے بر وقت مربوط حکمت عملی بنائی۔ پنجاب میں اس وقت ون مین شو نہیں ہے۔ ایک ٹیم کام کر رہی ہے۔ عثمان بزدار اس ٹیم کے کپتان ہیں۔ اس لیے ٹیم کے اچھے اور برے کھیلنے کی ذمے داری بھی عثمان بزدار کی ہی ہے۔
کورونا نے عام آدمی کو دو طرح سے مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ایک طرف لاک ڈاؤن کے خطرات نے عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل کر دی ہے، دوسری طرف کورونا کے خوف نے زندگی مشکل کر دی ہے۔ ایسے میں حکومت کا فرض ہے کہ عام آدمی کی مشکلات میں کمی کرے۔ پوری دنیا میں حکومتیں اپنی عوام کی مدد کر رہی ہیں۔ پاکستان میں حکومت کو معاشی بحران کا رونا رونے کے بجائے عام آدمی کی مدد کرنے کا اعلان کرنا چاہیے۔
سب سے پہلے پرائیویٹ ملازمین کے روزگار کو تحفظ دینے کے لیے اقدمات کرنے چاہیے۔ حکومت کو فوری طور پر ایک قانون بنانا چاہیے جس میں کسی کو بھی کورونا کے دوران نوکری سے نکالنے پر پابندی ہونی چاہیے۔ اگر کوئی تنخواہ نہیں دے سکتا تو اس کو حکومت سے مدد لینی چاہیے۔ لیکن ملازم کو نوکری سے نکالنے پر پابندی ہونی چاہیے۔ بھارت نے دیہاڑی دار لوگوں کے لیے پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں ایسے پیکیج کا اعلان ہونا چاہیے۔ پنجاب کی آبادی زیادہ ہے۔ اس لیے اس آبادی کو سنبھالنے کی ذمے داری بھی زیادہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ عثمان بزدار کو اس ذمے داری کا احساس ہے۔ اسی لیے انھوں نے فنڈ قائم کیا ہے۔