میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ایران کورونا سے نبٹنے کے لیے بر وقت اقدمات کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ایران سے واپس آنے والے زائرین کو تفتان میں رکھا گیا، اس ضمن میں تفتان میں بنائے گئے قرنطینہ سینٹر میں نا مناسب سہولیات پر تنقید شروع ہو گئی ہے۔
ایک بحث یہ بھی شروع ہوئی ہے کہ جب ووہان سے بچے واپس اس لیے نہیں لائے گئے کہ ان کی واپسی سے پاکستان میں کورونا پھیلنے کا خطرہ تھا۔ تو یہ دلیل ایران سے آنے والے زائرین پر کیوں استعمال نہیں کی گئی۔ تا ہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ووہان میں بچوں کی تعداد کم تھی اور ایران میں پاکستانی زائرین کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو ایران کی انتظامیہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ ویسے بھی ایران اور چین بہت فرق تھا۔ چین نے تو ہمارے بچے سنبھال لیے جب کہ ایران ہمارے زائرین کو سنبھالنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
چین اور ایران کا موازنہ بھی ثابت کرتا ہے کہ چین کے پاس ہمارے بچے رکھنے اور سنبھالنے صلاحیت تھی جب کہ ایران کے پاس یہ صلاحیت نہیں تھی۔ ایران نے بروقت زائرین کی آمد پر پابندی بھی نہیں لگائی اور کورونا کے دوران ہزاروں زائرین کو بغیر کسی حفاظتی تدبیر کے ملک میں آنے کی اجازت دی جس کی وجہ سے وہاں کورونا پھیل گیا۔ سونے پر سہاگہ ہم نے بھی کورونا کے تناظر میں ان تمام زائرین کی واپسی کے لیے کوئی اچھے انتظامات نہیں کیے۔ جس کی وجہ سے کورونا پورے پاکستان میں پھیل گیا ہے۔ اور آج دنیا پاکستان کو کورونا کے حوالے سے ایک خطرناک ملک قرار دے رہی ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ نہ تو وفاقی حکومت اور نہ ہی بلوچستان کی حکومت اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں بلوچستان حکومت کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ اگر زائرین کی واپسی ناگزیر تھی اور ایران ان کو چین کی طرز پر رکھنے کے لیے تیار نہیں تھا تو حکومت پاکستان کو ان کی واپسی کے لیے مناسب اقدمات کرنے چاہیے تھے۔
حالت تو یہ تھی کہ زائرین تو دور کی بات ہم تفتان پر ڈاکٹرز کو بھی مناسب کٹ فراہم نہیں کر سکے۔ اسی لیے تفتان پر زائرین کا علاج کرتے ہوئے پاکستان کا نوجوان ڈاکٹر اسامہ جان کی بازی ہار گیا ہے۔ اس کے پاس کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے مناسب لباس اور کٹ موجود نہیں تھی لیکن وہ پھر بھی مریضوں کا علاج کرتا رہا۔ ہم بحیثیت قوم ڈاکٹر اسامہ کو جتنا بھی خر اج تحسین پیش کریں کم ہیں۔
مجھے افسوس ہے کہ ڈاکٹر اسامہ کی موت کے بعد اب تک حکومت پاکستان کا رویہ افسوسناک ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ڈاکٹرز انتہائی نامناسب حالات اور وسائل میں اس جنگ کو لڑیں تو ہمیں ڈاکٹر اسامہ کو اتنا خراج تحسین پیش کرنا ہوگا کہ سب کو اس پر رشک آجائے۔ ہر ڈاکٹر ڈاکٹر اسامہ بننے کے لیے تیار ہو جائے۔ ہمیں اس کے خاندان کو وہ سب مراعات دینی چاہیے جو ایک شہید کے ورثاکو دی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں ابھی تک حکومت کی جانب سے مکمل بے حسی دکھائی جا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف میں مایوسی پھیل سکتی ہے۔
میری حکومت سے درخواست ہے کہ ڈاکٹر اسامہ کی خدمات کو قومی سطح پر تسلیم کی جائے۔ ان کو اعلیٰ سول اعزاز سے نواز جائے۔ ان کے گھر والوں کو وہ تمام عزت اور احترام دیا جائے جس کے وہ اہل ہیں۔ ان کے لیے بہترین مالی پیکیج کا اعلان کیا جائے۔ بلکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ سرکاری سطح پر اعلان کرے کہ کورونا کے دوران اگر کسی ڈاکٹر یا پیرامیڈیکل اسٹاف کی موت ہو گی تو اس کو شہید کا درجہ دیا جائے گا۔ اور اس کو وہ تمام مراعات دی جائیں گی جو شہید کو دی جاتی ہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ڈاکٹرز بد دل ہو جائیں گے او ر کام سے بھاگ جائیں گے۔
کیا یہ حکومت پاکستان کے لیے ممکن نہیں تھا کہ تفتان پر زائرین کے لیے بہترین میڈیکل سہولیات کا بندو بست کیا جاتا۔ لیکن اگر ایک لمحہ کے لیے فرض بھی کر لیا جائے کہ یہ صلاحیت موجود نہیں تھی تو وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ پاک فوج کو درخواست کرتے کہ جس طرح جنگ میں محاذ پر چند گھنٹوں میں اسپتال بنا لیا جاتا ہے اسی طرح تفتان کے بارڈر پر ان زائرین کے لیے بہترین اسپتال بنا دیا جائے۔
یقینا پاک فوج کے پاس یہ صلاحیت موجود تھی۔ لیکن ہم نے استعما ل نہیں کی۔ تفتان بارڈر پر زائرین کو جس طرح رکھا گیا ہے۔ جس طرح کا نام نہاد قرنطینہ سینٹر بنایا گیا ہے۔ وہاں سے لوگوں کی بری حالت میں جیسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں۔ اس کو جرم نہ کہاجائے تو کیا کہا جائے۔ وہاں قرنطینہ سینٹر کے نام پر زائرین کو بھیڑ بکریوں کی طرح جیسے رکھا گیا وہ ایک جرم تھا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم تو تفتان بارڈر پر ماسک جیسی بنیادی چیز بھی مہیا نہیں کر سکے۔
کیا کوئی بھی حکومت اپنے شہریوں کے ساتھ یہ سلوک کر سکتی ہے۔ اگر ہم تفتان پر زائرین کو رکھ نہیں سکتے تھے تو انھیں بسوں اور گاڑیوں پر ملک بھر میں جانے کی اجازت کیوں دی گئی۔ کیا ہماری حکومت اتنی گئی گزری تھی کہ ان زائرین کو تفتان سے مناسب قرنطینہ سینٹرز میں ائیر لفٹ نہیں کر سکتے تھے۔ اگر ان زائرین کو اپنے اپنے صوبوں میں قائم قرنطینہ سینٹرز میں ہی رکھا جانا تھااور وفاقی و بلوچستان حکومت ان کی ذمے داری اٹھانے سے قاصر تھے تو انھیں تفتان سے ائیر لفٹ کر دیا جاتا۔ لیکن ایسا بھی نہیں کیا گیا۔ آج ہم اس ساری کوتاہی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اللہ ہمارے گناہ معاف کرے۔