سندھ میں آئی جی کی تبدیلی کے تنازعہ اور پنجاب میں چیف سیکریٹری اور آئی جی کی حکومت سے محاذ آرائی سے ملک میں عجیب بحث شروع ہو گئی ہے کہ کیا یہ حکومت افسر شاہی کے ماتحت ہے یا افسر شاہی حکومت کے ماتحت ہے۔
سندھ کے آئی جی کے تبدیلی کے معاملے میں وفاقی حکومت کی پوزیشن اخلاقی اور قانونی طور پر بہت کمزور ہے۔ جب پنجاب میں کئی آئی جی تبدیلی کیے گئے ہیں تو سندھ میں آئی جی کیوں تبدیلی نہیں ہو سکتا۔ جب پنجاب میں آئی جی کی تبدیلی پر کوئی تنازعہ پیدا نہیں ہوتا تو سندھ میں تنازعہ کیوں ہے۔
کیا سندھ کے لیے الگ قانون ہے اور پنجاب کے لیے الگ قانون ہے۔ ایسا سندھ میں پہلی بار نہیں ہو رہا ہے۔ کلیم امام سے پہلے گزشتہ دور میں اے ڈی خواجہ کی تبدیلی کے موقع پر بھی سندھ اور وفاق کے درمیان ایسے ہی تنازعہ پیدا ہوا تھا۔ حالانکہ تب مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت نہیں تھی۔ لیکن ن لیگ کی حکومت میں بھی سندھ کی پی پی پی کی حکومت کو اپنی مرضی کا آئی جی لگانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
حالانکہ اس وقت کے پی میں تحریک انصاف کو اپنی مرضی کا آئی جی ملا ہوا تھا۔ پنجاب میں بھی شہباز شریف کے پاس اپنی مرضی کا آئی جی تھا۔ لیکن تب بھی مراد علی شاہ کو اپنی مرضی کے آئی جی کی سہولت نہیں دی گئی تھی۔ وہ بار بار اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کی درخواست کرتے رہے۔ لیکن ان کی سنی نہ گئی۔ کبھی عدالتی فیصلوں سے رکاوٹ پیدا کی گئی کبھی سیاسی رکاوٹ پیدا کی گئی۔ اس لیے سندھ میں آئی جی کا تنازعہ کوئی نیا نہیں ہے۔ لیکن سوال پھر یہی ہے کہ آئی جی کی تعیناتی اور ان کو ہٹانے کے حوالے سے چاروں صوبوں اور مرکز میں یکساں پالیسی نہیں ہے۔ کہیں آئی جی کو منتخب حکومت کے ماتحت رکھا جاتا ہے اور کہیں منتخب حکومت کو آئی جی کے ماتحت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اے ڈی خواجہ کو سندھ کے آئی جی عہدے سے ہٹایا گیا تو انھیں کسی اور صوبے کا آئی جی نہیں لگایا گیا۔ انھیں تو اسلام آباد کا آئی جی بھی نہیں لگایا گیا۔ کیونکہ شائد سب کو اندازہ تھا کہ ان کے ساتھ چلنا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح کلیم امام کو بھی سندھ سے ہٹا کر کسی اور صوبے میں نہیں لگایا جائے گا۔ وہ نگران دور میں پنجاب کے آئی جی تھے لیکن پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد انھیں پنجاب سے سندھ بھیج دیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر وہ اتنے ہی اچھے آئی جی ہیں تو انھیں پنجاب سے کیوں ہٹایا گیا۔ شائد سب کو علم تھا کہ ان کا پنجاب میں منتخب حکومت سے گزرا نہیں ہو سکتا۔ وہ نگران دور میں ہی قابل قبول تھے۔ اس لیے اب کلیم امام سندھ سے ہٹنے کے بعدکسی دوسرے صوبے میں نہیں لگ سکیں گے۔ جیسے اے ڈی خواجہ کو کوئی صوبہ نہیں نہیں مل سکا۔ اس ساری بحث سے قطع نظر یہ بات اہم ہے کہ کیا آئی جی کو منتخب حکومت کے ماتحت ہونا چاہیے اور کس حد تک ماتحت ہونا چاہیے۔
ایک آئی جی کس قدر خود مختار ہو سکتا ہے۔ پنجاب میں بھی صورتحال سندھ سے کوئی خاص مختلف نہیں ہے۔ یہاں بھی سیاسی بحران نظرآ رہا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے ساتھ پولیس کے ناروا سلوک کے بعد پنجاب اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے سامنے آئی جی پیشی صاف ظاہر کر رہی ہے کہ معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔
ورنہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی میں احتجاج کرنے اور معاملہ خصوصی کمیٹی میں لیجانے کے بجائے وزیر اعلیٰ کے پاس بھی لے کر جا سکتے تھے لیکن عثمان بزدار نے اس سارے معاملے سے خود کو حکمت عملی کے تحت الگ رکھا۔ شائد چوہدری پرویز الٰہی کو بھی اندازہ تھا اسی لیے انھوں نے معاملہ وزیر اعلیٰ کو بھجوانے کی بجائے خصوصی کمیٹی کو بھجوایا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے توپنجاب میں صورتحال خوشگوار نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پنجاب میں مرکز کی حمایتی حکومت ہے۔ اس لیے وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان کی کابینہ سندھ کی طرح آئی جی کی فوری تبدیلی کا مطالبہ سر عام نہیں کر رہی ہے۔ حالانکہ دبے الفاظ اور درپردہ یہی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
ایسے میں یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ آئی جی وزیر اعلیٰ کے ماتحت ہے کہ نہیں۔ میری رائے میں آئی جی کو مکمل طور پر وزیر اعلیٰ اور صوبائی حکومت کے ماتحت ہونا چاہیے۔ امن و امان ایک صوبائی معاملہ ہے اس میں وفاق کی کوئی براہ راست مداخلت نہیں ہے۔ کسی بھی صوبہ میں امن و امان کے قیام کی ذمے داری صوبائی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے اور اس ذمے داری کو نبھانے کے لیے حکومت کو فری ہینڈ حاصل ہونا چاہیے۔ صوبوں میں افسروں کی تعیناتی میں وفاق کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔ وفاق اپنے وفاقی محکموں میں افسروں کی تعیناتی کا ذمے دار ہے۔
یہ اصول صرف آئی جی کے لیے نہیں بلکہ چیف سیکریٹری کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ چیف سیکریٹری کو بھی وزیر اعلیٰ اور صوبائی حکومت کے ماتحت ہونا چاہیے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ چیف سیکریٹری خود کو وزیر اعلیٰ سے اوپر سمجھنے لگیں۔ اس طرح ملک افسر شاہی کے قبضہ میں آجائے گا اور منتخب حکومت کا کردار بالکل ختم ہو جائے گا۔ آجکل بہت بحث ہے کہ تقرر و تبادلوں میں سیاسی اثر و رسوخ نہیں ہونا چاہیے۔ سیاسی حکومتیں تقرر و تبادلوں میں مداخلت کرتی ہیں جس کو روکنے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے افسر شاہی کو مکمل فری ہینڈ ہونا چاہیے۔
میں اس منطق کو فضول سمجھتا ہوں۔ کس افسر نے کہاں کام کرنا ہے یہ منتخب حکومت کا استحقاق ہے۔ کس کو کہاں سے کب تبدیل کرنا ہے یہ بھی منتخب حکومت کا استحقاق ہے۔ اس میں افسر شاہی کی کوئی مرضی نہیں ہو سکتی۔ جب گڈگورننس اور کارکردگی کی جوابدہ منتخب حکومت ہے تو اختیار افسر شاہی کے پاس کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ کیسی منطق ہے کہ افسر شاہی کی ٹیم تو چیف سیکریٹری کی ہو۔ لیکن کارکردگی کی ذمے د ار حکومت ہو۔ آٹے کی قلت کی ذمے دار وزیر اعلیٰ اور اس کی ٹیم پر ہو۔ ایسے ہی جیسے سی سی پی او لاہور آئی جی پنجاب نے لگایا ہے لیکن پی آئی سی پر حملے کی ذمے داری عثمان بزدار پر عائد ہوتی ہے۔ یہ نظام نہیں چل سکتا۔ نہ سندھ میں چل سکتاہے اور نہ ہی پنجاب میں چل سکتا ہے۔ دونوں جگہ ناکام ہورہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک صوبہ میں شور زیادہ ہے اور دوسرے میں شور کم۔
میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم پاکستان کی بیوروکریسی کے ذریعہ حکومت چلانے کی کوشش ناکام ہو جائے گی۔ یہ درست ہے کہ وزیر اعظم کو اپنی سیاسی ٹیم پر اعتماد نہیں ہے۔ صاف لگ رہا ہے کہ وہ مرکز، پنجاب، کے پی میں سیاسی ٹیم کی ناکامی کے بعد اب افسر شاہی سے کام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کوئی درست حکمت عملی نہیں ہے۔ سندھ میں ان کی اپنی حکومت نہیں ہے۔ اسی لیے وہ آئی جی کے ذریعے اپنی حکومت چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہاں افسر شاہی کے ذریعے اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایسے تو صوبائی حکومتوں کا تصور ہی ختم ہو جائے گا۔ جس کی بھی مرکز میں حکومت ہوگی وہ اپنی مرضی کا آئی جی اور چیف سیکریٹری لگا کر صوبائی حکومت کو عملی طو ر پر زیرو کر دے گا اور اپنی حکومت قائم کر لے گا۔ یہ ایک غلط روایت ہے۔ مرکز کا جب دل چاہے وہ افسر تبدیل کر لے لیکن صوبائی حکومت کو یہ اختیار نہیں ہو گا۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ اس طرح نظام کیسے چلے گا۔ میری رائے میں عمران خان نظام سے کھیل رہے ہیں جس کے خطرناک نتائج ہوں گے۔ شائد جب انھیں غلطی کا احساس ہوگا تب تک کافی نقصان ہو چکا ہوگا۔