نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی حکومت نے بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نیا سال 2020 پاکستان میں عوام کے لیے کیسا ہو گا۔ اس سے پہلے 2019 بھی عوام اور بالخصوص مڈل کلاس یا عرف عام میں جنھیں سفید پوش کہتے ہیں ایک بھیانک سال رہا ہے۔
2019میں پاکستان کی مڈل کلاس کے لیے زندگی مشکل سے مشکل کر دی گئی۔ مہنگائی نے وہ ریکارڈ بنائے کہ عزت سے دو قت کی روٹی کمانا اور کھانا مشکل سے مشکل ہوتا گیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ گزشتہ سال کا ہر ایک دن پاکستان کی مڈل کلاس اور سفید پوش عوام کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں تھا۔
یہ بھی عجیب حکومت ہے اس کا خیال ہے کہ پاکستان میں دو ہی طبقہ رہتے ہیں۔ ایک غریب اور دوسرے امیر۔ اسی لیے غریبوں کے لیے لنگر خانہ اور پناہ گاہیں کھولی جا رہی ہیں۔ جن کے پاس کھانے کو روٹی نہیں ہے اور وہ دو وقت کی روٹے کما بھی نہیں سکتے وہ اس حکومت کے لنگر خانوں سے جا کر آرام سے روٹی کھا سکتے ہیں۔ حالانکہ یہ کام پاکستان کا امیر طبقہ پہلے بھی اپنے وسائل سے بخوبی کر رہا تھا۔ پاکستان کے بہت سے امیر لوگ اپنے وسائل سے لنگر خانے چلا رہے تھے۔ پناہ گاہیں شاید نہیں تھیں۔
لیکن لنگر خانوں کا بھی بہت کام ہو رہا تھا۔ اس لیے روٹی مل ہی جاتی تھی۔ لاہور میں داتا دربار سے روٹی مل جاتی اور کراچی میں عبد اللہ شاہ غازی کے مزار پر روٹی کی کمی نہیں۔ لوگ ان مزاروں پر دیگیں بانٹنے آتے ہیں۔ یہاں روزانہ لاکھوں لوگوں میں لنگر تقسیم ہوتا ہے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ بڑے شہروں میں لنگر خانے بنا کر کوئی نیا کام کیا گیا ہے۔ ماضی میں بھی یہ تجربات ہو چکے ہیں۔ جن میں سستی روٹی جیسے منصوبے شامل ہیں۔ سرکار کا کام روٹی تقسیم کرنا نہیں بلکہ روٹی کمانے کے مواقع پیدا کرنا ہے۔
یہ درست ہے کہ شہروں میں لوگ سڑکوں پر سوتے تھے اور اب ان کے لیے پناہ گاہیں بنا دی گئی ہیں۔ سڑکوں پر سونے والوں میں اکثریت نشہ کرنے والوں کی ہوتی ہے۔ جو نشہ کی عادت کی وجہ سے جینے کی امنگ کھو بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے صرف پناہ گاہیں کافی نہیں ہیں بلکہ ان کا سرکاری خرچ پر علاج بھی ضروری ہے۔ مزدوری کی تلاش میں گاؤںاور قصبوں سے بڑے شہروں میں آنے والے بھی سڑکوں پر سوتے ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے۔ چند دن مزدوری ملنے کے بعد وہ رہنے کے ٹھکانے کا بندو بست بھی کر لیتے ہیں۔
ورنہ اب کمیونکیشن نے ایسی ترقی کر لی ہے لوگ آنے سے پہلے کوئی نہ کوئی رابطہ کر لیتے ہیں۔ بہر حال پناہ گاہوں اور لنگر خانوں کے منصوبے انتہائی غریب طبقہ کے لیے ہیں۔ ہم مان لیتے ہیں کہ ان منصوبوں سے ان کو محدود فائدہ بھی ہو رہا ہے۔ لیکن ان منصوبوں کا ملک کی مڈل کلاس اور متوسط طبقہ کو کوئی فائدہ نہیں۔ اس کی سفید پوشی اس کو نہ تو لنگر خانوں سے روٹی کھانے کی اجازت دیتی ہے اور نہ ہی بجلی گیس کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کے بعد بھی گھر سے پناہ گاہوں میں منتقل ہونے کی اجازت دیتی ہے۔ وزیر اعظم یہ تو چیک کر رہے ہیں کہ اس سردی میں پناہ گاہوں میں ہیٹر موجود ہے کہ نہیں وہ اس بات کا اندازہ کیوں نہیں لگا رہے کہ اب مڈل کلاس متوسط طقبہ کے لیے گھر میں ہیٹر اور گیزر استعمال کرنا نا ممکن ہو گیا ہے۔ بجلی اور گیس کے بل دینا اس کی استطاعت سے باہر ہو گیا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ملک کی معیشت اس لیے رک گئی ہے کہ امیروں نے پیسہ روک لیا ہے۔ وہ حکومت کی موجودگی میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کو منانے کی بہت کوشش کی جا رہی ہے۔ اب ان کے لیے نیب بند کر دیا گیا۔ تا کہ وہ دوبارہ کھل کر ٹیکس چوری کر سکیں۔ لیکن وہ ابھی تک نہیں مان رہے۔ انھوں نے اتنی دولت بنا لی ہے وہ چند سال کام نہیں بھی کرتے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ کوئی مڈل کلاس ہیں کہ کام کریں تو کھائیں گے۔ وہ کام نہیں بھی کریں تو ان کی نسلیں بیٹھ کر کھا سکتی ہیں۔ مسئلہ تو مڈل کلاس ہے جو کام کیے بغیر دو وقت کی روٹی کھا نہیں سکتی۔
جب سے یہ حکومت آئی ہے اس کی توجہ صرف ا میر اور غریب پر ہے۔ یہ ان لوگوں کو پاکستان کا با عزت شہری ماننے کے لیے تیار نہیں ہے جو نہ تو غریب ہیں اور نہ ہی امیر ہیں۔ شاید عمران خان ایسے کسی شخص کو جانتے ہی نہیں۔ اس لیے انھیں ان کا احساس بھی نہیں ہے۔ حلانکہ ملک میں امیر اور غریب کے علاوہ مڈل کلاس متوسط طبقہ یعنی سفید پوش لوگوں کی اکثریت ہے۔ ان میں نوکری پیشہ لوگ شامل ہیں۔ جن کا گزارہ ان کی ماہانہ تنخواہ پر ہوتا ہے۔ ان میں سرکاری اور پرائیویٹ ملازمیں شامل ہیں۔ چھوٹے کاروباری لوگ بھی ان میں شامل ہیں۔ جن کے کاروبار کا حجم اتنا چھوٹا ہے کہ اس میں بمشکل دو وقت کی روٹی نکلتی ہے۔
حکومت جب بھی بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھاتی ہے، ساتھ یہ اعلان کر دیتی ہے کہ اس کا فرق غریب کو نہیں پڑیگا۔ امیر کو پروا ہی نہیں ہوتی کہ قیمت کتنی بڑھ گئی ہے۔ مڈل کلاس کیا کرے۔ جس کے گھر میں پچاس یونٹ سے زائد بجلی استعمال ہو رہی ہے وہ کیا کرے۔ وہ کیسے صبح تیار ہو کر دفتر جائے اور زندگی کا نظام چلائے۔ مجھ سمیت نناوے فیصد صحا فی بھی اس مڈل کلاس میں شامل ہیں۔ جب پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو وہ صبح اپنی موٹر سائیکل اور چھوٹی گاڑی میں دفتر کیسے جائے۔ اس کے بچے اسکول کیسے جائیں۔ اس حکومت کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ ایک ایک چیز کی قیمت بڑھنے سے اس کے گھر کے بجٹ پر کیا اور کتنا اثر پڑتا ہے۔ بس اعلان کر دیا جاتا ہے کہ امیر اور غریب پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہمارا نہ تو کوئی ذکر ہے اور نہ ہی کوئی فکر۔
صحت کے شعبہ کو ہی دیکھ لیں حکومت ایک طرف تو غریبوں میں ہیلتھ کارڈ بانٹ رہی ہے۔ امیر تو پہلے ہی پاکستان میں علاج کروانا پسند نہیں کرتا اور کرواتا بھی ہے تو مہنگے نجی اسپتالوں سے۔ اسے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ ان سرکاری اسپتالوں میں مفت روٹی تقسیم کر کے اپنے ضمیر کو مطمئن کر لیتا ہے۔
گزشتہ ایک سال میں حکومت نے ایک مربوط حکمت عملی کے ساتھ سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجہ کے نرخ بھی اس طرح بڑھا دیے ہیں کہ مڈل کلاس کے لیے سرکاری اور پرائیویٹ اسپتال میں کوئی خاص فرق نہیں رہا۔ بڑے فخر سے اعلان کیا جاتا ہے کہ لوگ ہیلتھ کارڈ سے علاج کرائیں۔ لیکن وہ مڈل کلاس کہاں جائے جو اس ہیلتھ کارڈ کے لیے مستحق نہیں۔ وہ غریب نہیں۔ وہ امیر بھی نہیں۔ یہ ان کاقصور ہے۔ وہ اب نئے نرخوں پر علاج کروانے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے اور ہیلتھ کارڈ بھی نہیں لے سکتے۔ وہ کیا کریں۔ پہلے کم از کم سرکاری اسپتال میں وہ اپنا اثر رسوخ لگا کر مفت علاج تو حاصل کر لیتے تھے۔ لیکن اب وہاں بھی ایکسرے 2500 کا کر دیا گیا اور نجی اسپتال میں بھی 2500 کا ہی ہے۔ غریب ہیلتھ کارڈ پر مفت کرالے۔ امیر دینے کی ہمت رکھتا ہے اور مڈل کلا س کہاں جائے؟
میری حکومت سے گزارش ہے کہ حکومت کی پالیسیاں بناتے وقت صرف امیر اور غریب کو ذہن میں نہ رکھے بلکہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ، مڈل کلاس، متوسط طبقہ، سفید پوش لوگوں کو بھی ذہن میں رکھے۔ آ پ مانیں یا نہ مانیں لیکن 2019 پاکستان کی مڈل کلاس کے لیے ایک بھیانک سال تھا اور 2020 کا آغاز اس سے بھی بھیانک ہوا ہے اور ان کی فریاد سننے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں ہے۔