آج سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا عمران خان مائنس ہو سکتے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیوں مائنس عمران خان کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ جواب سادہ ہے کہ ہم نے بھٹو کی پھانسی، بگٹی اور محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل سے ایک سبق سیکھا ہے کہ سیاسی محاذ آرائی کے ماحول میں کسی مقبول سیاسی لیڈر کا قتل یا موت مزید مسائل کا باعث بن جاتی ہے۔
اگر کوئی سیاسی ناکامی کے نتیجے میں سیاست اور اقتدار سے مائنس ہو جائے تو بہتر ہوتا ہے۔ بلا شبہ یہ ایک مشکل کام ہے۔ نواز شریف 1999میں بھی اقتدار سے بے دخل ہوئے اور اب قانونی جنگ نے انھیں اقتدار سے مائنس کر دیا۔ وہ 1999میں بھی وقتی طور پر مائنس ہوئے اور مجھے یہی لگتا ہے کہ اب بھی ان کا مائنس ہونا وقتی ہے۔
بہرحال تب بھی دس سال کام چل گیا تھا۔ آج بھی یہی کہا جا رہا ہے۔ بے نظیر کے خلاف نوے کی دہائی میں جس طرح نواز شریف اور ان کی ٹیم کو استعمال کیا گیا تھا۔ ویسے ہی آج عمران خان اور ان کی ٹیم کو نواز شریف کو مائنس کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جیسے نواز شریف نے احتساب سیل بنا کر بے نظیر کے خلاف کیس بنائے۔
آج عمران خان نواز شریف اور اپنے دیگر مخالفین کے خلاف کیس بنا رہے ہیں۔ کل جو کام سیف الرحمٰن کر رہے تھے، آج شہزاد اکبر کر رہے ہیں۔ کل جس طرح سیف الرحمٰن کو آشیر باد حاصل تھا، آج شہزاد اکبر کو حاصل ہے۔ کل سیف الرحمٰن نے بے نظیر بھٹو کو جلا وطنی پر مجبور کر دیا تھا۔ آج بالکل اسی طرح دیگر ملکی قیادت کو ملک سے جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ اس لیے کھیل پرانا ہے۔
نواز شریف نے کل جو کھیل کھیلا تھا، آج ان کے ساتھ وہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ آج وہ بے نظیر والی جگہ پرکھڑے ہیں جب کہ ان کی جگہ عمران خان آ گئے ہیں۔ لیکن یہ ساری تمہید بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کھیل میں جب آپ جیت رہے ہوتے ہیں تو آپ کے ہارنے کی باری بھی آ سکتی ہے۔ جس طرح نواز شریف جیت رہے تھے لیکن آج بری طرح شکست خوردہ ہیں۔ یہ قانون قدرت ہے۔ اس کے بغیر اقتدار کا یہ کھیل مکمل نہیں ہو سکتا۔
نواز شریف کو بہت مضبوط کر دیا گیا تھا۔ دو تہائی اکثریت مل گئی تھی۔ پاکستان کا مکمل کنٹرول ان کے پاس چلا گیا تھا۔ اتنی طاقت نے نواز شریف کو یقین دلا دیا کہ وہ سچ مچ کے حکمران بن گئے ہیں۔ آج عمران خان، نواز شریف اور زرداری سے لڑ رہے ہیں لیکن وہ کھیل پر پوری طرح حاوی نہیں ہیں۔ ایک تلوار ان کے اوپر لٹکائی گئی ہے۔
جس سے انھیں ہر لمحہ یہ لگتا ہے کہ ان کی حکومت آج گئی کہ کل گئی۔ انھیں یہ باور کروا کر رکھا گیا ہوا ہے کہ اگر وہ ایک غلطی بھی کریں گے تو ان کی چھٹی ممکن ہے۔ وہ ایک تنے ہوئے رسے پر چل کر وزارت عظمیٰ کے مزے لے رہے ہیں۔ اس لیے جیسے جیسے عمران خان کے مخالفین کھیل کا میدان چھوڑتے جائیں گے عمران خان کی باری قریب آتی جائے گی۔ نواز شریف کے بیرون ملک جانے سے عمران خان مضبوط نہیں کمزور ہو ئے ہیں۔ قید اور مزاحمتی نواز شریف عمران خان کی طاقت تھا۔ خاموش اور لا تعلق نواز شریف تحریک انصاف کے اقتدارکی موت ہے۔
1999میں مشرف کے آنے پر بے نظیر خوش تھیں۔ انھیں جمہوریت کا سورج ڈوبنے کا کوئی دکھ نہیں تھا۔ انھیں نواز شریف کے سورج ڈوبنے کی خوشی تھی۔ انھیں نواز شریف کے بجائے مشرف زیادہ قابل قبول تھا۔ کیا نواز شریف بھی ایسے ہی کریں گے؟ کیا وہ بھی عمران خان کے مائنس پر ڈیل کر لیں گے۔
بات صرف نواز شریف کی نہیں ہے۔ شائد زرداری اور بلاول بھی عمران خان کو مائنس کرنے پر تیار ہیں۔ ایسے میں عمران خان کو دیکھنا ہو گا کہ کہیں وہ ملک کے لیے ایسا بوجھ نہ بن جائیں جس کو اتارنے میں ہی سب عافیت سمجھ لیں۔ عمران خان کو یہ خیال رکھنا ہو گا کہ آہستہ آہستہ ان کا سیاسی ہنی مون ختم ہو رہا ہے۔ وہ سیاسی لحاظ سے کمزور ہو رہے ہیں۔ ان کی کمزوری کا ان کے سیاسی مخالفین بھر پور فائدہ اٹھائیں گے۔
آج چیئرمین نیب کہہ رہے ہیں کہ بی آر ٹی اور مالم جبہ کے ریفرنس تیار ہیں۔ سال پہلے ان ریفرنس کے تیار ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تھا۔ آج وہ ابرار الحق کو لگاتے ہیں تو وہ تعیناتی بھی اپنے پائوں پر کھڑی نہیں رہ سکتی۔ الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر بھی نہیں ہو رہا۔ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی بھی ایک معمہ بنتی جا رہی ہے۔
عمران خان کے لیے نظام حکومت چلانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ تو پہلے ہی مائنس ہو گئے ہیں، باری ان کی ہے۔ جیسے جیسے نواز شریف اور زرداری کی مزاحمت ختم ہوتی جائے گی۔ وہ خاموش ہو جائیں گے، عمران خان کی باری قریب آ جائے گی۔
ان کی مزاحمت میں ہی عمران خان کی سیاسی بقا ہے۔ اس لیے مریم کی خاموشی بھی عمران خان کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں۔ یہ خاموشی عمران خان کو خاموش کرانے کا اسکرپٹ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ سیاست ہے یہاں آج کا لاڈلا کل کا نافرمان بن جاتا ہے۔ اس لیے عمران خان کے مائنس ہونے کا شور سنائی دے رہا ہے۔ یہ بے وقت کی راگنی نہیں ہے۔ اس کی ٹائمنگ پر اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن اسکرپٹ کے بنیادی خدو خال سے اختلاف ممکن نہیں۔