Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Molana Ka Shikwa Kitna Jaiz?

Molana Ka Shikwa Kitna Jaiz?

مولانا فضل الرحمٰن نے شکوہ کیا ہے کہ ناجائز حکمرانوں کا سفینہ ڈبونے کے بجائے اپوزیشن نے اپنا سفینہ ڈبو دیا ہے۔ اس شکوہ کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ جلد ان ہاؤس تبدیلی اور نئے انتخابات بھی دیکھ رہے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ مولانا فضل الرحمٰن خود ہی اپوزیشن کا سفینہ ڈبونے کے بعد خود ہی شکوہ کر رہے ہیں کہ اپوزیشن نے حکمرانوں کے بجائے اپنا سفینہ ڈبو دیا ہے۔

کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ جب اپوزیشن کی بڑی جماعتیں کہہ رہی تھیں کہ آزادی مارچ کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا لہذا ابھی اسے ملتوی کر دیں تو آپ نہیں مانے۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کو قائل کیا جارہا تھا کہ حکومت کو شکست دی جاسکتی ہے۔ جب یہ دلیل سامنے آئی کہ دباؤ کی وجہ سے دھرنا سرنڈر کرنا پڑ جائے گا۔ تو جواب یہ تھا کہ سرنڈر ان کی کتاب میں ہے ہی نہیں۔ کسی ایک شہر میں، کسی ایک دن، ایک بڑا جلسہ یا اجتماع کر لینے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ کسی بڑے مارچ یا دھرنے میں شرکت کے لیے تیار ہیں۔ دونوں کی نوعیت میں بہت فرق ہے۔ لیکن آپ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔

مسلم لیگ (ن) نے مرکزی مجلس عاملہ کے بعد جے یو آئی کے پاس ایک وفد بھیجا تھا جس نے آزادی مارچ ملتوی کرنے کی د رخواست کی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی اور بلاول نے بھی طویل دھرنے کی حمایت نہیں کی تھی۔ تاہم نواز شریف نے عدالت میں پیشی کے موقعے پر جے یو آئی کے مارچ کی حمایت کا اعلان کر دیا اور اپنی جماعت کو حمایت کے لیے خط لکھ دیا۔ یہ سارے واقعات لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ آزادی مارچ جے یو آئی کی قیادت کا اپنا فیصلہ تھا۔ شائد انھیں یقین تھا کہ وہ عمران خان کو مائنس کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

سندھ میں پیپلزپارٹی کے استقبال اور پنجاب میں ن لیگ کے استقبال کی مدد سے آزادی مارچ اسلام آباد پہنچ گیا۔ پھر کیا ہوا۔ آج اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے جے یو آئی کو اپنی حکمت عملی کی خامیوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ سوال یہ بھی ہے اگر ڈی چوک نہیں جانا تھا تو پھر اسلام آبا جانے کی ضرورت کیا تھی؟ پارلیمنٹ کے گھیراؤ میں رکاوٹ کیا تھی؟ سب کو معلوم تھا کہ پشاور موڑ پر دھرنے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع کر کے ڈی چوک نہ جانا آج تک سمجھ سے بالاتر ہے۔ عمران خان کے استعفیٰ کا مطالبہ تھا اور کہا گیاکہ اس سے کم پر ڈیل نہیں ہو گی تو پھر نہ استعفیٰ ملا۔ نہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے کوئی کمیشن بنا۔ آخر کیا ہوا؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔

چوہدری برادران کے ساتھ مذاکرات میں کیا طے ہوا، کوئی بتانے کے لیے تیار نہیں۔ کچھ تو ہے جس کی اتنی پردہ داری ہے۔

پلان بی اور پلان سی بلکہ زیڈ تک پلان تیار تھے۔ لیکن ہوا کچھ نہیں۔ پھر سڑکیں بند کرنے کا اعلان ہوا لیکن تھوڑا بہت شور شرابا ہوا لیکن اب مکمل خاموشی چھا گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کی یہ انوکھی احتجاجی تحریک تھی جس کے اسلام آباد مارچ میں اسلام آباد کے اندر داخل ہونے سے اجتناب کیا گیا۔ اور پھر جب سڑکیں بند کرنے کی باری آئی تو پھر شہروں کے اندر سڑکیں بند نہیں کی گئیں۔ بلکہ سارے احتجاج کو شہر وں سے باہر ہی رکھا گیا۔

آج اپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں پر اس بات پر تنقید ہو رہی ہے کہ انھوں نے ایک طرف سول بالا دستی کا نعرہ لگایا ہے اور دوسری طرف آرمی ایکٹ کی حمایت کر دی ہے۔ لیکن اس ضمن میں بھی جے یو آئی کی پالیسی شدید ابہام کا شکار ہے۔ ایک طرف تو یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک میں آمریت ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی مخالفت نہیں کی جائے گی۔ بس سارا زور اس بات پر ہے کہ یہ پارلیمنٹ جعلی ہے اس لیے ووٹ نہیں دیا۔

آج مولانا شکوے پر شکوہ کر رہے ہیں۔ کیونکہ اپوزیشن نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔