پاکستان کی معیشت کے حوالے سے مثبت خبر یں آرہی ہیں۔ پچاس ہزار سے گرنے والی اسٹاک ایکسچینج دوبارہ چالیس ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔ ایک سو سے گرنے والا ڈالر اب 155پر مستحکم نظر آنے لگا ہے۔ بجلی کی قیمت آسمان پر پہنچنے کے بعد اب وہیں رکنے کے اشارے دے رہی ہے۔ گیس کی قیمت بھی 150گنا اضافے کے بعد مستحکم نظر آرہی ہے۔ ادویات کی قیمتیں بھی کئی گنا اضافے کے بعد اب مریض آرام محسوس کر رہے ہیں۔
تنخواہوں میں کمی کے بعد نوکری پیشہ افراد کو سکون مل چکا ہے۔ بے روزگاروں نے بے روزگاری کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ قوم نے مہنگے آٹے چینی ٹماٹر گھی کے استعمال کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ شرح سود میں کئی فیصد اضافے کے بعد اب ملکی کاروبار ترقی کر رہا ہے۔ چھوٹے کاروبار تو دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ اس لیے اس سارے منظر نامے میں پاکستان کی معیشت سے مثبت خبریں آرہی ہیں۔
اخبارات کی شہ سرخیاں ہیں کہ موڈیز نے پاکستان کی معاشی ریٹنگ منفی سے مستحکم کر دی ہے۔ موڈیز کے مطابق مالیاتی خسارے میں کمی اور آئی ایم ایف کے معاشی پیکیج پر عملدرآمد کی وجہ سے پاکستان کی معیشت مثبت اشارے دے رہی ہے۔ اس لیے انھوں نے پاکستان کی معیشت کو منفی سے مستحکم کر دیا ہے۔ جو بات میری سمجھ میں آئی ہے اس کے مطابق موڈیز کے مطابق روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی سے پاکستان کی معیشت بہتر ہوئی ہے۔ بین الاقوامی ادائیگیوں کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ اس لیے موڈیز کو پاکستان کی معیشت بہتر ہوتی نظر آرہی ہے۔
موڈیز کی جانب سے ریٹنگ سے بہتری کو حکومت اپنی فتح قرار دے رہی ہے۔ فتح کے شادیانے اور بگل بجائے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کہہ رہی ہے کہ ان کے مشکل فیصلوں کے ثمرات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک امید دلائی جا رہی ہے کہ آگے اچھے دن آرہے ہیں۔ حکومت کے حا می کہہ رہے ہیں کہ بس جو ظلم کرنا تھا کر لیا ہے اور ظلم کے مثبت اثرات آنا شروع ہو گئے ہیں۔ کیا اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اب مہنگائی میں مزید اضافہ نہیں ہوگا۔
زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ معیشت میں بہتری کے اشارے کرپشن کے پیسے کی وصولی کے بغیر ہی آنا شروع ہو گئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ وہ کرپشن کا پیسہ واپس لائے گی۔ یہ امید دلائی گئی تھی کہ جب کرپشن کے پیسے واپس آئیں گے تو ملک کے قرضے واپس ادا ہو جائیں گے۔ پٹرول سستا ہو جائے گا۔ بجلی سستی ہو جائے گی۔ ہمیں یہ سمجھا یا گیا تھا کہ جب تک کرپشن کا پیسہ واپس نہیں آئے گا ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ یہی بتایا گیا تھا کہ قرضوں کے بڑھنے کی واحد وجہ کرپشن ہے۔
اسی لیے ماضی میں لیے گئے قرضوں میں کرپشن کی تحقیقات کے لیے کمیشن بھی بنایا گیا۔ سب کو امید تھی کہ ماضی کے قرضوں میں کرپشن کی عجب غضب کہانیاں سب سامنے آجائیں گی۔ ایک تصویر پیش کی گئی تھی کہ بیرون ملک سے قرضہ آتا تھا اور شریف و زرداری خاندان کی جیب میں چلا جاتا تھا۔ سب قرضہ حکمرانوں کی جیب میں گیا ہے۔ اس لیے جب ان کی جیبوں کی تلاشی لی جائے گی تو بیرون ملک سے لیے گئے تمام قرضے وصول ہو جائیں گے۔
میں حیران ہوں کہ کرپشن کا ایک روپیہ وصول کیے بغیر حکومت نے موڈیز کی ریٹنگ منفی سے مستحکم کر لی۔ یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں بھی یہ مستحکم ہی تھی۔ منفی بھی اسی حکومت کے دور میں ہوئی تھی، اب منفی سے دوبارہ مستحکم بھی ہو گئی ہے۔ اب یہ بھی عجیب بات ہے کہ مستحکم سے منفی ہونے میں اس حکومت کا کوئی قصور نہیں تھا۔ یہ سابقہ حکومتوں کا قصور تھا لیکن اب منفی سے دوبارہ مستحکم ہونا اس حکومت کی بڑی فتح ہے۔ جس پر جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔
اگر کرپشن کا پیسہ وصول کیے بغیر ہی ملکی معیشت کو مستحکم کیا جا سکتا تھا تو اتنا ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر کرپشن کا پیسہ وصول کیے بغیر ہی ملک چل سکتا تھا تو اتنا ہیجان پیدا کرنے کی کیا ضرور ت تھی۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر ماضی میں لیے گئے تمام قرضے اکاؤنٹ نمبر ون میں آئے ہیں۔ وہ کسی کے جیب میں نہیں گئے ہیں تو کرپشن کے خلاف سارے بیانیہ کا مقصد کیا تھا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کرپشن کے پیسے کی وصولی کے بغیر موڈیز نے ریٹنگ کو منفی سے دوبارہ مستحکم کیسے کر دیا، کیا انھیں نہیں معلوم ابھی کرپشن کا پیسہ وصول نہیں ہوا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ یہ حکومت کیوں نہیں بتا رہی ہے کہ اس ایک سال کے دوران اس نے کتنا قرضہ لیا ہے۔ کیوں ایسی خبریں آرہی ہیں کہ اس ایک سال میں بیرونی قرضہ میں ریکارڈ اضافہ ہو گیا ہے۔ ماضی کی حکومتیں تو بجلی سستی دے رہی تھیں۔ انھوں نے روپے کی قدر بھی مصنوعی طریقہ سے کنٹرول کی ہوئی تھی اور اس کام پر قوم کا پچیس ارب ڈالر خرچ کر دیا تھا۔ ڈار صاحب کی لوٹ مار بھی تھی تب بھی موڈیز کی ریٹنگ مستحکم تھی۔
اور آج ریاست مدینہ میں بھی مستحکم ہی ہے۔ یہ کیا ناانصافی نہیں۔ وہ قوم پر خرچ کر رہے تھے۔ لوٹ رہے تھے اس لیے قرضے بڑھ رہے تھے۔ آپ نہ لوٹ رہے ہیں اور نہ ہی قوم پر خرچ کر رہے ہیں پھر بھی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے کیوں۔ وہ کرپٹ تھے پاکستان میں ٹیکس زیادہ اکٹھا ہوتا تھا۔ آپ ایماندار ہیں پھر بھی ٹیکس کم اکٹھا ہوتا ہے۔ وہ کرپٹ تھے تب بھی ترقی کی شرح زیادہ تھی۔ آپ ایماندار ہیں پھر بھی ترقی کی شرح زیادہ ہے۔ وہ کرپٹ تھے مہنگائی نہیں تھی آپ ایماندار ہیں لیکن مہنگائی ہے۔
کیا پاکستان کی عوام موڈیز کی ریٹنگ میں بہتری سے یہ مان لے کہ ملکی معیشت بہتر ہو رہی ہے۔ ایک عام آدمی کیسے مان لے کہ پاکستان کی معیشت بہتری کی جانب جا رہی ہے۔ کیا روزگار کے مواقعے پیدا ہو رہے ہیں۔ نہیں۔ لوگ تو آج بھی بے روزگار ہو رہے ہیں۔ کاروبار بند ہو رہے ہیں۔ دو وقت کی روٹی مشکل ہو گئی ہے۔ پھر بھی معیشت بہتر ہو رہی ہے۔
اس حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ موڈیز کی ریٹنگ سے عوام کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا ہے۔ عوام کو موڈیزکی ریٹنگ کی سمجھ بھی نہیں ہے۔ لوگوں کے لیے یہ اہم بھی نہیں ہے۔ لوگوں کے لیے اہم ان کی دال روٹی ہے۔ حکومت نے یہ بہتری لوگوں کی معاشی لاشوں پر حاصل کی ہے۔ اگر ملک کی کوئی بہتری ہوئی ہے تو اس میں اس حکومت کا کوئی کمال نہیں ہے۔ اس میں ہمارا خون شامل ہے۔ ملک کو بند کر کے یہ بہتری حاصل کی گئی ہے۔ آپ اس کو ایسے سمجھ لیں کہ گھر کے سربراہ نے گھر کے تمام افراد کی روٹی بند کر دی ہے۔ گرمیوں میں اے سی تو دور کی بات پنکھے بھی بند کر دیے ہیں۔ بیمار کی دوائیاں بھی بند کر دی ہیں۔ مرنے والے کو مرنے دیا ہے۔
بچے اسکولوں سے اٹھا لیے ہیں۔ بیٹیوں کی شادیاں روک دی ہیں۔ اور پھر چند پیسے جمع کر لیے ہیں۔ اور اس کے بعد وہ گھر والوں پر رعب ڈال رہا ہے کہ دیکھا میں نے گھر کا خسارہ ختم کر دیا ہے۔ ہم خوشحالی کی طرف جا رہے ہیں۔ لیکن اس کو اس خوشحالی کی قیمت کا کوئی اندازہ نہیں۔ اس کو اندازہ ہی نہیں کہ ایک نسل تباہ ہو گئی ہے۔ لوگ زندہ مر گئے ہیں۔ تا ہم خسارہ کم ہو گیا ہے۔ چلیں اچھی بات ہے، میرے خون سے کچھ بہتری ہوئی ہے۔ لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اس بہتری کے ثمرات مجھے ملیں گے۔ کیونکہ جب بھی بہتری ہوتی ہے، دودھ پینے والی بلی آکر سب کچھ کھا جاتی ہے۔ اب بھی یہی ڈر ہے، قربانی میں نے اور آپ نے دی ہے دودھ کوئی اور پی جائے گا۔