حکومت نے نیب قوانین میں ترامیم کا آرڈیننس جاری کر دیا ہے۔ نیب قوانین میں ترامیم وقت کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دو سال جس طرح نیب کو استعمال کیا گیا ہے اس کے بعدپاکستان کی موجودہ صورتحال کا ذمے د ار نیب کو قرار دیا جا رہا تھا۔ معاشی جمود کا ذمے دار بھی نیب کو قرار دیا جا رہا ہے۔
بیوروکریسی کے کام نہ کرنے کی وجہ بھی نیب کو ہی قرار دیا جا رہا تھا۔ اس طرح ایک رائے بن رہی تھی کہ اس حکومت کی اب تک ناکامیوں اور نا اہلی کی ایک بڑ ی وجہ نیب ہے۔ جب تک نیب اس شکل میں برقرار رہے گی نہ تو نظام حکومت چل سکتا ہے اور نہ ہی ملک میں کاروبار چل سکتا ہے۔
ایسے میں عوامی رائے عامہ کے سامنے سر خم تسلیم کرتے ہوئے حکومت نے نیب آرڈیننس میں ترامیم جاری کر دی ہیں۔ تمام کاروباری افراد کو نیب سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ اسی طرح افسر شاہی کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کر دیا گیا ہے۔ ٹیکس چوری کے معاملات کو بھی نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کر دیا گیا ہے۔ افسران کی جانب سے معاملات میں پروسیجر کی خلاف ورزی کو بھی نیب سے باہر کر دیا گیا ہے۔ بظاہر اختیارات کے ناجائز استعمال کو بھی نیب سے با ہر کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ سب ٹھیک ہوا ہے؟
دنیا کے مختلف ممالک میں سربراہان مملکت کے پاس پارلیمنٹ کو توڑنے کا اختیار موجود ہے۔ لیکن وہاں اس اختیار کو کبھی غلط استعمال نہیں کیا گیا۔ ویسے تو اس کی ایک مثال یہ دی جاتی ہے کہ ملکہ برطانیہ کے پاس بھی برطانوی پارلیمنٹ کو توڑنے کا اختیار ہے لیکن انھوں نے اس کو کبھی استعمال نہیں کیا ہے۔ تا ہم پاکستان میں یہ اختیار صدر مملکت نے اس بے دریغ طریقہ سے استعمال کیا کہ اس کو ختم کرنے کے حق میں رائے عامہ ہموار ہو گئی۔
ایک رائے بن گئی کہ جب تک صدر مملکت کے پاس یہ اختیار موجود رہے گا پاکستان میں جمہوریت نہیں چل سکتی۔ جمہوریت کو چلانا ہے تو یہ اختیار ختم کرنا ہو گا۔ اور پھر جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں یہ صدارتی اختیار ختم کر دیا گیا۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ یہ اختیار غلط نہیں تھا لیکن اس کا استعمال غلط کیا گیا۔ کہ اختیار کے غلط ہونے کے بارے میں رائے بن گئی۔
اسی طرح نیب قوانین شائد اتنے غلط نہیں تھے لیکن ان کا استعمال اتنا غلط کیا گیا کہ ان کے خلاف ایک رائے بن گئی۔ آج ملک میں جب نیب قوانین میں ترمیم کی جارہی ہے تو ایک عموی اتفاق رائے موجود ہے۔ جیسے صدر کے پارلیمنٹ توڑنے کے اختیار ختم کرنے کے حوالے سے ایک اتفاق رائے بن گیا تھا۔ بے شک اپوزیشن ظاہری طور پر ان ترامیم کی مخالفت کر رہی ہے۔
دانشور بھی اس کو این آر او قرار دے رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی عام آدمی اور ارباب اختیار اس سے متفق نظر آ رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ خوشی کے شادیانے نہیں بجا رہے لیکن پھر بھی خوشی موجود ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے حق میں تو سب ہیں لیکن کھلم کھلا حمایت کرنے سے ڈر رہے ہیں۔
نیب قوانین میں ترامیم اس حکو مت کی پہلی ترجیح اور آپشن نہیں تھی۔ اسی لیے بہت کوشش کی گئی ہے کہ کسی نہ کسی طرح ان ترامیم کے بغیر ہی کام چلا لیا جائے۔ بیورو کریسی کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے چیئرمین نیب نے مرکز اور چاروں صوبوں میں سینئر بیوروکریسی سے خود ملاقات کی۔
انھیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ نیب ان کو اب مزید تنگ نہیں کرے گا۔ لیکن بیوروکریسی نے ایسی تمام یقین دہانیوں پر یقین نہیں کیا اور معاملات بہتر نہیں ہوئے۔ وزیر اعظم نے خود بھی افسر شاہی سے ایک نہیں متعدد ملاقاتیں کیں لیکن معاملہ حل نہیں ہو سکا۔ بار بار تبادلوں سے بھی بیوروکریسی کو کام پر منانے کی کوشش کی گئی لیکن تبادلے کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی حکمت عملی بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ بیوروکریسی نے اپنی قلم چھوڑ ہڑتال جاری رکھی۔ میں نے اس بارے میں مختلف کالم لکھے ہیں۔ اور ان کی ایک ہی بات تھی کہ جب تک ان پر ہاتھ ڈالنے کے حوالے سے نیب کے اختیارات ختم نہیں کیے جاتے۔ وہ کام نہیں کر سکتے۔ اور آپ دیکھ لیں کہ پندرہ ماہ بعد اس حکومت نے بیوروکریسی کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ اور بیوروکریسی نے اپنی مقدس گائے کی حیثیت منوا لی ہے۔ اس سے پہلے فوج اور عدلیہ کو یہ حیثیت حاصل ہے۔
کاروباری برادری کے ساتھ بھی ایسی ہی صورتحال رہی ہے۔ انھیں بھی منانے کے لیے گزشتہ پندرہ ماہ میں بے پناہ جتن کیے گئے ہیں۔ سب نے ان کو منانے کی ویسے ہی کوششیں کی ہیں جیسے بیوروکریسی کو منانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ لیکن وہ بھی نہیں مانے۔ جس کی وجہ سے یہ رائے بن گئی کہ معیشت کا پہیہ رک گیا ہے۔ اس لیے یہاں بھی حکومت کو سرنگوں ہونا پڑا ہے۔ اور ان کو بھی مقدس گائے کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ انھیں بھی اس کامیابی پر مبارک ہی دی جا سکتی ہے۔
آج ملک میں نیب کے بارے میں جو رائے بن گئی ہے کیا اس کی ذمے د اری صرف نیب پر عائد ہوتی ہے۔ میری رائے میں اس میں کہیں نہ کہیں نظام انصاف بھی ذمے دار ہے۔ نیب کے ریفرنسز جس طرح احتساب عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ وہ بھی نیب کے خلاف رائے عامہ بننے میں اہم نقطہ ہے۔
جب ریفرنسز کئی کئی سال عدالتوں میں زیرسماعت رہیں گے تو لوگ اس کی حمایت تو نہیں کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خصوصی قوانین کبھی بھی معاشرے میں زیادہ عرصہ مقبول نہیں رہ سکتے۔ ان کی عمر چھوٹی ہوتی ہے اور بالآخر معاشرے میں یہ اپنی حمایت کھو دیتے ہیں۔ ان قوانین کے بارے میں یہ رائے بھی بن جاتی ہے کہ یہ انصاف کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس لیے ان سے ناانصافی کا کلچر پروان چڑھتا ہے۔
نیب قوانین میں بنیادی غلطی یہ تھی کہ اس میں بے گناہی ثابت کرنے کا بوجھ ملزم پر ڈ ال دیا گیا تھا۔ ورنہ عمومی قوانین میں الزام کو ثابت کرنا استغاثہ کی ذمے داری ہوتی ہے۔ اس بنیادی غلطی نے نیب کو نہ صرف لامحدود اختیارات دے دیے بلکہ ان پر بوجھ بھی کم کر دیا۔ ان کا کام صرف الزام لگانا رہ گیا جب کہ ان الزامات کو غلط ثابت کرنا ملزم کی ذمے داری بن گئی۔ اس نے نیب کی تفتیش کے عمل کو بھی نقصان پہنچایا۔ نیب ایک الزام لگانے والا ادارہ بن کر رہ گیا۔ جس کو انصاف کے اصولوں کے خلاف سمجھا گیا ہے۔
اسی طرح نیب کوئی فوجداری مقدمات کی تفتیش کا ادارہ نہیں تھا۔ بلکہ یہ وائٹ کالر کرائم کی تفتیش کا ادارہ ہے۔ لیکن یہاں تفتیش فوجداری انداز میں کی جانے لگی تھی۔ ریمانڈ اور گرفتاریاں فوجداری مقدمات کے انداز میں کی جانے لگیں۔ کہیں نہ کہیں اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ بہر حال یہ دیوانی معاملات ہیں۔ آمدنی سے زائد اثاثوں کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ اس کو بھی فوجداری بنا لیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں نیب کو جس احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، وہ نہیں کی گئی۔ ستر سال کی پاکستا ن کی تاریخ کو نظر انداز کر دیا گیا۔
یہ کیوں ذہن میں نہیں رکھا گیا کہ ایمنسٹی اسکیموں سے کالا دھن سفید ہوتا رہا ہے۔ لوگوں نے تو 1947ء میں ہی غلط الاٹمنٹیں کرالی تھیں۔ پرمٹ لیے تھے۔ اس لیے کس کا کب سے احتساب ممکن ہے۔ لوگ خوف میں آ گئے۔ ایک دوسرے کے خلاف درخواستوں کے کلچر نے معاملے کو اور خراب کر دیا۔ اس لیے نیب قوانین میں ترامیم وقت کی ضرورت بن گئیں۔ ان کے بغیر ملک چلانا ناممکن ہو گیا تھا۔ اس لیے ان ترامیم کی ایک عوامی مقبولیت موجود ہے۔ جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ باقی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور عمران خان کے یوٹرن کا بیانیہ اپنی جگہ موجود ہے۔ جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔