پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ ان سے یہ بات ظاہر ہو رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس وقت قیادت کے بحران کا شکار ہے۔
اراکین پارلیمنٹ نواز شریف کے بعد شہباز شریف کی سیاسی قیادت میں تو کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن شہباز شریف کے علاوہ ابھی مسلم لیگ (ن) میں ایسی کوئی شخصیت نہیں ہے جس کی قیادت پر سب متفق ہوں۔ خواجہ آصف شاہد خاقان کے درمیان اختلافات اور دیگر سیاسی قیادت کے درمیان دھڑے بندی نے شہباز شریف کی قیادت کو مزید مستحکم کر دیا ہے۔
میں نے لندن میں اپنی شہباز شریف اور شریف خاندان کے دیگر افراد سے مختلف ملاقاتوں کے احوال کے حوالہ سے کالم میں پہلے بھی لکھا ہے کہ شہباز شریف وطن واپس آنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم نواز شریف کی صحت کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف سے ملاقاتوں میں ایک ملاقات میں سلمان شہباز بھی موجود تھے۔
سلمان شہباز کا تو موقف تھا کہ ان کے والد کو کل نہیں آج ہی وطن واپس چلے جانا چاہیے۔ ان کی رائے تھی کہ گرفتاریوں اور مقدمات سے گھبرانا نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ اسمارٹ سیاست کا وقت ہے۔ اس لیے شہباز شریف کو فوری وطن واپس جانا چاہیے۔ لیکن شہباز شریف کا موقف تھا کہ وہ بھی کل نہیں آج ہی وطن واپس جانا چاہتے ہیں لیکن جب تک نواز شریف کی صحت کی صورتحال بہتر نہیں ہوتی تب تک وطن واپسی کیسے ممکن ہے۔
نواز شریف کی ضمانت کے حوالہ سے بھی کافی بات ہوئی۔ شریف خاندان کی رائے ہے کہ انھیں عدالت سے ریلیف مل جائے گا۔ لیکن میرا بار بار سوال تھا کہ اگر عدالت نے ریلیف نہ دیا تو کیا ہوگا۔ اس ضمن میں بھی مجھے شریف فیملی میں یکسوئی نظر آئی۔ اگر عدالت نے نواز شریف کی ضمانت میں توسیع نہ کی تو شریف فیملی حکومت کو سرپرائز دے گی۔ شریف فیملی کا خیال ہے کہ حکومت سیاسی بلف سے کام لے رہی ہے۔ حکومت کو نواز شریف کی صحت کے بارے میں مکمل علم ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عمران خان اور ان کی ٹیم یہ چانس لے رہی ہے کہ نواز شریف ضمانت کی منسوخی کے بعد بھی واپس نہیں آئیں گے۔ اس لیے انھیں اس معاملہ پر سیاست کرنے کا موقع مل جائے گا۔
شہباز شریف سے مختلف ملاقاتوں سے مجھے اندازہ ہوا ہے کہ اس ضمن میں بیک چینل ڈپلومیسی سے بہت بات ہو رہی ہے۔ متعلقہ حلقوں پر یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ اگر ضمانت منسوخ ہوئی تو نواز شریف فوری وطن واپس آجائیں گے۔ شہباز شریف کے لندن رکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس صورتحال میں اکیلے نواز شریف کا وطن واپس آنا ٹھیک نہیں ہے بلکہ شہباز شریف اس بار نواز شریف کے ساتھ وطن واپس آئیں گے۔
جیسے انتخابات سے قبل جب سزا ہوئی تھی تو نواز شریف بیگم کلثوم نواز کو بیمار چھوڑ کر وطن واپس آگئے تھے۔ اسی طرح اس بار نواز شریف اپنی بیماری کو بالائے طاق رکھ کر فوری وطن واپس آسکتے ہیں۔ یہ حکومت کی بلف گیم کو ایک بڑاسرپرائز ہوگا۔ دونوں شریف برادران اکٹھے وطن واپس آئیں گے۔ ایسی صورتحال کی خوشبو مجھے لندن میں محسوس ہوئی۔ تاہم اس سے بچنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔
لندن میں مختلف ملاقاتوں میں مجھے یہ بھی اندازہ ہوا ہے کہ شریف فیملی مکمل طور پر ایک پیج پر ہے۔ ویسے تو نواز شریف اور شہباز شریف ہمیشہ سے ہی ایک پیج پر رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی میں ن لیگ کے موجودہ بیانیہ کے حوالہ سے جو گفتگو ہوئی ہے اس ضمن میں بھی صورتحال واضح ہے۔ شہباز شریف کے آرمی ایکٹ کو ووٹ دینے سے لے کر اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت کے تمام اقدامات کو نواز شریف کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ مریم نواز کی خاموشی بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مریم نواز اور شہباز شریف بھی ایک پیج پر ہیں۔
لندن میں اس بات پر سوچ بچار ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنی عوامی احتجاج کی مہم کب اور کیسے شروع کرے۔ اس مہم کی ٹائمنگ پر ن لیگ کی قیادت اور بالخصوص لندن میں سنجیدہ سوچ بچار ہو رہی ہے۔ شہباز شریف لندن سے واپسی پر ایک بڑی عوامی مہم کی قیادت کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس مہم میں عوامی جلسے اور ریلیاں شامل ہیں۔ ن لیگ اگلے انتخابات کے انتظار میں ہے۔ ہدف یہی ہے کہ اگلے انتخابات میں ایک فری ہینڈ مل جائے۔ 2018 کے انتخابات والی صورتحال سے بچا جائے۔ شہباز شریف کو یقین ہے کہ اگر مفاہمت کامیاب ہو جائے اور انتخابات میں رکاوٹ نہ ہو تو تحریک انصاف اور عمران خان کو ہرانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
شہباز شریف کو اندازہ ہے کہ عمران خان دن بدن غیر مقبول ہو رہے ہیں۔ مہنگائی سے عوام تنگ ہیں۔ اگر ن لیگ کوشش کرے تو ایک عوامی مہم چلائی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کی ٹائمنگ اور نواز شریف کی صحت جیسے دو معاملات رکاوٹ ہیں۔ شہباز شریف23مارچ کو بڑے جلسہ کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔ لیکن پھر نواز شریف کی صحت کی وجہ سے رک جاتے ہیں۔
شہباز شریف ویسے تو کسی ان ہاؤس تبدیلی کو نہیں دیکھ رہے۔ لیکن پھر بھی بجٹ کے بعد حالات میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ کھیل بجٹ کے بعد شروع ہوگا۔ انھیں فارن فنڈنگ کیس میں ابھی بھی جان نظر آرہی ہے۔ وہ اس کیس کو دوبارہ چلتا دیکھ رہے ہیں۔ میں نے کئی بار ان سے ن لیگ اور ان کے خلاف مقدمات کے بارے میں پوچھا وہ یہی کہتے کہ حالات بدلیں گے۔ فکر نہ کریں۔ منظر نامہ ہی بدل جائے گا۔
بہر حال ن لیگ پر شہباز شریف کی گرفت مضبوط ہوتی نظر آرہی ہے۔ نواز شریف بھی انھیں آگے لا رہے ہیں۔ اور جماعت میں بھی شہباز شریف کی گرفت مضبوط ہوتی نظر آرہی ہے۔ شاید کچھ لوگ شاہد خاقان عباسی پر متفق نہ ہوں۔ ان پر ان لوگوں کو اعتراض ہے۔ مریم نواز بھی اگلے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی ہیں۔ اس لیے شہباز شریف کی قیادت پر پوری ن لیگ متفق نظر آرہی ہے۔ یہ صورتحال اسٹبلشمنٹ کے لیے بھی قابل قبول نظر آرہی ہے۔