Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Pakistan Ki Kharja Policy Kya Hai?

Pakistan Ki Kharja Policy Kya Hai?

پاکستان نے ملائیشیا میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت نہیں کی ہے۔ اس پر آج کل بحث و مباحثہ ہو رہا ہے بلکہ شاید ایک ایشو بن گیا ہے۔ میری رائے میں اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ اتنا برا نہیں تھا، جتنے برے طریقے سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس سے پاکستان کی بہت سبکی ہوئی ہے۔ کانفرنس میں نہ جانے کا پاکستان کو کوئی خاص فائدہ نہیں حالانکہ کسی کانفرنس میں کسی ملک کا شریک نہ ہونا کوئی بہت بڑا ایشو یا مسئلہ نہیں ہوتا۔ پاکستان کے پالیسی سازوں نے انتہائی اہم خارجہ معاملے کو بچگانہ اور غیر سنجیدہ انداز میں ہینڈل کیا گیاہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کو عرب ممالک سے اپنے تعلقات کی نوعیت کا اندازہ نہیں تھا؟ کیا ہمیں معلوم نہیں تھا کہ خوشحال عرب ممالک نے اگر کشمیر پر ہمارا ساتھ نہیں بھی دیا تو انھوں نے مشکل اقتصادی حالات کے دوران پاکستان کی غیرمعمولی انداز میں مالی مدد کی ہے۔ کیا ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہم ان سے ادھار تیل بھی لے رہے ہیں۔

کیا ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ لاکھوں پاکستانی روزگار کی تلاش میں امیر خلیجی عرب ممالک میں مقیم ہیں۔ کیا ہمیں نہیں معلوم تھا کہ خدا نخواستہ اگر یہ لاکھوں پاکستانی اچانک واپس آگئے تو بیرون ملک سے پاکستان آنے والی ترسیلات میں کس قدر کمی ہو جائے گی اور ملک میں بیروز گاری کی شرح کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ او آئی سی چاہے کمزور ہی سہی لیکن پھر بھی ہم او آئی سی کو چھوڑنے کی ہمت نہیں رکھتے ہیں کیونکہ یہی وہ فورم ہے جہاں سے ہمیں زبانی ہی سہی خارجہ محاذ پر کچھ نہ کچھ مدد ضرور مل جاتی ہے۔ بارہا مواقعے پر او آئی سی نے تنازعہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی کھلی حمایت کی یہ الگ بات ہے کہ عرب ممالک کے بھارت کے ساتھ گہرے اقتصادی رشتے بھی ہیں لیکن اس کے باوجود کہیں نہ کہیں ہمیں ان کی مدد اور تعاون حاصل رہا ہے۔ کیا ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہم عربوں کے مخالف کسی بلاک میں شمولیت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

یہی فہم خارجہ پالیسی کی بنیاد ہوتی ہے۔ اگر یہ سب کچھ ہمیں معلوم تھا تو ہمیں اقوام متحدہ کی سائیڈ لائنز پر مہاتیر محمد اور طیب اردگان سے کسی متنازعہ کانفرنس کی بات نہیں کرنی چاہی تھی۔ جب ہمیں اپنی مجبوریوں کا علم تھا تو ہمیں، انھیں مدنظر رکھ کر ہی اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔

اگر پاکستان پہلے دن سے ایک موقف لیتا کہ ہم او آئی سی کے مقابلے میں کسی نئے فورم کے حق میں نہیں ہیں۔ تو آج اس کانفرنس میں عدم شرکت کی بنا پر ابہام پیدا نہ ہوتا اور سعودی عرب کو بھی کسی قسم کی وضاحت نہ کرنی پڑتی اور نہ ہی ملائیشیا اور ترکی ہمارے بارے میں ابہام کا شکار ہوتے۔ میں حیران ہوں جب ہم نے کانفرنس میں نہ جانے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو اتنی عجلت میں سعودی عرب جانے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر عمران خان اتنی عجلت میں نہ جاتے تو شاید اتنا شور نہ مچتا۔ سعودی عرب کا دورہ اس کانفرنس کے بعد بھی کیا جا سکتا تھا۔ اس غلط ٹائمنگ کی وجہ سے ابہام پیدا ہوا۔

ہم وہی پاکستان ہیں جب گزشتہ دور میں یمن کی لڑائی کے حوالے سے وہاں پاکستانی سپاہی بھیجنے کی بات سامنے آئی تو ہم نے پارلیمنٹ میں کھلی بحث کرائی تھی۔ پھر پارلیمنٹ نے فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تو اس پر قائم بھی رہے۔

تب بھی تو لاکھوں پاکستانی خلیجی ممالک میں کام کر رہے تھے۔ لیکن ان کو کسی ملک نے نہیں نکالا اور نہ ہی انھیں کسی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ میں تو حیران ہوں کہ گزشتہ حکومت میں جب عرب دنیا نے قطر سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔ تو پاکستان نے قطر سے گیس لینے کا معاہدہ کرلیا تھا۔ اس وقت بھی ہم پر کسی نے کوئی دباؤ نہیں ڈالا تھا بلکہ اب تو معاہدے میں کرپشن کی باتیں کی جاتی ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اسی ریفرنس میں قید ہیں۔

اصل مسئلہ ہماری خارجہ پالیسی میں تسلسل نہ ہونا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کا کوئی رخ بھی نہیں ہے۔ ایک جانب ہم امریکا کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری طرف چین کی طرف بھی جانا چاہتے ہیں۔ لیکن غور کیا جائے تو ہمیں دونوں محاذوں پر خاطر خواہ کامیابی نہیں مل رہی۔ اگر ہم امریکا کوخوش ہی کر رہے ہیں۔ تو پھر FATF میں کیوں پھنسے ہوئے ہیں۔ بھارت کیوں روز آنکھیں دکھا رہا ہے۔ کیوں سرحدیں گرم ہیں۔ ایک طرف امریکا بھارت ٹو پلس ٹو مذاکرات میں پاکستان کے خلاف بات ہو رہی ہے۔

دوسری طرف ہم امریکی خوشنودی کے لیے ہر کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہ کیا خارجہ پالیسی ہے۔ کیا کسی کی سمجھ میں کچھ آرہا ہے۔ ہم کہاں اور کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کون ہمارے ساتھ کھڑا ہے۔ ٹرمپ کی دوستی کے ثمرات کہاں ہیں۔ وہ جو ٹرمپ سے ملاقات کے بعد ورلڈ کپ جیتا گیا تھا۔ وہ کہاں ہے۔ ہمیں کیوں نظر نہیں آرہا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر ہم امریکا کے ساتھ چل رہے ہیں تو پھر کم از کم ہمیں ایسے معاملات پر ریلیف ملنا چاہیے تھا جو امریکا اور اس کے اتحادیوں سے منسلک ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر ہمیں امریکا اور یورپ کی حمایت حاصل ہونی چاہیے تھی، لیکن ایسا نظر نہیں آ رہا، البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاملات بہتر ہوئے ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے لیے پاکستان کو بھاری قیمت بھی ادا کرنی پڑرہی ہے۔ ملک میں جو مہنگائی ہے اس کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف کی پالیسیاں ہی ہیں۔

تبدیلی کی اس دعویدار حکومت نے گزشتہ دور حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی کی بہت قصہ کہانیاں بیان کی تھیں۔ ایک بیانیہ بنایا گیا تھا کہ پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں تھا۔ اس لیے پاکستان خارجہ محاذ پر کوئی بڑی کامیابی حا صل نہیں کر سکا۔ ہم نے بیرونی دنیا سے بات ہی نہیں کی۔ میاں نواز شریف کی خارجہ پالیسی پر زبردست تنقید کی جا رہی تھی لیکن آج ہم جس عالمی تنہائی کا شکار ہیں، اس کی بنیادی وجہ بھی ناکام خارجہ پالیسی تھی۔

پی ٹی آئی اور وزیراعظم عمران خان نے انتخابی مہم میں عوام کو سنہرے خواب دکھائے تھے۔ کہ وہ حکومت میں آئے تو نواز شریف کی برعکس ایک وزیر خارجہ تعینات کیا جائے گا اور ایک ایسی خارجہ پالیسی تیار کی جائے گی جس پر چل کر ہم امریکا اور چین کو ساتھ لے کر چل سکیں گے۔

اب پی ٹی آئی کی حکومت بن چکی ہے۔ عوام نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ایک تجربہ کار وزیر خارجہ آگئے ہیں۔ وہ معاملات کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ان کی خارجہ امور پر گرفت بہت مضبوط ہے۔ عالمی دنیا کی قیادت کے لیے پاکستان کے نئے وزیر اعظم ایک قائدانہ کردار ادا کریں گے کیونکہ ان کی شخصیت کرشماتی ہے اور وہ ایک مدبر بھی ہیں لیکن ابھی تک ہمیں خارجہ پالیسی میں کامیابی نظرنہیں آ رہی۔ ہم نے تو امت مسلمہ میں مصا لحت کرانی تھی۔ ہم نے تو سعودی عرب اور ایران میں ثالث کا کردار ادا کرنا تھا۔ ہم تو عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت تھے۔

ہم نے تو امت مسلمہ کا دفاع کرنا تھا۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ایک کانفرنس میں عدم شرکت ہی ہمارے لیے ایشو بن گیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم دنیا کو یہ سمجھا سکتے کہ کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ ہمارا تھا۔ ہم کسی دباؤ میں نہیں تھے۔ لیکن شاید ہم اپنی بے بسی کے ڈرامے کو بھی انجوائے کر رہے ہیں۔ یہی ہماری خارجہ پالیسی ہے۔ اسی کو تبدیلی سمجھیں۔

قوموں کی برادری میں باہمی تعلقات قائم رکھنا ایک آرٹ ہوتا ہے۔ ہمیں ایسی خارجہ پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کر بھی لیتے تو کسی کو اعتراض نہ ہوتا اور اگر نہ بھی کرتے تو تب بھی کسی کو کوئی بات کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔